Episode 51 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 51 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

جیسے بول کر احسان کر رہی ہو۔ ”ابیک، ذیان نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے۔“ عتیرہ نے اس کے روئیے کی تلخی کو زائل کرنے کے لئے خود جواب دیا۔ ”آپ نے کن سبجیکٹ کے ساتھ گریجویشن کیا ہے ذیان؟“ ابیک کی طرف سے اگلا سوال آیا۔ ”میں نے ماس کیمونیکشن میں گریجویشن کیا ہے۔“ ”آگے کیا ارادے ہیں آپ کے؟“ ابیک نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ”کچھ خاص نہیں۔
“ وہ پہلے کی طرح سرد لہجہ میں بولی تو عتیرہ کو بے انتہا شرمندگی ہوئی۔ ”میں ذرا فریدہ کو دیکھ آؤں تمہیں اچھی سی چائے پلواتی ہوں۔“ ذیان کے روئیے کی شرمندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی شرمندگی کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے عتیرہ دانستہ طور پہ وہاں سے ہٹنا چاہ رہی تھیں۔ ”چچی میں آج دیر سے اٹھا ہوں ابھی کچھ دیر پہلے ناشتہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

فی الحال گنجائش نہیں ہے۔

“ ابیک نے سلیقے سے انکار کیا۔ ”اچھا میں جوس کا بول کر آتی ہوں ذیان، نے ناشتے میں صرف انڈہ اور ٹوسٹ کھایا ہے۔ اسی بہانے یہ بھی پی لے گی۔“ عتیرہ نے اس کی اگلی بات سنے بغیر قدم آگے بڑھا دئیے۔
ذیان نے عتیرہ کے جاتے ہی ریموٹ کنٹرول سے چینل تبدیل کردیا۔ اب صرف ٹی وی کی آواز تھی ابیک اور ذیان دونوں خاموش تھے۔ ابیک نے ایک نظر خاموشی سے بیٹھی ذیان کی طرف دیکھا۔
بلیک فراک اور ٹراؤزر میں ملبوس دوپٹہ سر پہ لیے ابیک سے بے نیاز تھی۔ ابیک کے مونچھوں تلے دبے عنابی ہونٹوں پہ عجیب بیساختہ سی مسکراہٹ در آئی تھی۔ ذیان مار دھاڑ سے بھرپور ایکشن تھرلر فلم دیکھنے میں پوری طرح مگن تھی۔ جیسے اس کے سوا اور کوئی ذی نفس موجود ہی نہ ہو۔ ابیک کی موجودگی کا اس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔
نیناں، فریدہ کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی۔
فریدہ اور نیناں کے ہاتھ میں دو ٹرے تھی۔ جن میں جوس سمیت کھانے پینے کے مختلف لوازمات تھے ان کے پیچھے ہی عتیرہ تھی۔ کھانے پینے کی سب اشیاء ٹیبل پہ سج گئی تھیں۔ ”نیناں آپ کیسی ہیں؟“ وہ گلاس میں جوس ڈال رہی تھی۔ ذیان نے حیرت بھری نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا وہ عام سی نوکرانی سے کتنے طریقے اور سبھاؤ سے بات کر رہا تھا۔ نیناں کے ساتھ اس نے فریدہ سے بھی حال احوال پوچھا۔
نیناں نے بہت ادب سے جوس کا گلاس ایک ابیک کے سامنے ٹیبل پہ رکھا۔ دوسرا گلاس اس نے ذیان کے سامنے رکھا۔ وہ کسی مغرور شہزادی کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی تھی جیسے ساری دنیا اس کے قدموں تلے ہو۔ رنم کو جانے کیوں پھر اس پہ شدید غصہ آیا۔ ہر بار ذیان سے آمنا سامنا ہونے پہ اسے محسوس ہوتا جیسے اس نے رنم کی جگہ پہ قبضہ کرلیا ہو۔ ملک ارسلان، عتیرہ بیگم سے لے کر نوکرانیاں تک اس نک چڑھی ذیان کو اپنی پلکوں پہ بٹھا رہے تھے جیسے اسے اہمیت دے رہے تھے۔
ذیان کو اس قدر اہمیت دینا اسے کھل رہا تھا۔
”ابیک، نیناں پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہے۔ سارا دن حویل میں چھوٹے موٹے کاموں میں لگی رہتی ہے۔ میں چاہتی ہوں جب تم انڈسٹریل ہوم بنالو تو اس کو بھی وہاں رکھ لو۔ وہاں کے سب معاملات کو سنبھال لے گی۔“ عتیرہ نے ابیک کی توجہ نیناں کے مسئلے کی طرف دلائی۔ ”چچی میں اب گاؤں میں ہی ہوں۔ انڈسٹریل ہوم کی عمارت تکمیل کے مراحل میں ہے مزدوروں اور مستریوں نے جلدی بنانے کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔
ابھی تھوڑا ٹائم باقی ہے جب سلائی مشینیں اور دیگر سامان آجائے گا تو میں آپ کو بتاؤں گا اور نیناں کے لئے بھی جگہ دیکھوں گا۔“ اس نے عتیرہ چچی کو امید دلائی۔ وہ نیناں کے مسئلے کی طرف متوجہ تھا اسے خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ”ہاں اسے جو بھی کام دو گے کرلے گی۔“ عتیرہ نے اس کی تعریف کی”چچی جان آپ کا حکم سر آنکھوں پہ۔“ وہ مسکرایا۔ ذیان ایک بار پھر حیران ہو رہی تھی۔
عتیرہ اور ابیک ایک عام سی نوکرانی کے لئے کتنافکر مند تھے۔
ابیک نے اپنی طرف رکھا جوس کا گلاس اٹھایا۔ عتیرہ چچی کی مغرور بیٹی ایکشن فلم میں بری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔ ابیک کو مزید یہاں بیٹھنا عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ واپسی کے لئے اٹھا۔ ذیان نے اسے جاتے ہوئے پیچھے سے دیکھا۔ 
 اس نے مہین شیفون کا جالی لگے بازوؤں والا کالا فراک اور ساتھ چوڑی دار پائجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔
لمبے بال ربڑ بینڈ جکڑے پیچھے کمر پہ پڑے تھے۔ مہین شیفون کا دوپٹہ بہت سلیقے سے سر پہ جما تھا۔ ایک کلائی میں پرل کا نازک سا برسلیٹ تھا۔
افشاں بیگم بہت پیار سے اسے گلے لگا کر ملی تھیں۔ پھر وہ اسے ملک جہانگیر کے پاس ان کے کمرے میں لائیں۔ وہ بیڈ پہ نیم دراز تھے۔ طبیعت کی خرابی کیوجہ سے ڈاکٹرز نے انہیں بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا تھا۔ انہیں دیکھتے ہوئے ذیان کو امیر علی یاد آگئے۔
ملک جہانگیر اور امیر علی میں اسے مشابہت محسوس ہو رہی تھی زندگی کے آخری دو برسوں میں وہ بھی تو ملک جہانگیر کی طرح بیڈ کے ہوکے رہ گئے تھے۔ اس نے دل میں ہمدردی کی لہر اٹھتے محسوس کی۔ افشاں بیگم نے ذیان کا تعارف کروایا۔ ان کی نظر آپریشن کے بعد کافی کمزور اور دھندلائی ہوئی تھی مگر پھر بھی ذیان انہیں دیکھنے میں بہت اچھی لگی۔ انہوں نے پاس بلا کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
ان کے اس عمل سے ذیان کو ایک بار پھر امیر علی یاد آگئے۔ انہوں نے ذیان کو بیڈ کے پاس رکھی گئی کرسی پہ اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شروع میں تو وہ گم صم رہی پھر آہستہ آستہ ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ اس عمل سے عتیرہ خوف محسوس کر رہی تھیں۔ وہ افشاں بیگم کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ بیچ بیچ میں وہ دونوں ذیان کو بھی مخاطب کرتی جس کی توجہ ملک جہانگیر کی طرف تھی۔
افشاں بیگم جب بھی ذیان کی طرف دیکھتی ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آجاتی۔ ابیک کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ بھی وہیں آگیا۔ اس نے سب کو سلام کیا اور پھر بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کی۔ ذیان کے ساتھ والی ایک اور کرسی خالی پڑی تھی۔ وہ اسی پہ بیٹھ گیا۔ وہاں بیٹھنے میں اس کی کسی خاص سوچ یا نیت کا دخل نہیں تھا۔
وہ قیمتی مردانہ پرفیوم استعمال کرنے کا عادی معلوم ہوتا تھا۔
کیونکہ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی پسندیدہ مہک نے ذیان کی حس شامہ کو متوجہ کرلیا۔ وہ اب اس کے پاس ہی تو بیٹھا تھا۔ بابا جان کے ساتھ بات کرتے ہوئے ملک ابیک نے نگاہ ذیان پہ ڈالی آج اس نے کالے رنگ کی فراک زیب تن کی ہوئی تھی نازک سے پاؤں بھی کالی سینڈل میں مقید تھے۔ وہ خواہ مخواہ ہی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رہی تھی۔ چہرے پہ خفگی والے تاثرات آج کچھ کم تھے۔
ابیک کو جانے کیوں ہنسی آگئی۔ اس کی موہوم سی مسکراہٹ افشاں بیگم کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ پائی۔ ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر ان کے دل میں خود ہی ایک خیال الہام بن کر اترا۔ دونوں ایسے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ وہ ملک جہانگیر کی کسی بات کا جواب دیتے ہوئے دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اور ابیک عتیرہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ دونوں اپنی جگہ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل منظر کا حصہ لگ رہے تھے۔ ”اور اگر یہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہیں تو اور بھی اچھے لگیں۔“ 
                                         ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja