Episode 4 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 4 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان کالج ہال میں دیگر اسٹوڈنٹس سمیت ڈرامے کی ریہرسل کر رہی تھی۔ ڈرامہ فورتھ ائیر کی آمنہ رحمان نے لکھا تھا اور فورتھ ائیر کی طالبات ہی ایکٹ کر رہی تھیں۔ ان سے ایک ذیان بھی تھی۔ ڈرامے میں اس کا رول لڑاکا اور شکی مزاج سخت دل شوہر کا تھا۔ گیٹ اپ اور آواز بدلنے میں ذیان کو مہارت حاصل تھی تب ہی تو اسے اس رول کے لئے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔
اُسے شروع سے ہی اکیلے میں خود سے باتیں کرنے کی عادت تھی۔ یہ عادت اداکاری کے شوق میں کب ڈھلی ٹھیک طرح سے اس کا علم ذیان کو بھی نہ تھا۔
اس کی موٹی موٹی غلافی آنکھیں تاثرات دینے میں لاجواب تھیں۔ وہ اپنے ڈائیلاگز کی ریہرسل کر رہی تھیں اس کی بیوی کا رول بی ایس سی کی صندل منور ادا کر رہی تھی۔ دونوں اس وقت مکمل گیٹ اپ میں تھیں آج فائنل ریہرسل تھی۔

(جاری ہے)

قدرے دبے ہوئے پھولوں کے پرنٹ والے کپڑوں میں ملبوس بکھرے بالوں میں صندل منور ڈری سہمی بیوی کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔ ذیان کا گیٹ اپ مردوں والا تھا۔ امیر علی کے براؤن کلر کے کرتے شلوار میں ملبوس سر کے بالوں کو پگڑی میں چھپائے مصنوعی مونچھیں لگائے وہ مکمل طور پہ بدلے حلیئے میں تھی اپنے مکالمے مردانہ لب و لہجے میں گھن گرج کے ساتھ ادا کرتے ہوئے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہی ذیان ہے۔
میڈم فریحہ نے تالیاں بجا کر اپنے اطمینان کا اظہار کیا تو وہ دونوں آ کر کرسیوں پہ بیٹھ گئیں۔ اب اگلی ریہرسل شروع تھی۔ میڈم فریحہ ڈرامیٹک سوسائٹی کی انچارج اور کرتا دھرتا تھی۔ کالج میں ہونے والی ایسی تمام غیر نصابی سرگرمیوں کو انہوں نے اپنی محنت سے بھرپور بنانا ہوتا تھا۔
ذیان کا کام ختم ہوچکا تھا وہ میڈم فریحہ سے اجازت لے کر کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔
اب وہ کالج کے سفید یونیفارم اور سفید ہی دوپٹے میں ملبوس تھی۔ اپنے اصل حلئیے میں لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی ذیان ہے جو تھوڑی دیر بیشتر ایک ظالم جابر شوہر کا رول ادا کر رہی تھی۔
میڈم فریحہ بڑے مزے میں اکثر اسے مشورہ دیتی کہ ایکٹنگ کے میدان میں آجاؤ۔ آج بھی حسب سابق انہوں نے پرانی باتیں دہرائی۔ ”ذیان تم ٹی وی کا رخ کرو بہت صلاحتیں ہیں تم میں ایک اچھی اداکارہ بن سکتی ہو۔
تمہارے فیس ایکسپرشینز بالکل نیچرل ہیں ڈرامہ انڈسٹری میں تہلکہ مچا سکتی ہو۔ ”وہ سن کر مسکرا دی“ میڈم جس خاندان سے میرا تعلق ہے وہاں شوبز کو گالی سمجھا جاتا ہے اسلئیے لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں نہیں کرپاؤں گی۔“ اسکے لہجے میں تلخی گھلی ہوئی تھی۔ میڈم فریحہ نے کندھے اچکائے جیسے کہہ رہی ہوں تمہاری مرضی۔ اُدھر دل ہی دل میں ذیان کو جانے کیوں یکدم غصہ آگیا تھا۔
”ہا ہا ہا اچھی اداکارہ … نیچرل ایکسپریشنر“ میڈم فریحہ کی باتیں دل میں دہراتے ہوئے طنزیہ ہنسی ہنس رہی تھی۔
اسی کیفیت کے زیر اثر وہ گھر پہنچی۔ دروازہ اسکی چھوٹی بہن رابیل نے کھولا۔ اس نے ہلکی آواز میں سلام کیا جواباً رابیل نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ ذیان اندر آگئی۔ بیگ رکھ کر وہ برآمدے میں لگے واش بیسن سے منہ ہاتھ دھونے لگی۔
سامنے کچن کے دروازے سے رحمت بوا کی جھلک نظر آرہی تھی اُسے آتے دیکھ کر وہ کھانا گرم کر رہی تھی۔ ذیان منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم میں ہی کچن کی طرف چلی آئی۔ آج بھوک زوروں پہ تھی۔ صبح ناشتے کے نام پہ اس نے چند گھونٹ چائے پی تھی۔ پھر کالج میں سارا دن ڈرامے کی بھاگ دوڑ میں گزرا تھا۔
کینٹین جانے کا موقعہ ہی نہیں ملا تھا۔ ”بوا کیا پکایا ہے؟“ بھوک اسے مزید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
مٹر قیمہ اور ساتھ میں چاول ہیں کہو تو دو کباب بھی فرائی کردوں؟“ بوا پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔ ”جو مرضی ہے کریں لیکن پہلے میں چاول کھاؤں گی۔“ وہ کچن میں پڑی چھوٹی سی ڈائیننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکی تھی۔ بوا فریج سے کباب نکال کر تل رہی تھی ساتھ اُسے سارے دن کی روداد سنا رہی تھی وہ رغبت سے کھانا کھاتے ہوئے سن رہی تھی۔
                                     ###
”آپ نے ذیان کے بارے میں کیا سوچا ہے؟“ امیر احمد کے گرد کمبل ٹھیک کرتے ہوئے زرینہ بیگم نے اچانک یہ عجیب سوال کردیا۔ امیر احمد نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کیا۔ ”میں تمہاری بات نہیں سمجھا“
”کمال ہے آپ جوان بیٹی کے باپ ہو کر یہ کہہ رہے ہیں“ زرینہ بیگم نے جیسے نامحسوس انداز میں اُن پہ طنز کیا۔
”کھل کر بات کرو“ الجھن بدستور انکے لہجے میں موجود تھی۔ ”ذیان اس سال اپنی کالج کی تعلیم مکمل کرلے گی“ زرینہ بیگم نے سنبھل کر بات کا آغاز کیا”تو؟“ امیر احمد نے پھر سے اپنی سوالیہ نگاہیں اس پہ ٹکائیں۔ ”تو آپ نے اسکی شادی وغیرہ کا کچھ سوچا“ اس بار اطمینان کی سانس انکے سینے سے خارج ہوئی۔ ”پہلے وہ تعلیم تو مکمل کرلے پھر سوچیں گے اس پہ“
لڑکیوں کو مناسب وقت پہ اپنے گھر بار کا کردینا چاہیے تعلیم وغیرہ شادی سے ضروری تو نہیں“ زرینہ بیگم اپنے اختلاف سمیت آہستہ آہستہ سامنے آرہی تھی۔
”ذیان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے …“ انہوں نے اچانک بات ادھوری چھوڑ دی تو زرینہ بیگم کے چہرے پہ غصہ نظر آنے لگا”تو کیا ساری عمر اسے پڑھانے کا ارادہ ہے؟“ چبھتے ہوئے لہجے میں طنزیہ استفسار تھا۔ ”میں نے ساری عمر نادانستگی میں اسے نظر انداز کیا ہے میری بیٹی مجھ سے دور ہوگئی ہے کم سے کم میں اس کی یہ خواہش نظر انداز نہیں کرسکتا“ انکے لہجے میں احساس زیاں بول رہا تھا۔
جس نے سر سے پاؤں تک زرینہ بیگم کو جھلسا دیا”ہاں ہاں آپ کیوں اس کی کوئی خواہش نظر انداز کریں گے آپ کی چہیتی کی اولاد جو ہے“ امیر احمد نے زخمی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ ”تم اچھی طرح جانتی ہو میں نے ذیان کے ساتھ کتنی زیادتی کی ہے وہ متنفر ہے مجھ سے … میں نہیں چاہتا اسکی دیرینہ خواہش کے راستے میں رکاوٹ بنوں” ”لیکن میں اب اسے اور اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتی … اسکے بعد رابیل بھی ہے مجھے اس کا بھی سوچنا ہے“ ”رابیل ابھی بہت چھوٹی ہے اللہ اچھی کرے گا“ امیر احمد کے انداز میں شکست نمایاں تھی۔
”آپ کو کیا پتہ بیٹیوں کے رشتے کے لیئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ابھی سے ذیان کے لیے کوشش کا آغاز کروں گی تو کچھ ہوگا ناں۔میں دیکھ بھال کر ذیان کے لیے اچھا رشتہ ہی تلاش کروں گی دشمن نہیں ہوں اس کی ماں ہوں“ امیر احمد کی پسپائی دیکھ کر وہ بھی نرم پڑ گئی تھی۔ تبھی دروازے پہ مخصوص دستک کی آواز ابھری یہ بوا رحمت تھی جو سونے سے پہلے معمول کے مطابق انکے لیے خود دودھ لے کر آئی تھی۔
زرینہ نے غور سے ان کا چہرا دیکھا مگر وہاں بے نیازی تھی کوئی کھوج کوئی بھید کوشش کے باوجود بھی وہ تلاشنے میں ناکام رہی۔ وہ دودھ رکھ کر جاچکی تھی دروازہ پہلے کی طرح بند تھا۔
زرینہ نے اطمینان کی سانس خارج کرتے ہوئے دودھ کے گلاسوں سے اٹھتی بھاپ کی طرف نگاہ جمادی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ بوا نے ابھی ابھی دودھ گرم کیا ہے۔ ”آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا“ وہ پھر سے امیر احمد کی طرف متوجہ ہوئی اور باتوں کا ٹوٹا سلسلہ وہیں سے جوڑنا چاہا جہاں سے ٹوٹا تھا۔
”ہاں جوتمہیں اچھا مناسب لگتا ہے کرو…“ ایک بھرپور قسم کی پسپائی امیر احمد کے پورے وجود سے جھانک رہی تھی۔ زرینہ بیگم کو یک گو نہ اطمینان کا احساس ہوا۔ ”وہ شروع سے فاتح رہی تھی اس محاذ پہ بھی امیر احمد نے لڑے بغیر ہتھیار پھینک دئیے تھے۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja