Episode 86 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 86 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک ابیک مضبوط پر اعتماد قدموں سے چلتا اس کی طرف آرہا تھا۔ وہ بے انتہا خوفزدہ ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اچانک اس طرح وہ اس کے سامنے ہوگا۔ وہ چیخ مارنا چاہتی تھی پر اسے دیر ہوگئی تھی۔ ابیک اس کے منہ پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھ چکا تھا۔ ابیک کا ایک ہاتھ بازو سمیت اس کے کندھے کے گرد لپٹا ہوا تھا اور دوسرا مضبوط ڈھکن کی مانند اس کے منہ پہ جما تھا۔
نہ وہ بھاگ سکتی تھی نہ منہ سے آواز نکال سکتی تھی۔ غنیمت تھا کہ وہ ناک سے سانس لے رہی تھی ابیک کی مضبوط گرفت میں اس کا دم گھٹ رہا تھا اس کا نازک وجود گویا چرمرا کر رہ گیا تھا۔
شاید ابیک اسے مارنے آیا تھا۔ خوف کسمپرسی، بے چارگی درماندگی نے اس کی حالت قابل رحم بنا دی تھی۔ اس وقت وہ یہی سوچ سکی تھی یقینا سب اس سازش میں شریک تھے تب ہی تو اسے گھر میں اکیلا چھوڑا گیا تھا تاکہ ملک ابیک کو اپنے منصوبے پہ عمل کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔

(جاری ہے)

اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ”بعد میں جتنا مرضی چاہے چیخ لینا ڈرامہ بازی کرلینا ابھی مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔“ ابیک اس کے کانوں کے قریب اپنے ہونٹ لا کر بولا۔ اس کی آواز اورالفاظ میں شدید قسم کا غصہ تھا۔ اسے یقین تھا اب وہ شور نہیں کر ے گی کیونکہ ملک ابیک کے الفاظ اور تاثرات نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اب اداکاری سے کام نہیں چلے گا وہ اس کی ڈرامہ بازی سے واقف تھا۔
ابیک نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹالیا تھا وہ اب اس سے دور بیٹھا تھا۔ اس کے بولنے کے انتظار میں تھا جواب ہاتھ پاؤں چھوڑ کر مرے مرے انداز میں بیٹھی تھی جیسے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی معصوم لاچار اور قابل رحم دوسرا نہیں ہے۔
 ابیک کے اچانک حملے سے اس کی گود میں رکھا لیپ ٹاپ پھسل کر بیڈ کی پائنتی جا پڑا تھا۔ ملک ابیک کے آنے سے پہلے وہ معاذ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ونڈومیں اسکائپ اوپن نظر آرہاتھا۔ ابیک نے اٹھ کر لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کردیا تھا۔ اب تو وہ بالکل ہی ڈھے گئی تھی۔ ابیک نے آج سے پہلے اسے تم کہہ کر کبھی بھی مخاطب نہیں کیا تھا آج اس کا ہر انداز بدلا ہواتھا۔ یقینی طور پہ وہ غیض و غضب میں بھرا ہوا آیا تھا۔ ”میں وجہ جان سکتا ہوں کہ تم نے یہ سب کیوں کیا۔ کیوں ڈرامہ رچایا۔ ایسی کیا مشکل تھی جو تم نے ہم سب کو ذہنی عذاب میں ڈالا۔
“ وہ بڑی کوشش کے بعد اپنے لہجہ کو نارمل کر پایا تھا۔ جواباً وہ خاموش رہی اس کا وہ حال تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ نگاہیں جھکی ہوئیں۔ جیسے وہ اس کے بجائے دیواروں سے مخاطب ہو۔ ”ذیان صاحبہ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔“ اس بار وہ اس کے قریب آ کر دھاڑا تو مارے خوف کے اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ابیک کے سامنے آج سے پہلے وہ اس طرح کے بے تکلف حلیے میں کبھی بھی نہیں آئی تھی۔
اب اسے اس بات کا بھی احساس ہو رہا تھا اس لیے اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ ابیک سے اس کی موجودگی سے اس کے غصے سے خائف ہو رہی تھی۔
”کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ گھر میں اس وقت باہر گیٹ پہ موجود گارڈز کے علاوہ کوئی نہیں ہے میں نے سب کو چھٹی دے دی ہے۔ اور ویسے بھی تمہارے ڈرامے اور اداکاری سے متاثر ہونے والے یہاں نہیں ہیں“اس کا اشارہ افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کی طرف تھا۔
ذیان کٹ سی گئی۔
 ”اس لیے سچ بولنا اور کوئی الٹی حرکت مت کرنا۔“ ابیک نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تو اس نے ہراساں رحم طلب نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا۔ ابیک کی نگاہوں میں ترحم یا ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ ”شاباش بولو جلدی جو بھی ہے۔ میں نے سونا بھی ہے سخت تھکا ہوا ہوں۔“ وہ جھنجھلایا ہوا تھا۔ ”میں نے سب کچھ مما اور آپ کی وجہ سے کیا۔
“ اس کے حلق سے مری مری آواز برآمد ہوئی۔ ”گڈ آگے بولو۔“ وہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ ”مما مجھے چھوڑ کر آگئی تھیں میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ بہت کرب اور اذیت میں بسر کیا ہے مجھے مما اور مما سے وابستہ ایک ایک شے ایک ایک رشتے سے چڑ تھی جن میں آپ بھی شامل ہیں۔“ اب کی بار صاف لگ رہا تھا کہ وہ روپڑے گی۔ ”گڈ اور بھی بتاؤ۔“ وہ بالکل نارمل لگ رہا تھا۔
ذیان بولتی چلی گئی بے ربط ٹوٹے پھوٹے فقرے جس کا لب لباب یہی تھا کہ اس نے سب کچھ ماما اور ان کی تمام فیملی کو اذیت دینے کے لیے بدلہ لینے کے لیے انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر کیا ہے۔ اسے ملک محل کے سب افراد سے مما کی وجہ سے شدید چڑ ہے۔ ظاہر ہے ان میں ملک ابیک بھی شامل تھا۔
ذیان اپنا پول کھلنے پہ شرمندہ تھی ویسے بھی عامل جلالی باوا کی اندرونی خباثت سے واقف ہونے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ جلدی اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرے گی اور کوئی نیا طریقہ سوچے گی مگر یہ جان کر کہ ابیک شروع دن سے ہی واقف تھا وہ اب اس سے نگاہیں تک نہ ملا پا رہی تھی۔
وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی شرمندگی سے اس کا جی چاہ رہا تھا زمین میں گڑ جائے۔ ابیک سوچوں میں گم تھا۔ و ہ اسے انجان اور بے وقوف اور خود کو بہت بڑی چیز سمجھتی رہی جو اپنی دانست میں سب کے جذبات سے کھیل کر انہیں بے وقوف بنا رہی تھی اور وہ خود انجانے میں نتائج سے لاپرواہ ہو کر اتنی بڑی بے وقوفی کر رہی تھی۔
ابیک نے بہت دیر بعد سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ اپنی سوچوں کے حصار سے باہر آکر کسی نتیجے تک پہنچ چکا تھا۔
”ذیان آپ کو اب کوئی بھی ڈرامہ یا الٹی سیدھی حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے میری وجہ سے میری فیملی سے چڑ اور نفرت کی وجہ سے یہ سب کیا۔ جس وجہ سے بھی آپ نے یہ سب کیا اب آپ اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ آپ کو مجھ سے دور بھاگنے کے لیے یا فیملی کو اذیت دینے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ میں اپنے سے وابستہ کسی بھی رشتے یا شخص کو اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔
آپ پہلے بھی اپنی حماقت یا نفرت کی وجہ سے ہم سب کے جذبات سے کافی سے زیادہ کھیل چکی ہیں۔ میں آپ کو اور اس عمل کی اجازت نہیں دے سکتا۔
باقی جہاں تک عتیرہ چچی سے نفرت کی بات ہے تو دلوں کے حال اللہ جانتا ہے لیکن ہم نے شروع سے ہی انہیں اپنی بیٹی کی یاد میں روتے تڑپتے دیکھا۔ انہیں دکھی دیکھ کر ارسلان چچا بھی پریشان ہوتے یہی وجہ ہے کہ جب عتیرہ چچی نے آپکے بارے میں بات کی تو وہ پوری خوشی اور آمادگی سے خود آپ کو لینے گئے۔
انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ چچی کی دلجوئی کرتے رہے کہ کچھ بھی ہوجائے زندگی میں ایک بار کسی طرح بھی سہی انہیں ان کی بیٹی سے ملا دیں گے۔ قدرت نے خود ہی آپ کو ملک محل میں پہنچا دیا۔ آپ کے آنے سے ہم سب نے سالوں بعد چچی کو خوش دیکھا مسکراتے دیکھا اس سے پہلے ایسے لگتا تھا جیسے وہ خوش نظر آنے کا ڈرامہ کرتی رہی ہیں۔
 ارسلان چچا خوش ہوئے انہوں نے بہت بار مجھے کہا کہ ذیان مجھے اپنی اولاد کی طرح پیاری ہے اگر اللہ مجھے بیٹی دیتا تو وہ ذیان جیسی ہوتی۔
یہ دونوں آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان سچے رشتوں کی قدر کیجیے۔ ماضی پہ کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ نرم دھیمے پھوار برساتے لہجے میں بات کر رہا تھا۔ ایک ایک لفظ دل پہ اثر کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں سچائی تھی۔ ”باقی میں اپنی اور اپنی فیملی کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دے سکتا نہ دینا چاہتا ہوں اس لیے میری باتوں کو ذہن میں رکھیے گا۔“
ذیان بہت کچھ کہنا چاہتی تھی پر اب اس کی زبان جیسے تالو سے چپک گئی تھی۔ ابیک اپنی بات پوری کر کے جس طرح آیا تھا اسی طرح جاچکا تھا۔
وہ نڈھال سے انداز میں بیڈ پہ اوندھی ہو کر گر پڑی۔ اسے سمجھ نہیںآ رہی تھی اپنی جیت پہ ہنسے خوشی منائے یا اپنی ہار پہ سوگ منائے ماتم کرے۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja