Episode 65 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 65 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

بوا، زرینہ بیگم اور تینوں بچے اُداس اور خاموش بیٹھے تھے۔
گھر کا سودا ہوچکا تھا۔ آج ان کی اس گھر میں آخری رات تھی۔ وہاب کی دھمکیوں سے زرینہ بیگم بے حد خوفزدہ تھیں۔ انہوں نے اپنے وکیل سے مشورہ کیا تھا۔انہوں نے تو مکان نہ بیچنے پہ زور دیا تھا پر زرینہ نے حالات کے رخ کو دیکھتے ہوئے دل پہ پتھر رکھ کر مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہاں رہنے سے وہاب کی تلوار سر پہ لٹکتی رہتی وہ آئے روز دھمکاتا اور زندگی اجیرن کرتا۔اس لیے انہوں نے یہاں سے بہت دور ایک اور علاقے میں اپنے وکیل کے توسط سے ہی نیا گھر خریدا تھا۔
یہ گھر امیر علی کے والد نے بڑی چاہتوں سے تعمیر کروایا تھا اور زرینہ بیگم نے سجایا سنوارا تھا۔ وہ اسی گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں یہاں پہ ہی آفاق،رابیل اور مناہل پیدا ہوئے پروان چڑھے۔

(جاری ہے)

زندگی کی بہت سی خوشگوار بہاریں انہوں نے اسی گھر میں دیکھی تھی۔ پھر امیر علی سے جدائی کا ابدی غم بھی انہوں نے اسی گھر میں برداشت کیا تھا۔ یہ گھر ان کے لیے اینٹ پتھر اور سیمنٹ سے تعمیر کردہ محض ایک عمارت نہ تھا بلکہ ان کے خوابوں کی جنت اسی گھر میں تھی۔ بوا نے بھی اپنی عمر کا بڑا حصہ اسی گھر میں گزارا تھا۔ انہیں بھی بے حد دکھ نے گھیرا ہوا تھا۔
دل گرفتہ زرینہ کو انہوں نے تسلی دی تو وہ پھیکے انداز میں مسکرائیں جس میں اُداسی کا رنگ رچا ہوا تھا۔ ”بوا صبح جلدی نکلنا ہے اس لیے اب سوجانا چاہیے۔“ انہوں نے اپنے آنسو پیتے ہوئے بوا سے نظر چرائی تو بوا نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
###
عتیرہ اور ملک ابیک دونوں دعوت نامہ لے کر امیر علی کے گھر پہنچے تھے۔ بیل بجانے پہ اندر سے جو صاحب برآمد ہوئے وہ ان دونوں کے لیے تو اجنبی تھے ہی لیکن اس گھر کے مکینوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے حال ہی میں یہ گھر خریدا تھا اور پرانے مالک مکان کے بارے میں وہ لاعلم تھے۔ نئے مالک مکان کا نام عباس احمد تھا۔ وہ عتیرہ اور ملک ابیک کی قیمتی گاڑی، رکھ رکھاؤ اور شکل و صورت سے خاصے متاثر نظر آرہے تھے۔ ملک ابیک اور عتیرہ واپسی کا ارادہ باندھ ہی رہے تھے جب وہاں گیٹ پہ وہاب کی گاڑی رکی۔ وہ گیٹ پہ ایک اجنبی صورت کو بے تکلف انداز میں کھڑے دیکھ کر سٹ پٹا سا گیا واپسی کے لیے مڑتی قیمتی گاڑی کو بھی اس نے بغور دیکھا تھا۔
”السلام علیکم۔“ وہ گیٹ کے بیچوں بیچ کھڑے عباس احمد سے مخاطب ہوا۔ ”جی میں وہاب ہوں۔ آپ کون اور یہ اس طرح یہاں کیوں کھڑے ہیں۔“ اپنا تعارف کرواتے اور آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اس کا لہجہ خود بہ خود ہی سخت سا ہوگیا۔ ”میں اس گھر کا نیا مالک عباس احمد ہوں۔“ اجنبی صورت نے اپنا تعارف کروایا تو وہ پریشانی سے انہیں تکنے لگا جیسے سننے میں کوئی غلطی لگی ہو۔
“ یہ گھر میری خالہ زرینہ امیر علی کا ہے تین دن پہلے تک تو وہ یہاں ہی تھیں۔“ ”میں کل ہی اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوا ہوں۔ میں کسی زرینہ امیر علی سے واقف نہیں ہوں میں نے یہ گھر بروکر کے توسط سے خرید اہے۔“ عباس احمد کے بتانے پہ حیرتوں کے جال وہاب کے چہرے پہ پھیلتے جارہے تھے۔
”آپ نے یہ گھر کب خریدا ہے؟“ حیرت کی جگہ اب شدید غیض و غضب اور اشتعال نے لے لی تھی۔
”میں نے یہ گھر پچھلے ہفتے ہی خریدا ہے اور تمام ادائیگی بھی کردی ہے۔“ عباس احمد تفصیل بتانے کے ساتھ ساتھ وہاب کے تاثرات کا بھی بغور جائزہ لے رہے تھے۔ ”ابھی ابھی ایک اور صاحب اور خاتون بھی آئے تھے مذکورہ خاتون کا دریافت کرنے۔“ ”اس بلیک کار میں جو ابھی ابھی گئی ہے؟“ ”جی ہاں اسی گاڑی میں آئے تھے۔“ وہاب اپنے ذہن میں تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا۔
وہ اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے وکیل کی طرف جارہا تھا۔ اس کے ذہن میں سب سے پہلا نام وکیل کا آیا تھا۔ امیر علی کا وکیل مکان کی فروخت اور زرینہ خالہ کی موجودہ رہائش سے یقینا واقف ہوتا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ وکیل صاحب کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پے درپے سوالات پہ انہوں نے مکمل حیرت اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ ”مجھے قطعی طور پہ علم نہیں ہے کہ زرینہ بیگم نے مکان فروخت کردیا ہے کم سے کم انہیں مجھے تو بتانا چاہیے تھا۔
“ وکیل صاحب خود الجھے ہوئے تھے۔ ”یہ آپ میرا نمبر رکھ لیں جب بھی خالہ آپ سے رابطہ کریں مجھے اس نمبر پہ اطلاع کردیجئے گا۔“ وہاب نے کارڈ پہ لکھا اپنا نمبر انہیں دیا۔ ”جی ضرور۔“ وکیل صاحب خوشدلی سے بولے۔ وہاب ان کے آفس سے نکلا تو انہوں نے زرینہ بیگم کو فون کر کے وہاب کی آمد سے مطلع کیا۔ وکیل صاحب سچ میں درد مند آدمی تھے انہوں نے مکان فروخت کرنے سے لے کر نیا گھر خریدنے تک زرینہ بیگم کا پورا پورا ساتھ دیا تھا اور خود کو بھی محفوظ رکھا تھا۔
وہاب کے لیے یہ پتہ چلانا آسان نہیں تھا کہ وکیل صاحب نے پس پردہ رہ کر زرینہ بیگم کی مدد کی ہے۔ ان کے امیر علی سے اچھے تعلقات رہے تھے اسی وجہ سے انہوں نے امیر علی کے گھرانے کو مشکل اور کڑے وقت میں اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا تھا۔ زرینہ بیگم، وہاب سے بے حد خوفزدہ تھیں انہوں نے وکیل صاحب کو حرف بہ حرف تمام حقیقت بتائی تھی۔ وہاب کو دیکھتے ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے پتہ چل چکا ہے تب ہی وہ ان کے پاس آیا ہے۔
انہوں نے خوبصورتی سے ٹال دیا تھا۔
                                        ###
وکیل کے آفس سے باہر نکل کر وہاب نے گاڑی فل اسپیڈ پہ چھوڑ دی تھی۔اس نے زرینہ خالہ کا نمبر ملایا پر نمبر بند جارہا تھا۔ اس کا اندازہ اسے پہلے ہی تھا۔ خالہ کے گھر کے گیٹ پہ اجنبی صورت دیکھتے ہی اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ واپسی کے لیے مڑتی کالی کار اور اس میں بیٹھے افراد کی ہلکی سی جھلک نے اُسے بے چین کر رکھا تھا۔
اس ٹائم پریشانی کی وجہ سے اس نے عباس احمد سے ان کی بابت زیادہ نہیں پوچھا تھا۔ ورنہ ان کے کہنے کے مطابق وہ بھی زرینہ خالہ کے بارے میں ہی پوچھنے آئے تھے۔ وہاب دوبارہ عباس احمد کی طرف جارہا تھا اسے کالی کار والوں کے بارے میں مزید معلوم کرنا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ عباس احمد گھر پہ ہی مل گئے اور بدقسمتی سے وہ کالی کار والوں کی آمد کے مقصد سے لاعلم تھے کیونکہ انہوں نے صرف زرینہ بیگم کے بارے میں ہی تو پوچھا تھا خود وہ کس لیے آئے تھے یہ نہیں بتایا تھا۔
وہاب نے کار کے اسٹیئرنگ پہ زور سے مکا مارا۔ آج کا دن ناکامیوں بھرا تھا۔ حالانکہ وہ پوری تیاری سے آیا تھا۔ ”مکان کی پاور آف اٹارنی اس کی جیب میں تھی صرف خالہ سے دستخط ہی تو کروانے تھے۔ اس مقصد کے لیے چھوٹا اور جدید ریوالور اس کے پاس تھا۔ خالہ اڑی تڑی کرتی تو ریوالور دکھا کر انہیں رام کیا جاسکتا تھا۔ پر اس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی۔
پہلے ذیان اور اب خالہ نے اسے شدید ترین شکست سے دوچار کیا تھا۔
”امی میں خالہ کو کہاں ڈھونڈوں؟ پہلے ہی ذیان والے مسئلے کی وجہ سے دماغ خراب ہو رہا ہے اور اب یہ خالہ اچانک مکان فروخت کر کے غائب ہوگئی ہیں۔ میں کیا کروں اتنا سنہرا موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ میں تو ذیان کے ساتھ ساتھ خالہ کے مکان کا سوچ کر خوش ہو رہا تھا اتنی بہترین لوکیشن اف۔
“ ”میں کیا کروں…“ وہاب نے اپنے سر کے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔ وہ شدید طور پہ غیض و غضب کا شکار ہو رہا تھا۔ خالہ زرینہ کے ساتھ ساتھ ذیان نے بھی چار چوٹ کے مار دی تھی۔ خیر وہ اسے بچ کے جانے نہیں دے گا کسی بھی قیمت پہ سہی حاصل کر کے رہے گا اور خالہ کو بھی سبق سکھا کے رہے گا جن کی وجہ سے امیر علی کا قیمتی مکان ا س کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ مکان کی کمرشل ویلیو بہت اچھی تھی وہاب کا منصوبہ تھا کہ خالہ کو کسی طرح اپنے گھر چل کر رہنے کے لیے راضی کرے گا اور خود مکان فروخت کردے گا۔
اس نے پیسے دے دلا کر سب پیپرز تیارکروائے ہوئے تھے کہ جب وقت پہ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
”میں تو کہتی ہوں لعنت بھیجو ذیان پہ۔ پر زرینہ کی ہمت اور جرأت پہ میں حیران ہوں کیسے تن تنہا اتنا بڑا گھر فروخت کر کے راتوں رات غائب ہوگئی ہے۔ زرینہ کسی طرح بھی میری بہن نہیں لگتی۔ ہم نے تو اس کی بھلائی ہی سوچی تھی کہ اکیلی عورت ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے کیسے اتنے بڑے گھر میں تنہا رہے گی۔
برے حالات میں عورت کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ہم نے تو اپنی طرف سے نیکی کرنے کا سوچا تھا پر کیا فائدہ۔“ روبینہ نے ہاتھ لہراتے ہوئے تیز تیز کہا۔ ”اماں میں خالہ کو اس کی ہمت اور جرأت کا انعام دوں گا۔ ویسے بھی خالہ نے جو کارنامہ کیا ہے اس پہ ان کو ایوارڈ شوارڈ تو ملنا چاہیے۔“ وہاب کے ہونٹوں پہ سفاک مسکراہٹ رقصاں تھی۔
بدن کی قید سے نکلیں تو اس نگر جائیں
جہاں خدا سے کسی شب مکالمہ ہوگا
جہاں پہ روح کا بھی کوئی حق ادا ہوگا
نہ دل کو تنگ کرے گی حصول کی خواہش
نہ کوئی خدشہٴ لاحاصل ستائے گا
ہمیں قبول نہ ہوگی صدائے نوحہ گری
کہ پھر وصول نہ ہوگی شکست سادہ دلی
نہ مرحلے وہ شفقت کے پیش جاں ہوں گے
کہ جن کے خوف سے لب تنہا بھول جاتے ہیں
نہ ایسی شب کی مسافت کا سامنا ہوگا
جہاں پہ چراغ وفا نہیں جلتا
لبوں کی شاخ پہ حرف دعا نہیں کھلتا
کہیں پہ کوئی خراج آشنا نہیں ملتا
عذاب ترک مطلب سے بھی اب مکر جائیں
زمین کی قید سے نکلیں تو اس نگر جائیں
جہاں خدا سے کسی دن مکالمہ ہوگا
جہاں پہ روح کا بھی کوئی حق ادا ہوگا
ذیان نے نماز پڑھ کر بہت دل سے دعا مانگی۔
وہ عتیرہ بیگم کا انتظار کر رہی تھی وہ شہر گئی ہوئی تھیں انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق بوا کو ساتھ لے کر آنا تھا۔ ذیان کا ٹائم ہی نہیں گزر رہا تھا۔
وہ نماز کی ادائیگی کے بعد اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی جب باہر سے چہل پہل اور مخصوص آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ عتیرہ واپس آگئی ہیں اور سب الرٹ ہوگئے ہیں۔ اس نے اشتیاق سے باہر جھانکا کہ بوا بھی ہوں گی۔
پر عتیرہ اکیلی تھیں اور اسی کی طرف آرہی تھیں۔ مایوسی اور ناکامی ان کے چہرے پہ لکھی تھی۔ ”کیا بوا اور زرینہ آنٹی نے آنے سے انکار کر دیا ہے۔“ سب سے پہلے یہی سوچ اس کے دماغ میں آئی۔ وہ عتیرہ کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ”وہ لوگ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں اور ان کے نئے گھر کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔میں بہت شرمندہ ہوں اپنا وعدہ پورا نہ کرسکی۔ ”عتیرہ کے لہجے میں ندامت اور شرمندگی تھی جیسے ان کا قصور ہو۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja