Episode 59 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 59 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک ارسلان، عتیرہ قاسم کو انتظار سونپ کر بیرون ملک جاچکا تھا۔ وہ یوینورسٹی سے آ کر بولائی بولائی پھرتی ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے تمام رنگ، خوشیاں، امنگیں ملک ارسلان اپنے ساتھ ہی لے گیا ہے۔ اسے سچ میں ایسا لگ رہا تھا وہ ملک ارسلان کے بغیر زیادہ جی نہیں پائے گی۔
ادھر قاسم صاحب نے اپنے دوستوں، جاننے والوں سے بیٹی کے رشتے کی پریشانی کا ذکر کیا ہوا تھا۔
وہ چاہ رہے تھے کوئی اچھا سا رشتہ ملے تو دیکھ بھال کر عتیرہ کو اپنے گھر کا کردیں۔ کیونکہ وہ اب بیمار رہنے لگے تھے۔ اللہ کے سوا کسی کا آسرا نہیں تھا۔ وہ خود اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے ادھر سے بیوی کے میکے میں بھی کوئی خاص رشتہ دار نہیں تھے وہ بھی ان کی طرح اکلوتی تھی۔ کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں ناچار ہو کر وہ ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں تب سے عتیرہ ان کی زندگی کا محور تھی۔

(جاری ہے)

وہ اس کے لیے ماں اور باپ دونوں کا رول ادا کر رہے تھے۔ اسے تعلیم دلواتے ہوئے یونیورسٹی تک پہنچا دیا تھا اب ان کی دلی خواہش تھی کہ بیٹی اپنے گھر کی ہو جائے۔ دوستوں،جاننے والوں نے جو رشتے دکھائے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں اس حد تک پسند نہیں آیا تھا کہ وہ عتیرہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس تھے۔
وہ غنودگی میں تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ زورزور سے بجایا گیا۔
باتیں کرنے کی بھی آواز آرہی تھی۔ ان میں سے ایک آواز تو عتیرہ کی تھی جبکہ دوسری نامانوس اجنبی مردانہ آواز تھی۔ اس نے دوپٹے کی تلاش میں بیڈ پہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارا۔ دوپٹہ تکیے کے پاس پڑا تھا۔ اس نے اٹھا کر کندھے پہ ڈالا کچھ دیر قبل ہی تو وہ سوئی تھی ابھی سہ پہر کے صرف چار ہی تو بجے تھے لمبی دوپہریں کٹنے کا نام نہ لیتی تھیں تھک ہار کر وہ سوجاتی۔
پتہ نہیں اس طرح دروازے پہ دستک دینے والا کون تھا اس نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا۔ عتیرہ کے ساتھ نوجوان لڑکا کھڑا تھا سرخ و سفید رنگت اور دلکش مردانہ نقوش لیے وہ لڑکا ذیان کو دیکھے جارہا تھا وہ جھینپ گئی تھی کیونکہ نوارد کا انداز بے پناہ بے تکلفی لیے ہوئے تھا پر عتیرہ بالکل پرسکون نظر آرہی تھیں۔ ”تو یہ ہیں ہماری بھابھی ذیان یعنی چاند کا ٹکڑا۔
“ آنے والے نے بڑی بے تکلفی سے اس کا ہاتھ خود ہی پکڑ کر مصافحہ کیا اور پرجوش انداز میں خیر خیریت دریافت کی۔
چند منٹ بعد وہ ذیان کے کمرے میں بیٹھا ہنس ہنس کر پاکستان آنے کے بارے میں بتا رہا تھا۔
”یہ معاذ تھا، ملک ابیک کا چھوٹا بیٹا اس کا ذکر تواتر سے گھر میں ہوتا تھا۔ ذیان کو اس کی بے دھڑک بے تکلفی کا سبب سمجھ میں آگیا تھا۔
“ آخری پیپر دے کر میں نے بوریابستر سمیٹا اور پاکستان بھاگا۔ مجھے اپنی بھابھی سے ملنا تھا۔ امی جان اور بابا سے مل کر سیدھا ادھر آرہا ہوں۔“ وہ روانی سے اور مسلسل بول رہا تھا۔ ذیان اسے حیرت سے دیکھے جارہی تھی۔ معاذ ابیک کے بالکل الٹ تھا۔ اس کے آنے سے گھر میں جیسے خوشیوں کی بارات اتر آئی تھی ہر سو رونق تھی وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا زندہ دل ، ہنس مکھ، سب کا دل خوش کرنے والا۔
اپنی شوخ اور ہر ایک سے جلد گھل مل جانے والی فطرت کی بدولت وہ ذیان سے بھی بے تکلف ہو چکا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ہی اس سے معلومات حاصل کر کے پوسٹمارٹم کر چکا تھا۔
نیناں انڈسٹریل ہوم سے فارغ ہو کر گھرلوٹی تو معاذ رونق کا بازار گرم کیے بیٹھا تھا۔ اس پہ نظر پڑتے ہی معاذ نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سیکوڑے۔ ”یہ کون ہے۔ جب میں گیا تھا تب تو نہیں تھی، کیا کوئی نئی نوکرانی رکھی ہے۔
واہ جی یہاں رہنے والے بڑے باذوق ہوگئے ہیں۔“وہ بے تکان بولے جارہا تھا۔ عتیرہ نے اس کی چلتی زبان کے آگے بند باندھا۔
”یہ نیناں ہے اور…“ عتیرہ اس کے بارے میں ہوٹل میں ملنے والا قصہ گول کر کے باقی سب بتا رہی تھی۔ سن کر اس نے تاسف سے نیناں کی طرف دیکھا۔ ”مس نیناں آپ کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ہے۔“ اس کے چہرے کے تاثرات لہجے کا ساتھ دے رہے تھے۔
نیناں اس کے فراٹے بھرتی زبان سے خائف ہوگئی تھی اس لیے دانستہ منظر سے غائب ہوگئی۔
ملک جہانگیر نے معاذ کے آنے کی خوشی میں سب دوستوں اور خاندان والوں کی دعوت کی تھی۔معاذ صرف چند دنوں کے لیے آیا تھا اسے اپنی ہونے والی بھابھی سے ملنے اور دیکھنے کی جلدی تھی۔
ذیان پہلی بار ملک ابیک کے سارے خاندان سے مل رہی تھی۔
پرپل کلر کی میکسی میں ملبوس وہ معاذ ملک کے ساتھ پورے گھر میں گویا اڑتی پھر رہی تھی۔
وہ ایک ایک فیملی ممبر کے پاس لے جا کر اس کا تعارف کروا رہا تھا۔ معاذ نے اپنی بے تکلفی اور بے پناہ خلوص کی بدولت اجنبیت کی بھاری دیوار گرا دی تھی جو ذیان نے از خود اپنے اردگرد تعمیر کر رکھی تھی۔ جو کام کوئی نہ کرسکا تھا وہ معاذ نے کردکھایا تھا۔ ذیان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ آج اس کے چہرے پہ سختی اور اجنبیت کی بجائے نرمی اور گرمجوشی تھی۔
ابیک قدرے ہٹ کر الگ تھلگ کھڑا تھا۔ نیناں بھی وہیں چکرا رہی تھی۔ عتیرہ نے اس موقعے کے لیے اسے بہت خوبصورت اور مہنگا سوٹ دلوایا تھا۔ اس سوٹ کو زیب تن کرنے کے بعد وہ قابل توجہ بن گئی تھی۔
نیناں، ملک ابیک کی سمت ایک مخصوص حصے میں موجود گھوم پھر کر چیک کر رہی تھی کہ مہمانوں کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔
ابھی تک وہ بہت پرسکون تھی کیونکہ ملک ابیک ذیان کے بغیر اکیلا اس طرف کھڑا تھا۔
نیناں کا سارا سکون معاذ غارت کرنے آپہنچا۔ اس نے ذیان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ابیک کو تلاش کرتے کرتے وہ سیدھا اس کے پاس آرکا۔ ”لیں اپنی امانت۔ میں متعارف کروا کروا کے تھک گیا ہوں باقی کام آپ خود کریں۔“ معاذ نے ذیان کا ہاتھ بڑی معصومیت سے ابیک کے ہاتھ میں لا تھمایا اور خود نیناں کی طرف بڑھ گیا۔ ”مس نیناں مجھے کچھ پینے کو دیں پیاس سے دم نکلا جارہا ہے۔
“ وہ پاس پڑی کرسی پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گیا جیسے بری طرح تھک گیا ہو۔ اس نے مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس کی بیباک سی حرکت کا کیا انجام ہوا۔ وہ مزے سے نیناں کی طرف متوجہ تھا جس کی نگاہ بہانے بہانے سے ملک ابیک اور ذیان کا طواف کر رہی تھی۔
ابیک نے نظر بھر کر غور سے ذیان کو دیکھا وہ آج بہت قریب تھی معاذ کی شرارت سے کچھ سنہرے پل اس کی مٹھی میں قید ہونے جارہے تھے۔
اس کا گلابی چہرہ سرخ ہوچلا تھا۔ ابیک نے اس کا ہاتھ بڑے زور سے دبایا وہ ہاتھ چھڑانا چاہ رہی تھی پر جانے ابیک کس موڈ میں تھا۔ شاید وہ سارے خاموش جذبوں کو کوئی زبان دینا چاہ رہا تھا۔ ذیان اتنے مہمانوں کی موجودگی سے گھبرا رہی تھی۔ اس نے دوسرے ہاتھ کا ناخن ابیک کے ہاتھ کی پشت پہ مارا۔ یہ اس کی طرف سے احتجاج تھا۔ ابیک کی گرفت، پرجوش اور مضبوط تھی کچھ کہتی ہوئی۔
اس کے ہاتھ میں گویا سارے جذبے سمٹ آئے تھے ہاتھ زبان بن گیا تھا۔ ذیان بزور طاقت ہاتھ چھڑا کر تیزی سے دور ہوئی اور معاذ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، نیناں معاذ کے لیے سوفٹ ڈرنک لے آئی تھی۔ معاذ کو گلاس تھماتے ہوئے اس نے ایک نظر ذیان پہ ڈالی جہاں خفت اور نروس نس تھی۔ دوسری نگاہ ملک ابیک کی طرف اٹھی جو استحقاق کے سب رنگ سمیٹے ذیان کی طرف متوجہ تھا۔ اس کا دل دھڑ دھڑ جلنے لگا۔ معاذ سے ابیک کی جسارت پوشیدہ نہیں تھی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja