Episode 3 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 3 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

Akcent کا Stay with me فل والیوم میں بج رہا تھا۔ کار کے شیشے تک دھمک سے لرز رہے تھے رنم بہت ریش ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ کام مسٹ“ یونیورسٹی کا آہنی گیٹ سامنے تھا۔ گاڑی کی رفتار اُس نے میکانکی انداز میں کم کی۔ آدھے گھنٹے کا راستہ اُس نے پندرہ منٹ میں طے کیا تھا۔ اس تیز رفتاری سے احمد سیال بھی خائف رہتے تھے۔ پر وہ رنم سیال ہی کیا جو اُن کی بات مان لیتی۔
وہ زندگی کے ہر معاملے میں تیز رفتاری اور ساتھ چلنے والوں کو پیچھے چھوڑنے کی قائل تھی۔ لگی بندھی زندگی اور روٹین سے اُسے نفرت تھی۔ اُسکی رگوں میں خون کی جگہ جیسے پارہ مچلتا تھا۔ ”ہائے رنم“ گاڑی پارکنگ لاٹ میں چھوڑ کر وہ جیسے ہی نکلی پیچھے سے راعنہ کی آواز سن کر رُک گئی۔ وہ قریب آچکی تھی۔ ”ہائے ہاؤ آر یو“ رنم نے اُس کا نرم و نازک ہاتھ تھام لیا۔

(جاری ہے)

جواباً راعنہ نے اُسکے گال سے گال ملا کر ملنے کی رسم پوری کی۔ ”فائن تم سناؤ آج کچھ لیٹ آئی ہو“ دونوں پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے کلاس روم کی طرف چل دیں۔ رات کو لیٹ سوئی تھی اس لئے لیٹ ہوں لیکن اتنی بھی نہیں“ اُس نے اپنی کلائی میں بندھی قیمتی ریسٹ واچ پہ سرسری سی نظر ڈالی جیسے کچھ جتانا چاہ رہی ہو”ہاں تم ٹائم پہ آتی ہو ناں اسلئے فیل ہوا مجھے“ راعنہ کا انداز اب دفاعی تھا۔
اُس نے رشک سے رنم کے چمکتے پرکشش چہرے کی طرف دیکھا۔ اُس نے نیک ٹاپ کے نیچے ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور گلے میں ہلکا سا اسکارف۔ براؤن بال بڑے غرور سے کندھے پہ پڑے گلابی رخساروں کی بلائیں لے رہے تھے اُس کی پوری شخصیت سے آسودگی کا اظہار ہو رہا تھا۔
کلاس شروع ہونے والی تھی کیونکہ سر ہمدانی انکے ساتھ ہی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ ”دیکھ لو لیٹ ہونے کے باوجود میں اتنی بھی لیٹ نہیں ہوئی“ اُسکے چمکتے چہرے اور آنکھوں میں غرور تھا۔
دل ہی دل میں راعنہ کو رشک سا ہوا۔ اُس کا بے پناہ اعتماد ہی اُس کی خوبصورتی کا سرچشمہ تھا۔
اشعر کومل اور فراز کلاس میں پہلے سے موجود تھے۔ وہ انکے پاس پڑی کرسیوں پہ بیٹھ گئی۔ رنم اور راعنہ کی طرح ان تینوں کا تعلق بھی کھاتے پیتے آسودہ حال خوش حال خاندان سے تھا، ان پانچوں کا اپنا گروپ تھا۔ یہ سب بی ایس آنرز چھٹے سمسٹر کے طالب علم تھے۔
کومل اور اشعر خاصے پڑھاکو تھے۔رنم صرف امتحانات کے دوران پڑھنے والی طالبہ تھی راعنہ کا بھی یہی حال تھا مگر فراز پڑھائی میں ان سب سے زیادہ سنجیدہ تھا۔پانچویں سمسٹر میں اس نے ٹاپ کیا تھا۔ ان چاروں کو پڑھائی میں اگر کوئی مشکل ہوتی تو فراز سے ہی رجوع کرتے۔ رنم اُس سے بہت کلوز تھی۔ وہ اسے اپنا بیسٹ فرینڈ کہتی تھی۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اُس سے شیئر کرتی۔
فراز بھی اسے اہمیت دیتا، انکی دوستی مثالی تھی۔
سر ہمدانی کا لیکچر شروع ہو چکا تھا۔ سب کی نظریں اُن پہ جمی تھیں۔
                                       ###
گاڑی دائیں طرف نظر آنے والی ذیلی سڑک پہ مڑ چکی تھی۔ جوں گاڑی آگے بڑھ رہی تھی سفید عمارت کے پرشکوہ نقوش واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اُس کی خوب صورتی کھلنا شروع ہوچکی تھی۔
بالآخر چند منٹ میں ہی یہ سفر تمام ہوا۔ ڈرائیور نے گیٹ پہ پہنچ کے ہارن دیا۔ گیٹ کے ساتھ دیوار پہ بنی مچان کے اوپر دو باوردی محافظ آتشیں اسلحے سمیت پہرا دے رہے تھے۔ گیٹ کھلا تو ڈرائیور طویل ڈرائیو وکے بعد گاڑی اندر لے آیا۔
اب وہ ادب سے نیچے اتر کر گاڑی کا دروازہ کھول چکا تھا۔ملک ابیک نے گاڑی سے باہر قدم رکھا۔ تاحد نگاہ رہائشی حصے کے باہر سبزہ اور قیمتی پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔
وہ نپے تلے با وقار قدموں سے چلتا رہائشی عمارت کی طرف جارہا تھا۔ لمبا قد قدرے سرخی لیئے گندمی رنگت گہرے بادامی رنگ کی پرسوچ آنکھیں توانا اور مضبوط جسم پہ سجتا کھدر کی قیمتی کرتا شلوار اسکی چال میں مضبوطی اور وقار تھا۔ پورے سراپے سے مضبوطی اور نفاست کا اظہار ہو رہا تھا۔
وہ حویلی کے درمیانی حصے میں داخل ہوچکا تھا یہاں چھت کی بلندی دُگنی تھی۔
اسے حویلی کا فیملی لاؤنج سمجھا جاسکتا تھا۔ قیمتی پردے بیش قیمت قالین اورخوبصورت ڈیکوریشن پیسز یہاں کی رونق بڑھا رہے تھے۔
ملک ارسلان اور عتیرہ چچی سے سب سے پہلے سامنا ہوا۔ اس نے پرجوش طریقے سے سلام کیا۔ ملک ارسلان نے اسے خود سے لپٹا لیا۔ انکے روم روم میں ٹھنڈک سی اُتر گئی ساتھ ایک حسرت ناتمام بھی دل کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آگئی”کیسے ہو ابیک؟“ انہوں نے پرجوش مصافحے و معانقے کے بعد خیر خیریت دریافت کی۔
”چچا جان الحمداللہ میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں حویلی میں سب ٹھیک ہیں ناں“ ہاں سب ٹھیک ہیں لیکن تم نے شہر میں بڑے دن لگا دئیے۔“
ارسلان اسکے چوڑے کندھے پہ ہاتھ رکھے اسکے جوان کڑیل سراپے کو بڑی محبت سے دیکھ رہے تھے۔ دونوں اب صوفے پہ بیٹھ گئے تھے۔ عتیرہ چچی بھی ساتھ تھی۔ کچھ مصروفیت تھی اس وجہ سے تھوڑا زیادہ ٹائم لگ گیا۔ بابا جان نظر نہیں آرہے ہیں”اس کی نگاہیں انہی کو کھوج رہی تھیں۔
“ بھائی جان اپنے کمرے میں ہیں ان کی طبیعت ناساز سی ہے۔“ کیا ہوا ہے بابا جان کو”ملک ارسلان کے بتانے پہ وہ مضطرب ہوگیا۔ ”بھائی جان کو موسمی بخار اور نزلہ زکام اور یہ کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں“ ملک ارسلان نے اس کی فکر مندی دیکھتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا”میں بابا جان کی خیر خبر لے لوں“ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ چلا گیا۔
ملک ارسلان اور عتیرہ اپنی باتوں میں لگ گئے۔ مگر موضوع گفتگو ملک ابیک ہی تھا۔
بابا جان کمبل اوڑھے بیڈ پہ نیم دراز تھے۔ پاس ہی افشاں بیگم بیٹھی ان سے باتیں کر رہی تھی۔ ملک ابیک کو دیکھ کر پھول کی طرح کھل اٹھیں۔ ”کب آئے تم“ انہوں نے اٹھ کر اس کا ماتھا چوما وہ بیڈ پہ بابا جان کے پاس بیٹھ گیا”تم ٹھیک ہو ناں؟“ ملک جہانگیر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
”بابا جان میں تو ٹھیک ہوں آپ نے کیوں طبیعت خراب کرلی ہے“ اس کے لہجے میں محبت آمیز احترام کی آمیزش تھی۔ ”موسمی نزلہ زکام ہے ٹھیک ہوجاؤں گا۔ موسم بدلتے ہی میں بیمار پڑ جاتا ہوں بوڑھا جو ہو گیا ہوں کچھ بھی نہیں کرسکتا اب“ وہ دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے۔ ’
’ارسلان چاچا ہیں ناں انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے دیں آپ صرف آرام کریں۔
“ ”میں سارا دن آرام ہی تو کرتا ہوں اور کیا کرنا ہے اب میرے دو کڑیل جوان بیٹے ہیں سب کچھ انکے حوالے کر کے اللہ اللہ کرنا ہے بس“ وہ بڑے بشاش نظر آرہے تھے۔ افشاں بیگم تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کچن کی طرف آگئی۔ ملک ابیک اتنے دنوں بعد آیا تھا ممتا سے ان کا دل لبریز ہورہا تھا۔ وہ ایک ایک چیز اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانا چاہ رہی تھیں۔ تینوں نوکرانیوں کو انہوں نے کھانے پکانے پہ لگا دیا۔
اور خود اپنے ہاتھوں سے لاڈلے بیٹے کے لئے سیب کاٹنے لگیں۔ معاذ ملک تو پاکستان سے باہر تھا ان کی ساری محبت و توجہ کا محور فی الحال ابیک ہی تھا۔ وہ اسکے لئے کٹے سیب اور انواع واقسام کے پھل لے کر واپس آئیں تو ارسلان ملک بھی وہاں موجود تھے۔
ملک جہانگیر اب ہشاش بشاش ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔
”میں تو کہتا ہوں اب ملک ابیک کی شادی ہوجا نی چاہئے تاکہ”ملک محل“ میں بہار آجائے۔
ملک ارسلان نے شرارت سے ابیک کو تکتے ہوئے ملک جہانگیر کو مشورہ دیا۔ ”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے لیکن معاذ پاکستان آجائے تو لگے ہاتھوں اسکے لئے بھی لڑکی دیکھ لوں“ انہوں نے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ابیک قطعاً ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ”کوئی لڑکی ہے آپ کی نظر میں؟“ ”لڑکیاں تو بہت ہیں مگر میں اپنے بیٹے کی پسند کی دلہن لاؤں گی“ اس سے پہلے کہ ملک جہانگیر کوئی جواب دیتے افشاں بیگم بول پڑیں۔ اس سے پہلے کہ مزید اس موضوع پہ بات ہوتی ملازم نے باہر مردانے میں مہمانوں کے آنے کی اطلاع دی تو تینوں مرد اُس طرف چلنے لگے۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja