Episode 97 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 97 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان بیڈ روم میں موجود تھی۔ ابیک اچانک کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کوئی نہ کوئی طوفان آنے والا ہے۔ وہ بے پناہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔
”ذیان بیٹھو مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھ گیا۔
اس نے خود کو پرسکون کرنے کے لیے پانی پیا۔ اور بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ ذیان سمجھ گئی تھی کہ اس نے کیا بات کرنی ہے۔
”مجھے معلوم ہے میرا آپ کے ساتھ شادی کا فیصلہ غلط ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ رشتہ طے کرتے وقت آپ کی مرضی معلوم نہیں کی گئی یہ بڑی غلطی تھی مگر نہ جانے رشتہ ہونے سے لے کر شادی کے درمیانی عرصے تک میں یہی سمجھتا رہا کہ آپ مجھے پسند کرتی ہیں۔ ورنہ پہلے میں نے سوچ رکھا تھا آپ کو سوچنے کا ٹائم دوں گا شادی لیٹ کروں گا تاکہ آپ ذہنی اور جذباتی طور پہ آمادہ ہوجائیں۔

(جاری ہے)

لیکن وہ میری غلطی تھی میں مانتا ہوں اور شادی کے دن ہی میں نے آپ کا رویہ محسوس کرلیا تھا۔ میں آپ کے کہے بغیر جان گیا۔ آپ کو کم سے کم مجھے تو بتانا چاہیے تھا کہ شادی میں آپ کی رضا مندی شامل نہیں ہے۔ آپ کسی اور کے ساتھ وابستہ رہیں کچھ دن پہلے تک ہرگز مجھے علم نہیں تھا۔ آپ صرف ایک بار مجھے بتا دیتیں تو میں آپ کو آپکے گھر واپس بجھوا دیتا۔
لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے وہاب آپ کا انتظار کر رہا ہے۔“ ذیان بڑے تحمل سے اس کی ایک ایک بات ایک ایک لفظ ایک ایک فقرہ سن رہی تھی آخر میں اس سے رہا نہیں گیا وہ بول ہی پڑی۔
”آپ میرے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں اور میں اپنے گھر میں ہی ہوں۔ مجھے اور کہیں نہیں جانا۔ مجھے کیا کرنا ہے میں جانتی ہوں۔ میں کوئی مٹی کا کھلونا نہیں ہوں جسے آپ اپنی مرضی کا روپ دینے پہ تل گئے ہیں۔
میری ایک اپنی شخصیت ہے اپنا نام ہے میں اپنے فیصلے خود کرتی ہوں۔ کون میرا انتظار کر رہا ہے کون نہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ مجھے اپنی ذات سے غرض ہے بس۔باقی دنیا کا ٹھیکہ میرے ذمے نہیں ہے۔“ وہ بری طرح بھری ہوئی تھی۔ ابیک جو یہ سوچ کر آیا تھا کہ وہاں روتی، بسورتی صفائیاں دیتی ذیان ملے گی اس کی جگہ آگ بگولہ بنی حسینہ سے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی حسینہ ایٹم بم سے۔
“میں تمہارے اور وہاب کے راستے سے ہٹ جاؤں گا۔“
”بڑی خوشی سے۔ لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میں کسی وہاب کو نہیں جانتی۔ ایک وہاب تھا روبینہ آنٹی کا بیٹا۔ لیکن مجھے کبھی بھی اس سے دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہے۔“ آپ چاہیں تو بوا اور زرینہ آنٹی سے تصدیق کرسکتے ہیں وہ آپ کو سب کچھ بتائیں گی لیکن خدا را مجھے میری نظروں میں مت گرائیں۔
میں نے صاف ستھری لائف گزاری ہے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر اٹھا کر۔ اور میرا یہ اٹھا سر کوئی نہیں جھکا سکتا ایک چھوڑ دس وہاب آجائیں۔ آپ کو ہیرو بننے کا شوق ہے تو شوق سے فضول قربانیاں دیں۔ لیکن مجھے کسی کے ساتھ انوالو مت کریں۔“
ذیان کا غصہ بولتے بولتے کم ہوگیا تھا۔
ابیک نے مکمل توجہ کے ساتھ اسے گرجتے برستے دیکھا۔ یہ انداز محبت میں چوٹ کھائی ہوئی زبردستی شادی کی جانے والی لڑکی کا تو نہیں تھا۔
یہ تو اپنی انا اور عزت نفس کو بچانے والی عزیز رکھنے والی کا تھا۔ جس کے لیے اس کا پندار اور نسوانی غرور سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کے بعد ابیک کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔
ذیان نے آناً فاناً بوا کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی ایک ہی رٹ تھی مجھے کچھ دن کے لیے بوا کے ساتھ جانا ہے۔ عتیرہ اسے بوا کے ساتھ بھیجنے کے حق میں نہیں تھیں۔
پہلے ہی وہ اس گھر سے بہت دکھ اٹھا چکی تھی۔ عتیرہ وہاب کی طرف سے بھی ڈری ہوئی تھیں۔
اور سب سے بڑھ کر بوا اسے ساتھ نہیں لے جانا چاہ رہی تھیں۔ ”تم اب شادی شدہ شوہر والی ہو۔ اپنے گھر میں رہو ہنسی خوشی۔“ انہوں نے رسان سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”بوا میں تو صرف کچھ دن کے لیے آپ کے ساتھ جا کر رہنا چاہتی ہوں۔“ وہ نروٹھے پن سے گویا ہوئی۔
”بوا کو بہت جلدی ہم یہاں لے آئیں گے کیوں بوا؟“ عتیرہ نے تائید چاہنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا۔ ”میں چھوٹی دلہن کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ناں اور ذیان بھی بہت پیاری ہے مجھے۔ میں مہینے دو مہینے میں ملنے آجایا کروں گی۔ ناراض مت ہونا۔“ ذیان کو بوا کی وفاداری پہ پیار آگیا کون کسی کے ساتھ اتنا مخلص ہوسکتا تھا جتنی بوا ان کے خاندان کے ساتھ تھیں۔
”ٹھیک ہے بوا جیسی آپ کی خوشی۔ ورنہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں اور باقی زندگی آرام سے گزاریں۔“ ”میں بہت خوش باش ہوں وہاں سب کے ساتھ۔“ بوا نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی۔ ”بوا میں بہت دن کے بعد آؤں گی آپ سے ملنے۔“ ”ہاں اپنے شوہر کے ساتھ آنا۔“ جاتے جاتے انہوں نے پھر نصیحت کی تو ذیان بے بس سی ہنسی ہنس دی۔
ذیان نے براہ راست ملک جہانگیر سے بات کی۔
وہ یونیورسٹی میں ایڈمشن لینا چاہ رہی تھی۔
داخلے کی آخری تاریخ میں چند روز ہی باقی تھے۔ ملک جہانگیر نے اسے بخوشی اجازت دے دی تھی لیکن افشاں بیگم کو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا۔ ابیک شہر میں تھا۔ رنم بھی اس کے ساتھ چلی گئی تھی۔ وہ دعا کر رہی تھیں کہ اب وہ ان کے گھر میں واپس نہ آئے۔
لیکن حیرت انگیز طور پہ خلاف توقع وہ ابیک کے ساتھ تیسرے دن ہی لوٹ آئی۔
وہ سارا سارا دن ابیک کے ساتھ مصروف رہتی۔ وہ یہاں ایک چھوٹا سا ہاسپٹل بنوانا چاہ رہی تھی۔ ملک ابیک نے ہاسپٹل کے لیے اسے مفت زمین اپنے پاس سے دی تھی۔ اب وہ دونوں دن رات اسی میں لگے ہوئے تھے۔ جبکہ ذیان یونیورسٹی میں ایڈمشن لینے پہ تل گئی تھی۔ ملک ارسلان ایڈمشن فارم لے کر جمع بھی کروا آئے تھے کیونکہ ابیک ان دنوں بہت مصروف تھا۔ ابیک کو تو ذیان کی سرگرمیوں کی فکر ہی نہیں تھی۔
ادھر وہاب نے بھی کچھ دنوں سے چپ سادھ رکھی تھی۔ اس نے رنم کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ترنگ میں اس نے ذیان کے سامنے کیا اگل دیا ہے ورنہ اپنے وعدے کے مطابق وہ باقی پیسے اسے ہرگز نہ دیتی۔
جب ابیک طلاق نامہ سائن کر کے ذیان کے حوالے کر دیتا تو رنم اسے باقی پیسے بھی دے دیتی۔
وہاب کے ساتھ ملک ابیک کی ملاقات کو اتنے دن ہوگئے تھے لیکن ابھی تک اس ملاقات کے ویسے نتائج سامنے نہیں آئے تھے جیسے وہ توقع کر رہی تھی۔
اس نے ہاسپٹل کا نقشہ بھی منظور کروالیا تھا۔ ابیک کے ساتھ باہر دھوپ میں گھوم گھوم کر اس کی سرخ و سفید رنگت جھلسنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے شوق میں وہ اس کے ساتھ گھنٹوں دھوپ میں جلتی۔ وہ روز سکول کی تعمیر کا جائزہ لینے آتا۔
ٹھیکے دار اور مستریوں کے ساتھ مغز ماری کرتا پھر وہ انڈسٹریل ہوم کا بھی چکر لگاتا۔
کبھی تعمیراتی سامان آرہا ہے تو وہ بھاگ بھاگ کر ادھر جا رہا ہے۔ کوئی چیز کم پڑ گئی ہے تو وہ بھی اس کی درد سری۔ رنم سیال تو مرجھا کر رہ گئی تھی۔ اس تگ و دو کا پھل یا صلہ اسے ابھی تک ملا نہیں تھا کیونکہ وہ ابیک تک نہ تو حال دل پہنچا پائی تھی اور نہ ہی اس کے منصوبے کے مطابق اس نے ذیان کو طلاق دی تھی اگرچہ دونوں میں تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ کیونکہ ابیک کے منہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات اس کے سوال کے جواب میں منہ سے نکل ہی جاتی تھی جس سے وہ واقف ہونے کے چکر میں مری جاتی۔ وہ بس اس کے ساتھ ہوتا تو ہر ٹائم اپنے پراجیکٹس کی باتیں کرتا۔ جیتی جاگتی رنم گویا اسے نظر ہی نہ آتی۔
                                      ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja