Episode 38 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 38 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

اچانک اسے یاد آیا وہ فکسڈ لائن نمبر پہ بھی تو کال کرسکتی ہے۔ اسے نمبر یاد تھا۔ اس نے تیزی سے نمبر پش کیے۔ بیل جارہی تھی بہت دیر بعد کال ریسیو ہوئی۔ کسی نے زور سے ہیلو کہا۔ پس منظر سے رونے پیٹنے کی آہ و بکا کی دلدوز آوازیں آرہی تھیں۔ اس کے دل نے ایک بیٹ مس کردی۔ نہیں نہیں اس کے پپا کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی زبان جیسے ہلنے سے انکاری تھی۔ اس کی متغیر ہوتی رنگت اور لرزتا کانپتا جسم دیکھ کر ایک نوجوان نے فون کا ریسیور اس سے لے لیا۔
وہ خود بات کر رہا تھا شاید اسے رنم کی حالت پہ ترس آگیا تھا۔ ایک منٹ بعد اس نے فون بند کیا تو اس کی آنکھوں اور لہجہ میں ہمدردی تھی دوسرے دو نوجوانوں کی نسبت اس نے مہذب روئیے کا مظاہرہ کیا۔ ”آپ نے جس نمبر پہ کال کی ہے اس گھر کے مالک کا آج انتقال ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

“ اس نے پگھلا سیسہ رنم کے کانوں میں انڈیلا۔

وہ بہت مشکل سے خود کو کمرے تک واپس لائی اور بستر پہ گر سی گئی۔
صدمات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا اس کا برا وقت آگیا تھا۔ جیولری، نقدی سب کچھ پراسرار طور پہ غائب ہوچکا تھا۔ وہ ہوٹل سٹاف کی نگاہوں میں تھی سب رال ٹپکانے کو تیار تھے اور اب پپا بھی اسے چھوڑ کر جاچکے تھے۔ وہ تو گھر واپس آنے کے لئے انہیں کال کرنے گئی تھی واپسی پہ دل پہ بھاری صدمے کا بوجھ اٹھائے لوٹی۔ اب اس کی عزت اور جان خطرے میں تھی۔
اسے اپنے بچاؤ کا راستہ تلاش کرناتھا۔ اچانک اسے عتیرہ ملک کا خیال آیا انہوں نے اسے اپنا فون نمبر دیا تھا اور روم نمبر بھی بتایا تھا۔ وہ سیکنڈ فلور روم نمبر 26 میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ پپا تو رہے نہیں تھے اب وہ گھر کس منہ سے جاتی۔ کاش وہ گھر نہ چھوڑتی کاش وہ ان کی بات مان لیتی۔ منہ پہ پانی کے چھپاکے مارتی وہ زارو قطار روتی جارہی تھی۔ وہ عتیرہ ملک کے پاس جانے کے لئے تیار تھی۔
اس وقت اس کے پاس اور کوئی بھی راستہ نہیں بچا تھا۔
اپنے اس گھر میں کیسے جاتی جہاں اب پپا نہیں رہے تھے۔ سب نے اسے پپا کا قاتل ٹھہرانا تھا۔ اس کی ضد تھی کہ وہ ان سے کچھ نہیں لے گئی تو یہ در بدری، محرومی کی سزا اس کے لئے بالکل جائز تھی۔ روم نمبر 26 کے سامنے کھڑے دروازہ ناک کرتے وہ اپنے پپا کے بارے میں یہی سوچے جارہی تھی۔
تیسری دستک پہ دروازہ کھل گیا۔
اندر عتیرہ کے ساتھ ملک ارسلان بھی تھے۔ وہ بجلی کی تیزی سے اندر آئی۔ ”پلیز ہیلپ می۔“ وہ عتیرہ ملک کے پاس ہاتھ پکڑ کربکھرے ہوئے لہجہ میں بولی۔ آنسوؤں کی برسات اس کی آنکھوں سے جاری تھی۔ وہ دونوں پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ نہ جانے یہ ستم رسیدہ حرماں نصیب کون تھی کون سا دکھ پہنچا تھا اسے جو اس کی آنکھیں ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
روتے روتے وہ بول رہی تھی اور بار بار اس کی آواز ڈوب رہی تھی جیسے بولنے کی طاقت ختم ہوگئی ہو۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ ہینڈ بیگ میں سے اس کی سب چیزیں غائب ہوگئی ہیں۔ والدین حیات نہیں ہیں وہ اکیلی ہے۔ وہ اتفاقی طور پہ ایک حادثے کا شکار ہو کر اس ہوٹل میں پہنچی ہے اس کی جمع پونجی پہ کسی نے ہاتھ صاف کردیا ہے۔ اور اب اسے اپنی جان اور عزت کی طرف سے شدید خطرہ ہے۔
وہ جس طرح رو رہی تھی جس ابتر حالت میں تھی اس پہ کسی طور بھی نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اس کی من موہنی معصوم صورت دھوکہ دینے والی نہیں لگ رہی تھی۔ ملک ارسلان نے عتیرہ کو اشارہ کیا کہ رنم کوبٹھائے، تسلی دے۔ خود بہ خود ہی ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا۔
عتیرہ نے گلاس میں پانی ڈال کر زبردستی اسے پلایا۔
”میں منیجر سے خود بات کرتا ہوں۔“ ملک ارسلان نے اسے تسلی دی۔ ”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ گنوا چکی ہوں اب عزت نہیں گنوانا چاہتی۔“ اس بار ہچکیوں سے اس کا سارا جسم لرز رہا تھا۔ عتیرہ کی اپنی آنکھیں نم ہو رہی تھیں اس اجنبی لڑکی کے لئے وہ اپنے دل میں بے پناہ محبت محسو س کر رہی تھیں۔ اس کا دکھ انہیں اپنا دکھ لگ رہا تھا۔
”اب تم کیا کرو گی؟“ عتیرہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
”میں بے سہارا ہوں بے آسرا ہوں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کچھ کرسکوں۔“ آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہے جارہے تھے۔ عتیرہ نے ارسلان کو اشارہ کیا۔ دونوں رنم کو کمرے میں چھوڑ کر باہر آگئے۔ جانے کیا بات تھی کہ رنم کا دل چاہ رہا تھا ان پہ اعتبار کرلے۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ دونوں اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکلے تو اسے ان کی نیت پہ کوئی شک نہ ہوا۔
عتیرہ، ملک ارسلان سے رنم کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی تھی اسی لئے دونوں ہوٹل کے ایک الگ تھلگ گوشے میں آگئے جہاں چہل پہل کافی کم تھی۔ ”یہ لڑکی بہت دکھی اور ستم رسیدہ لگتی ہے۔ پہلے بھی اکیلی تھی، اب کیا کرنا ہے اس کا۔ ہم سے کتنی امیدیں لے کر مدد مانگنے آئی ہے۔“ عتیرہ نے بات کا آغاز کیا۔
”میں اپنے ایک دوست کو کال کرتا ہوں۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدے پہ ہے۔ اس لڑکی کو بحفاظت دارالامان پہنچا دے گا بے سہارا عورتوں کے محفوظ مرکز میں۔“ ”اس کی شکل و صورت دیکھی ہے آپ نے۔ میں نے بے سہارا عورتوں کے مرکز کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے۔ میں اس حق میں نہیں ہوں کہ یہ دکھی حرماں نصیب لڑکی وہاں جائے۔“
”تو پھر تم ہی بتاؤ کیا کیا جائے؟“ وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔
”نہ جانے کیا بات ہے یہ لڑکی چندگھنٹوں میں ہی مجھے اپنی اپنی محسوس ہونے لگی ہے۔ ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں تو…“ وہ ہزاروں امیدیں لئے ملک ارسلان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ہاں بولو تو سہی۔ پہلے تم نے کبھی اجازت لینے کا تکلف نہیں کیا بات کرنے کے لئے تو پھر اب یہ غیروں والی باتیں کر رہی ہو۔“ ”ملک صاحب بات ایسی ہے کہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔
“ ”ہاں بولو ناں اب“ ”ملک صاحب اگر ہم اس لڑکی کو ساتھ لے جائیں تو؟“ عتیرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا تو وہ سوچ میں ڈوب گئے۔ ”میں لینے کو تو ساتھ لے جاؤں پر سوچ لو…“ کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوئے۔ ”جوان ہے۔ خوبصورت ہے کسی اچھے خاندان کی لگتی ہے۔ ہماری حویلی میں بہت جگہ ہے رہ لے گی ساتھ اسے حویلی میں ہی کسی کام پہ لگا دیں گے۔“ عتیرہ نے ملک ارسلان کو اور سوچنے کا موقع نہیں دیا۔
”بھائی جان کو اعتراض نہ ہو اس پہ۔“ ملک ارسلان نے اس طرف توجہ دلائی تو چند لمحوں کے لئے وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔ ”میں ان سے خود بات کروں گی۔ ویسے بھی یہ ہماری طرف رہے گی۔ بے چاری سی لڑکی ہی تو ہے کوئی نہیں ہے اس کا۔ ثواب ہوگا ہمیں اگر تحفظ دیا اس کو تو اور اللہ بھی خوش ہوگا۔“ عتیرہ نے انہیں خاموش دیکھ کر جذبہٴ ہمدردی ابھارنے کی کوشش کی۔
”میں صرف اسے اس لئے اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں کہ تم اس عمل سے خوش ہوگی۔“ ملک ارسلان محبت سے بولے تو حد درجہٴ انڈر سٹینڈنگ کے اس مظاہرے پہ عتیرہ کی آنکھیں بھر سی آئیں۔ وہ تو اپنی طرف سے انہیں کنوینس کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ وہ اس کے دل کی بات جان گئے تھے۔ ”بعد میں جو ہوا میں دیکھ لوں گا۔ تم ابھی سے پریشان مت ہو۔“ انہوں نے اسے تسلی دی تو عتیرہ کھل کے مسکرائیں۔ یہ جگہ اظہار ممنونیت کے لئے موزوں نہیں تھی ورنہ وہ شاید فرط جذبات سے رو ہی تو پڑتیں۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja