Episode 10 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 10 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی خود کو آئینے میں بغور تکتی چہرے پہ نائیٹ کریم کا مساج کر رہی تھیں۔ ملک ارسلان جہازی سائز بیڈ پہ نیم دراز ان کی اس سرگرمی کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھنے کے انداز میں بچوں کی سی معصومیت اور اشتیاق تھا۔ شادی کے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی عتیرہ کے حسن و جمال میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ حسن و رعنائی کا چھلکتا جام تھا۔
ملک ارسلان سیراب ہی نہیں ہوتے تھے۔ ان کی تشنگی روز اول کی طرح قائم و دائم تھی۔ وہ آج بھی نو عمر عاشق کی طرح عتیرہ کے حسن کے گرویدہ تھے۔ کبھی کبھی تو وہ اس بے تابی و وارفتگی پہ جھنجھلا سی جاتی۔ارسلان نے اسے بے پناہ محبت دی تھی کبھی کبھی خیال آتا ارسلان کے پاس محبت کے معاملے میں قارون کا خزانہ ہے جو دونوں ہاتھوں سے دیوانہ وار لٹانے کے بعد بھی ختم یا کم نہیں ہو رہا تھا۔

(جاری ہے)


عتیرہ فارغ ہو کر بیڈ پہ آئی۔ ارسلان اسے توجہ و شوق سے تکتے ادھر ادھر کی عام باتیں کرتے کرتے سوگئے۔ اس نے ان کی طرف سے کروٹ بدل لی۔ ان کی آنکھیں لبا لب نمکین پانیوں سے لبریز ہو رہی تھیں۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے لبوں سے ایک سسکی تک نہ نکلنے پائے ورنہ ملک ارسلان بہت ہرٹ ہوتے۔ انہوں نے بہت پہلے عتیرہ سے ایک وعد ہ لیا تھا کہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں۔
انکے سامنے وہ نہیں روتی تھیں۔ لیکن تنہائیوں میں آنکھیں گھٹا کی طرح برستی۔ انکے لبوں پہ صحراؤں کی سی پیاس تھی۔ اور اس پیاس سے سیراب ہونے کی کوئی تدبیرا نہیں پتہ نہیں تھی۔
بہت دیر بے آواز رونے کے بعد دل کوکچھ سکون ہوا۔ انہوں نے کندھے کے بل اُٹھ کر تھوڑا پانی پیا۔ نیم اندھیرے میں انہوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سوئے ہوئے ارسلان ملک کو دیکھنے کی ناکام سی کوشش کی اور پھر دوبارہ لیٹ گئیں۔
ارسلان بے سدھ سکون کی میٹھی نیند سو رہے تھے۔ عتیرہ کو ان کی نیند پہ رشک سا ہوا۔ اور خودپہ ترس بھی آیا۔ ایک وہی محروم اور تشنہ تھیں۔ ارسلان کتنے سکون میں تھے۔ سب کچھ پا لیا تھا اور ایک وہ تھی سب کچھ پا کر بھی خالی ہاتھ تھیں۔ ارسلان انکے مجازی خدا نے تو”محرومی“سے سمجھوتہ کرلیا تھا پر وہ نہیں کر پائی تھیں۔
کتنی بار تنہائی میں انہوں نے ایک ننھے منے وجود کو خود سے لپٹے محسوس کیا تھا۔
اسکے رونے کی آواز سنی تھی۔ لیکن ایسا صرف چند ثانیے کے لئے ہوتا۔ حقیقت بڑی تلخ اور سفاک تھی۔ ان کی گود خالی بنجرتھی۔ اور ملک ارسلان کا کوئی نام لیوا نہیں تھا۔ ملک جہانگیر دو کڑیل جوان بیٹوں کے باپ تھے وہ انکے وارث فخر اور مان تھے۔ افشاں بیگم کے لہجہ میں دونوں بیٹوں کے نام پہ کیسی مٹھاس اتر آتی۔ ان کا سر اونچا ہوتا جیسے دونوں جہاں انکے قدموں تلے ہوں۔
ملک ارسلان کو بھی محرومی ستاتی۔ مگر کم از کم عتیرہ کے سامنے انہوں نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔ یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا تھا۔ عتیرہ اکیلی روتی سسکتی پر ملک ارسلان کے سامنے اسکے لبوں پہ چپ کا قفل تھا۔
###
راعنہ نے کچھ دیر پہلے ہی فون پہ یہ ناقابل یقین خبر سنائی تھی۔ ان سب کو تو ناقابل یقین ہی لگی تھی۔ کیونکہ راعنہ نے تو کبھی اشارتاً بھی یہ ذکر نہیں کیا تھا۔
وہ اپنے کزن شہریار سے منسوب تھی۔ وہ تعلیم مکمل کر کے عملی میدان میں آچکا تھا۔ اب اس کے والدین راعنہ کو بہو بنا کر اپنے خواب پورے کرنا چا رہے تھے۔ کیونکہ راعنہ کے ماموں یعنی شہریار کے والد کافی عرصے سے بیمار چلے آرہے تھے۔ ان کی بیماری سنگین نوعیت کی تھی۔ہارٹ پیشنٹ تھے اپنی زندگی میں ہی بیٹے کو دولہا کے روپ میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔
راعنہ کے ڈیڈی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر ابھی اس کی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ چھٹا سمسٹر شروع تھا۔ بی ایس آنرز کا، دو دن سے راعنہ یونیورسٹی بھی نہیں آرہی تھی۔ جبکہ ایگزام بھی قریب تھے۔ ایسے میں اسکی یونیورسٹی سے غیر حاضری حیران کن اور نہ سمجھ میں آنے والی تھی۔ رنم اور کومل ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی جب باری باری راعنہ نے دونوں کو الگ الگ کال کر کے اپنی اچانک طے ہوجانے والی شادی کی اطلاع دی۔
کومل نے فراز اور اشعر کو ڈھونڈ کر پھولے پھولے سانسوں سمیت یہ بریکنگ نیوز سنائی۔
رنم نے باقی کی کلاسز چھوڑ دیں۔ اور سیدھی پارکنگ ایریا میں جا کر اپنی گاڑی نکالی۔ اسکے پیچھے پیچھے ہی کومل، اشعر اور فراز تھے۔
افتاداں و خیزاں وہ راعنہ کے گھر پہنچے۔
راعنہ مزے سے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ رنم اور کومل کا خیال تھا وہ اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑی رو رہی ہوگی۔
اچھا خاصہ فلمی سین ہوگا جنگ ہو رہی ہوگی کہ ابھی میں شادی نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ کہتی کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی شادی کروں گی۔ مما پپا بے شک کہتے رہیں مگر میں وہی کروں گی جو سوچا ہے۔ کیونکہ ماموں کی خرابیٴ صحت اور ان کی خواہش شہریار کو دولہا بنے دیکھنا اسکے علم میں تھی۔
اور اب وہ مزے سے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ جہاں سٹار پلس کا ڈرامہ چل رہا تھا اور مزے کی بات اس میں دکھائے جانے والے دو مشہور کرداروں کی شادی فلمی انداز میں ہو رہی تھی۔
انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ خاص طور پہ کومل کو اس کا تو چہرہ ہی اتر گیا۔ راعنہ سب سے نارمل ملی اور اپنے گھریلو ملازم کو آواز دی۔ کیونکہ اسے پتہ تھا وہ سب دوست یونیورسٹی سے سیدھا اسی کے گھر آئیں گے اور پیٹ پوجا تو لازمی کریں گے۔ ان کی زبردست سی خاطر مدارت کا انتظام سب کچھ ریڈی تھا۔
وہ ملازم کو کھانا لگانے کا بول کر آئی تو سب دوستوں کو اپنی طرف گھورتے پایا”کیا سن رہے ہیں ہم“ رنم نے اسے کڑی نگاہوں سے گھورا تو راعنہ نے ڈرنے کی کامیاب اداکاری کی۔
”جی کیا سنا ہے آپ نے؟“ ”یہی کہ آپ محترمہ کی شادی اچانک طے پاگئی ہے ٹھیک پچاس منٹ پہلے میرے سیل فون پہ کال آئی تھی“رنم نے اپنی رسٹ واچ کو دیکھتے ہوئے وقت کا اندازہ لگایا جو بالکل درست تھا۔ ”جی آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔“ راعنہ اسی کے انداز میں سعادت مندی سے بولی۔ ”ہرے خوب مزا آئے گا“اشعر نے صوفے سے کھڑا ہو کر دونوں بازو فضا میں لہرائے۔
راعنہ نے رونی سی صورت بنالی جو اسکے دکھائی دینے والے تاثرات کے ساتھ ذرا بھی لگا نہیں کھا رہی تھی۔ ”تم سب فرینڈز کو میرے بچھڑنے کا دکھ نہیں ہے؟“ ”تمہیں دکھ نہیں ہے تو ہمیں کیوں ہوگا۔ ہم تو یہ سوچ کر آئے تھے کہ تم بیٹھی رو رہی ہوگی۔ مگر یہاں تو چہرے پہ گلاب کھلے ہوئے ہیں ذرا بھی افسوس نہیں ہے تمہیں۔“
کومل نے تاک کر وار کیا۔ ذرا سی دیر میں ہی صوفے کے سب کشن ان چاروں کے ہاتھ میں تھے اور راعنہ پورے کمرے میں اپنے بچاؤ کے لئے بھاگتی پھر رہی تھی۔
کوئی بھی معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اچھی طرح درگت بنانے کے بعد اس کی جان بخشی کی گئی۔ اسکے بعد شرافت سے ساری کہانی سنی گئی۔ ”اصل میں ماموں بیمار ہیں انکی حالت پچھلے دنوں سیریس ہوگئی تھی تب ممانی نے پپا سے بات کی کہ شہریار اور راعنہ کی شادی کردینی چاہئے سو انہوں نے ہاں کردی۔ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ شہریار نے شادی کے بعد مجھے اپنا بی ایس آنرز مکمل کرنے کی اجازت دے دی ہے“ وہ آرام سے پوری کہانی سنا چکی تو کومل لٹکے منہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”میں تو سمجھی تھی کہ تم شادی کی وجہ سے خوش ہو“ ”ارے میں شادی کی وجہ سے بھی تو خوش ہوں“ راعنہ تیزی سے بولی جیسے اسے یہ ڈر ہو کہ کومل کوئی اور مطلب نہ نکال لے۔ اس پہ رنم اور کومل کی کھی کھی شروع ہوگئی۔ ”دیکھ لو کیا زمانہ آگیا ہے لڑکی اپنے منہ سے کہہ رہی ہے کہ میں شادی کی وجہ سے بھی تو خوش ہوں۔ ایک مشرقی لڑکی ہوتے ہوئے بھی ایسی بولڈ نہیں“ کومل اور رنم دونوں اسے چھیڑ رہی تھیں مگر اب وہ بھی انکے ساتھ ہنس رہی تھی۔
فراز اور اشعر نے بزرگانہ انداز میں دعا دی”سدا خوش رہو۔ اور دودھ میں نہاؤ۔“ دودھ میں نہانے کی دعا فراز نے اپنی عقل کے مطابق دی تھی کیونکہ اسے زبردست سا لنچ کرنے کے بعد فراز اور اشعر واپس اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ جبکہ کومل اور رنم دونوں راعنہ کے پاس ہی تھیں۔
شادی اگزام کے بعد تھی۔ وہ ان دونوں کے ساتھ مل کر اپنا پروگرام بنا رہی تھی”میں چاہتی ہوں کہ اگزام کے بعد ہی شاپنگ کروں۔
تم دونوں نے میرا ساتھ دینا ہے۔میری کوئی بہن تو ہے نہیں تم نے ہی سب کچھ کرنا ہے۔“ ”ہاں تم کیوں ٹینشن لے رہی ہو ہم ہیں ناں کیوں رنم“ کومل نے رنم سے تائید چاہی۔ وہ خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی کومل کی بات پہ فوراً ہاں میں سر ہلایا۔ ”میں تو راعنہ کی شادی پہ پیارے پیارے ڈریسزبنواؤں گی۔“ کومل کو اپنی پڑی تھی۔ رنم ہنسنے لگی کومل ہر بات میں ہر کام میں عجلت سے کام لیتی تھی اسے ایسی کوئی جلدی نہیں تھی وہ سب کام سکون اور آرام سے کرنے کی عادی تھی۔
”رنم تم میری شادی پہ کیا پہنو گی؟“ راعنہ نے پوچھا”ابھی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا ہے میں نے”میں تو یہ خوب کام والے ڈریس بنواؤں گی ایکدم ایسٹرن لک“ کومل پھر شروع تھی۔ جبکہ اب رنم گھر واپسی کا سوچ رہی تھی۔ شام ہو رہی تھی آج پپا نے گھر جلدی آنے کا کہا تھا۔ راعنہ سے اجازت لے کر وہ واپسی کے لئے نکل آئی۔ جبکہ کومل ابھی تک راعنہ کے کان کھا رہی تھی۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja