Episode 81 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 81 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

عامل جلالی باوا کے کمرے میں ان کے سامنے ذیان بیٹھی تھی۔ عتیرہ کو وہاں سے گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ بابا جی ذیان کے ساتھ اکیلے تھے۔
ذیان کو وہ اپنی مقناطیسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ بہت مشکل سے ان کی نگاہوں کو ذہن و نظر سے جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی ان کی پرکشش پراسرار نگاہیں جیسے اس کے اندر چھپے رازوں بھیدوں کوٹٹول رہی تھیں۔ ”اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے لڑکی۔
“ بابا جی گونجدار لیکن آہستہ آہستہ آواز میں مخاطب ہوئے۔ ذیان نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ”لڑکی میں تجھ سے کہہ رہا ہوں کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے۔“ اس بار وہ قدرے تحکم آمیز انداز میں گویا ہوئے۔ ذیان نے اپنی سب ہمتوں کو جمع کرتے ہوئے عامل جلالی باوا کی نگاہوں کو ذہن سے پرے جھٹکا۔اب وہ پلک تک جھپکائے بغیر ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

(جاری ہے)

عامل جلالی بابا سے وہ ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔

کم سے کم اس کا اعتماد یہی بتا رہا تھا۔
”بہت طاقت ہے تجھ میں۔بہت گھمنڈ ہے تجھے خود پہ۔ تیری ساری طاقت کو پھونک مار کر خاک میں ملا دوں گا۔“ ذیان کی مسلسل ہٹ دھرمی پہ بابا جی کو غصہ آگیا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑنے کی کوشش کی پر وہ پھرتی سے فوراً پرے ہوگئی۔ عامل جلالی باوا کی آنکھیں شدت غضب سے لال ہو کر دہک اٹھیں۔
وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے۔
اور مسلسل ذیان پہ پھونک مار رہے تھے۔ کوئلوں والی انگیٹھی سخت گرمی میں بھی دہک رہی تھی اور وہ انگاروں پہ مٹھی بھر بھر کر کچھ ڈال رہے تھے۔ حیرت کی بات تھی اس گرم موسم کے باوجود وہ حرارت بری نہیں لگ رہی تھی کمرے میں اے سی بھی چل رہا تھا۔ اور عجیب بے خود کردینے والی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ عامل جلالی باوا انگاروں پہ مٹھی بھر بھر کر جو کچھ ڈال رہے تھے یہ مہک اسی کی مرہون منت تھی۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ذیان اپنے آپ میں عجیب سی بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ اسے سخت گرمی محسوس ہو رہی تھی دل چاہ رہا تھا دوپٹہ اتار کر پرے پھینک دے۔ بابا جی نے اپنے سامان سے سیال مادے سے بھری بوتل نکالی اور اپنے منہ سے لگا کر چند گھونٹ لیے۔ وہی بوتل انہوں نے ذیان کی طرف بڑھائی۔ ”لے پی لے آسمانوں میں اڑے گی لال پری بن کر۔
“ بابا جی نے بوتل ذیان کی طرف بڑھائی۔ انہیں پورا یقین تھا اب وہ کسی صورت بھی انکار نہیں کرے گی۔ عامل جلالی باوا کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ ذیان نے بوتل ان کے ہاتھ سے لے لی تھی اگلے ہی لمحے ذیان نے ہاتھ میں تھامی بوتل لے کر زمین پہ پٹخ دی۔ اور مڑ کر زناٹے دار تھپڑ عامل جلالی باوا کے منہ پہ رسید کیا۔ سیال مادہ بوتل سے بہہ نکلا۔ جلالی باوا نے اس موقعے پہ اپنے حواس سلامت رکھے اور سیال مادہ تولیے سے فوراً صاف کیا جو اچھا خاصا کارپٹ میں جذب ہوگیا تھا انہوں نے کوئلوں والی انگیٹھی سے کچھ کوئلے وہاں الٹ دئیے گیلے کارپٹ سے دھواں اٹھنے لگا اور ذیان نے چیخیں مارنا شروع کردیں۔
 بھیانک چیخوں کے سلسلے نے سوئے ہوئے افراد کو یکایک ہی جاگ کر بدحواس ہونے پہ مجبور کردیا۔ سب سے پہلے ابیک کی آنکھ کھلی وہ ویسے بھی کچی نیند میں تھا۔ ذیان کی آواز اس نے فوراً پہچان لی۔ نائیٹ شرٹ کے بٹن عجلت میں لگاتا وہ بھاگ کر چیخوں کے منبع تک پہنچا پھر عتیرہ، ملک ارسلان ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور نیناں سب ہی عامل جلالی باوا کے کمرہ خاص میں آموجود ہوئے۔
بکھرے بالوں سرخ آنکھوں والے ابیک کو دیکھتے ہی ذیان کا جسم لرزنا شروع ہوگیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے”ماردوں گا بھسم کردوں گا“ آتم توش اپنی خوفناک آواز میں دھاڑ رہاتھا۔ عامل جلالی باوا پہلے ذیان کے چیخنے کی وجہ سے کافی پریشان نظر آرہے تھے اب کافی سے بھی زیادہ اطمینان محسوس کر رہے تھے۔ ”لڑکی کا جن کافی خطرناک ہے اس نے عمل کے دوران مجھ پہ حملہ کرنے کی کوشش کی ہے میں نے اپنے وار سے اس حملے کو ناکام بنا دیا ہے ناکامی نے آتم توش کو آگ بگولہ کردیا ہے اس وجہ سے یہ شور کر رہا ہے۔
اب یہ پھر میری جان لینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ آتم توش بہت طاقتور ہے۔“ جلالی باوا نے صورت حال کی سنگینی و سفاکی ان سب کے سامنے بیان کی۔
نیناں سب سے پیچھے کھڑی ذیان کو عجیب سے انداز میں دیکھ رہی تھی۔ ذیان کے اس عمل کے درپردہ محرکات کو اس کی چھٹی حس کا فی حد تک محسوس کر چکی تھی۔ اس کا دل کر رہا تھا ذیان کا منہ تھپڑوں سے لال کردے۔ یہ آسیب زدہ جن زدہ ڈرامے باز لڑکی ابیک کو کیسی کیسی ذہنی و جذباتی اذیت سے دو چار کر رہی تھی۔
افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کے علم میں تھا کہ عامل جلالی باوا ذیان کا علاج کر رہے ہیں مگر ابیک کو یہ بات ابھی ابھی معلوم ہوئی تھی۔ وہ غصے سے پلٹ کر واپس چلا آیا۔ نیناں نے اس کی نگاہوں میں واضح غصہ کرب اور پریشانی کی تحریر پڑھ لی تھی۔ یقینا اس نے بہت مشکل سے اپنے اعصاب پہ قابو پایا تھا۔ جلالی باوا کے کہنے پہ ذیان کو وہاں سے لے جایا گیا۔
ابیک کے اچانک چلے جانے کو سب نے محسوس کیا۔ عتیرہ پریشان نظر آرہی تھی۔ جلالی باوا کی ہدایت پہ انہوں نے ابیک کو نہیں بتایا تھا اور اس سے رازداری برتی تھی یہی بات اس کی خفگی اور ناراضگی کا باعث بنی تھی۔
وہ اگلے دن صبح و سویرے ہی شہر واپس چلا گیا جہاں بہت سے کام پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔
اس نے افشاں بیگم، عتیرہ چچی اور کسی فرد سے بھی ذیان کے علاج کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔
جاتے وقت وہ بالکل نارمل تھا۔
نیناں خراماں خراماں چلتی گیٹ سے باہر نکلی۔ آج اس کی آنکھ خاصی دیر سے کھلی تھی۔
رات ذیان والے واقعے کی وجہ سے وہ بہت دیر سے سوئی نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ اس لیے جاگنے میں بھی وہ اپنے معمول پہ کار بند نہ رہ پائی تھی۔ اچھی خاصی دیر ہوچکی تھی۔ اس وقت تک تو وہ سلائی کڑھائی کے مرکز کے آفس میں بیٹھی ہوتی تھی۔
ناشتہ کیے بغیر وہ تیار ہوئی۔ گیٹ سے باہر گارڈ ایک نوجوان کے ساتھ باتیں کر رہاتھا۔ ”مجھے فوری طور پہ ذیان سے ملنا ہے، آپ مجھے اندر جانے دیں۔ ”نوجوان کا انداز بے حد لجاجت بھرا اور التجائیہ تھا۔ نیناں کے قدم وہیں رک گئے۔ وہ غور سے نووارد کو دیکھنے لگی۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ نوجوان خاصا معقول اور مہذب نظر آرہا تھا لیکن نیناں نے پہلے اسے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔
گارڈ اسے اندر لے جانے میں متامل نظر آرہا تھا۔ ملک ارسلان کی طرف سے کسی اجنبی کے لیے ملک محل کا گیٹ کھولنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے گارڈ پس و پیش کر رہا تھا پر وہ نوجوان بار بار بے تکلفی سے ذیان کا نام لے رہا تھا یہ بات نیناں کو چونکانے کا باعث بن رہی تھی۔
ملک ابیک تو صبح سویرے ہی شہر کے لیے نکل چکا تھا ورنہ وہ اس نوارد کو ملک ابیک سے ملنے کا مشورہ دیتی وہ ذیان کا شوہر اس کا جملہ حقوق کا مالک تھا ایک اجنبی نوجوان کے منہ سے ذیان کا نام سن کر جانے وہ کیا محسوس کرتا۔
”ملک صاحب کی طرف سے کسی اجنبی کو حویلی میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔“ گارڈ کا لہجہ بدستور سخت تھا۔ ”ذیان میری خالہ کی بیٹی ہے میری منگیتر ہے۔“ آخر مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کیوں مجھے ملنے سے روکا جارہا ہے۔“ نوارد جو کہ وہاب کے سوا کوئی بھی نہیں تھا جھنجھلا سا گیا۔
”خدا بخش گیٹ کھولو میں خود ان کو اندر لے کر جاتی ہوں۔
“ وہ یکدم اضطراری انداز میں بولی۔ ”لیکن ملک صاحب ناراض تو نہیں ہوں گے…“ گارڈ ابھی تک تذبذب میں تھا۔
”نہیں ناراض ہوتے میں خود اس کی ذمہ داری لیتی ہوں۔“ نیناں نے وہاب کی طرف اشارہ کیا تو ناچار اس نے گیٹ کھول کر وہاب کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کی گاڑی پاس ہی کھڑی تھی مگر اس نے ایسے ہی اندر جانے کو ترجیح دی۔ یہ لڑکی تو اس کے لیے فرشتہ رحمت بن کر آئی تھی ورنہ گارڈ سے پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ بحث کر رہا تھا اور خدا بخش کسی صورت بھی گیٹ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا حالانکہ وہاب بار بار ذیان کا حوالہ دے رہا تھا پر خدا بخش کا دل اس کی بات ماننے کی لیے آمادہ نہیں تھا۔
وہاب تو قریب قریب مایوس ہی ہوچکا تھا جب یہ لڑکی باہر نکلی۔ اب وہ اس کی معیت میں ملک محل کے اندر داخل ہورہا تھا۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہاب ادھر ادھر دیکھتا دل ہی دل میں خاصا مرعوب ہوچکا تھا۔ ملک محل کی شان و شوکت کا رعب اس پہ طاری ہوچکا تھا۔
”کون ہو تم کہاں سے آئے ہو اور ذیان سے کیا رشتہ ہے تمہارا؟“ نیناں نے چلتے چلتے اس سے پوچھا۔
”میرا نام وہاب ہے اور ذیان میری خالہ کی بیٹی ہے منگیتر ہے میری۔“ وہ پورے اعتماد سے بولا۔ نیناں نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ اس کی معلومات کے مطابق عتیرہ کی کوئی بہن یا عزیز رشتہ دار نہیں تھا جبکہ وہاب نامی یہ نوجوان ذیان کو خالہ کی بیٹی بتا رہا تھا۔
”ذیان کی تو شادی ہوچکی ہے ملک ابیک کے ساتھ اس حویلی کے مالک کے ساتھ۔“ نیناں نے انکشاف کرتے ہوئے بغور اس کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھے۔
وہ ایکدم یوں اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ ”یہ کیسے ممکن ہے ہو ہی نہیں سکتا میں اور ذیان ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں وہ بھلا کسی اور سے کیسے شادی کرسکتی ہے۔“ وہ سر جھٹکتے ہوئے بول رہا تھا۔ اس دوران وہ دونوں ڈرائنگ روم میں پہنچ گئے۔ نیناں اسے بٹھانے کے بعد عتیرہ بیگم کو اطلاع کرنے چلی گئی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja