Episode 14 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 14 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

میں چاہوں تجھ کو میری جاں بے پناہ
آئینے میں خود کو دیکھ کر بال سنوارتے ہوئے سیٹی پہ شوخ سی دھن گنگناتے وہاب بہت مسرور نظر آرہا تھا۔
روبینہ قدرے دور بیٹھی اس کی تیاری ملاحظہ کر رہی تھی اور جی ہی جی میں کلس رہی تھی۔ وہاب کی تیاری ابتدائی مراحل میں تھی آخر میں اس نے خود کو پرفیوم میں تقریباً نہلا ہی تو دیا۔ روبینہ کے دل میں عجیب عجیب سے خیالات آرہے تھے۔
یقینا وہ زرینہ کے گھر جانے کے لئے اتنا اہتمام کر رہا تھا تب ہی تو اسکے دل میں اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ اس سے رہا نہیں گیا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے بیٹے کو آواز دی”وہاب اِدھر آؤ میری بات سنو“ ”جی امی کیا بات ہے؟“ وہ پرفیوم کی بوتل ڈریسنگ پہ رکھ کر ان کی طرف آیا۔
”میرے پاس بیٹھو“ انہوں نے گہری نگاہ سے نک سک سے تیار بیٹے کو دیکھا۔

(جاری ہے)

”جی اماں“ حیرت انگیز طور پہ وہاب کا لہجہ پیار بھرا تھا۔

وہ لاڈ میں انہیں”اماں“ بلاتا تھا۔ ”کہیں جانے کی تیاری ہے؟“ روبینہ کی نگاہ جیسے وہاب کو آج اندر تک پڑھ رہی تھی۔ ”ہاں اماں دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کے لئے جارہا ہوں میری پروموشن ہوئی ہے ناں اسلئے وہ سب ٹریٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔“ اس نے تفصیل سے بتایا تو زرینہ کے لبوں سے سکون کی گہری سانس برآمد ہوئی۔ وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھیں اور بیٹے نے انکی سوچ کو غلط ثابت کیا تھا۔
پہلی بار انہیں سوچ کے غلط ثابت ہونے پہ خوشی سی ہوئی۔
”مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی۔“انہوں نے پھڑ پھڑا کر ایک جملہ بولا۔ ”ہاں اماں کریں“ وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
”میں چاہتی ہوں اب تمہاری شادی ہوجائے اچھے کما رہے ہو گھر ہے گاڑی ہے زندگی میں سکون ہی سکون ہے اسلئے میری خواہش ہے کہ تمہاری شادی ہوجائے۔ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہو آخر۔
ہمارے بھی تو کچھ ارمان ہیں۔“ ”اماں مجھے تھوڑا اور سیٹل ہونے دیں سال چھ مہینے تک اسکے بعد شادی بھی کرلوں گا۔ میں اپنی بیوی کو زندگی کی ہر سہولت اور خوشی دینا چاہتا ہوں… ویسے بھی ذیان ابھی پڑھ رہی ہے مجھے انتظار تو کرنا ہے“ آخر میں روانی میں اسکے منہ سے ذیان کا نام نکل گیا تو روبینہ ایسے اچھلی جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ اس نے بہت مشکل سے اپنی اندرونی حالت پہ قابو پایا۔
”ہمارا بھلا ذیان کی پڑھائی سے کیا لینا دینا۔“ ”اماں مجھے ذیان سے ہی شادی کرنی ہے“ وہاب کی آنکھوں میں ذیان کے نام سے ہی جگنو اتر آئے تھے۔ روبینہ کو دل کٹتا محسوس ہوا۔ ایک ثانیے کے لئے اس نے خود کو وہاب کی جگہ رکھ کر سوچا مگر پھر فوراً ہی اس کیفیت سے پیچھا چھڑایا۔
”امیر علی کبھی نہیں مانیں گے وہ اس کی شادی کم سے کم ہمارے خاندان میں کبھی نہیں کریں گے اسلئے تمہیں کوئی آس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ روبینہ نے اسے ڈرایا مایوس کرنا چاہا۔ ”آپ کو کیسے پتہ کہ وہ ہمارے خاندان میں ذیان کی شادی نہیں کریں گے؟“ وہاب نے سوال کیا۔ ”ارے میری زرینہ سے کتنی بار بات ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے امیر علی ذیان کی شادی اپنے خاندان میں اپنی مرضی سے کریں گے۔“
روبینہ نے بیٹے سے نگاہ چراتے ہوئے سفید جھوٹ بولا۔ ”میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مجھے ہر صورت ذیان سے شادی کرنی ہے چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔
میں کروں گا“ وہاب کے تاثرات میں جارحانہ پن امنڈ آیا۔ روبینہ نے دہل کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ اس کا یہ انداز اجنبی تھا بیٹے میں یہ جرأت و بے خوفی اس نے پہلی بار دیکھی تھی”کیا کرلوگے تم اگر امیر علی نہ مانے تو…“ وہ اپنے بد ترین خدشات کے حقیقت ثابت ہونے کے خوف سے تھرا گئی تھی۔ ”بہت کچھ کرسکتا ہوں میں۔“ ”ذیان امیر علی کی اولاد ہے ان کی مرضی وہ ہمیں رشتہ دیں نہ دیں یا جہاں انکا دل کرے بیٹی کا رشتہ کریں۔
“ ”نہیں امی جہاں ان کا دل چاہے وہاں نہیں، میں اپنی محبت کو کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا۔ اٹھا لوں گا میں ذیان کو اس کا باپ نہ مانا تو!!“ ”وہاب“ روبینہ کی آواز غصے میں چیخ میں ڈھل گئی گویا اسکے بدترین خدشات سچ ثابت ہوسکتے تھے۔
”بکواس بند کرو اپنی۔ کسی کی بیٹی کے بارے میں اپنے گھٹیا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تمہیں۔
آخر تمہاری بھی تین بہنیں ہیں۔ سب کی عزت سانجھی ہوتی ہے۔“ وہاب انکے چیخنے چلانے کی پرواہ کئے بغیر گاڑی لے کر جاچکا تھا۔ وہ اپنی سوچوں کے گرداب میں چکرانے لگیں۔ جن کے سپرد ابھی ابھی انہیں انکے لاڈلے سپوت وہاب نے کیا تھا۔
اس کے لہجہ میں کوئی ڈر خوف یا لحاظ نہیں تھا سو پریشانی فطری تھی۔
                                         ###
ملک ابیک بابا جان کی بات پہ بالکل خاموش سا ہوگیا تھا۔
وہ اس کی دل کی حالت سے بے خبر بولے جارہے تھے۔ ”معاذ کم عقل ہے اسے کیا خبر نسلوں کو چلانے کے لئے اچھی بیوی بہت مشکل سے ملتی ہے چھان پھٹک کر انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ احمد سیال کی بیٹی مجھے بہت اچھی لگی ہے۔
میں نے اسے معاذ کے لئے پسند کیا تھا پر وہ نہیں مان رہا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم ایک نظر لڑکی دیکھ لو۔ میں اس رشتے کو گنوانا نہیں چاہتا۔
احمد سیال کا خاندان ہمارا ہم پلہ ہے۔ مجھے پوری امید ہے تم انکار نہیں کرو گے“ ان کے لہجے میں باپ والا مان اور بے پناہ توقعات تھیں۔ ”ٹھیک ہے بابا جان جو آپ کا حکم۔“ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
” مگر تم بھی تو کچھ بولو۔ یہ شادی تمہارا مستقبل ہے۔“ ”بابا جان آپ نے فیصلہ کرتو لیا ہے میں اب اور کیا بولوں…“ ابیک نے پوری کوشش کی تھی کہ اسکے لہجہ سے خفگی محسوس نہ ہونے پائے۔
                                     ###
ملک جہانگیر، افشاں بیگم کے ساتھ، احمد سیال اور ان کی بیٹی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ”آپ نے ابیک سے بات کی تو اس نے کیا کہا؟“ افشاں بیگم کا لہجہ اضطراب سے بھرپور تھا۔ ”اس نے کیا کہنا تھا بس یہی کہا کہ آپ کی مرضی۔“ وہ میرا سعادت مند فرمانبردار بیٹا ہے۔ معاذ کی طرح اپنی من مانی کرنے والا نہیں۔
”معاذ کو آپ نے اتنا سر پر چڑھایا ہوا ہے اس کی مرضی پہ چلتے ہیں۔ ابیک بھی تو ہماری ہی اولاد ہے۔ معاذ نے انکار کردیا بغیر دیکھے اور آپ اس رشتے کے لئے ابیک کو مجبور کر رہے ہیں۔ یہ انصاف تو نہ ہوا ناں۔“ افشاں کی خفگی محسوس کرنے والی تھی۔ ”ارے نیک بخت میں ابیک کو مجبور نہیں کر رہا ہوں۔ بس اتنا کہا ہے کہ احمد سیال کی بیٹی بہت اچھی ہے۔
“ انہوں نے جھنجھلا کر وضاحت دی۔ ”ابیک کی بھی کوئی پسند ہوگی جبکہ آپ اپنی مرضی مسلط کر رہے ہیں“ افشاں بیگم چڑ سی گئیں۔ ”ابیک ایک بار احمد سیال کے گھر میرے ساتھ جائے گا وہاں اسے کچھ سمجھ میں آیا تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے اپنی اولاد سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔“
”وہ معاذ کی طرح منہ پھٹ نہیں ہے کہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے گا۔ آپ نے ایک بار بول دیا ہے ناں اب وہ ناں نہیں کرے گا۔
میرا بیٹا ہے وہ جانتی ہوں اسے اچھی طرح۔“ اور پتہ نہیں آپ کے دوست کی بیٹی کن عادات کی مالک ہے۔ ہمارا ابیک سلجھا ہوا ذمہ دار بچہ ہے۔“ افشاں بیگم کی فکر مندی ماں ہونے کی حیثیت سے تھی۔
ملک جہانگیر اب اس نقطے پہ سوچ رہے تھے۔
”میں تین چار دن تک چکر لگاؤں گا احمد کی طرف… اس کے کان میں بات ڈال دوں گا دیکھو پھر کیا ہوتا ہے۔ بعد میں تم سب اسکے گھر چلنا۔“ وہ ابھی بھی اپنے ارادے پہ قائم تھے۔
                                             ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja