Episode 61 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 61 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

وہاب کے درشت تیور اور دھمکانے والا انداز دیکھ کر بوا اور زرینہ سچ مچ سہمی ہوئی تھیں۔ ”مجھے ہر حال میں ذیان کا پتہ چاہیے خالہ اور یہ مت کہنا کہ مجھے نہیں معلوم۔“ اس کے تاثرات بہت سفاک اور سرد تھے۔ ”وہاب میاں ہمیں نہیں معلوم۔“ بوا نے کمزور سے لہجے میں ایک بار پھر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو وہاب غصے سے گھورتا ان کے پاس آرکا۔ بڑھیا تم تو خالہ کے ہر راز میں شریک ہو۔
تم مجھے بتاؤ گی کہ ذیان کہاں ہے، کہاں چھپایا ہے تم نے اسے بولو۔“ وہاب کا لہجہ بدتمیزی اور سفاکی کو چھو رہا تھا۔ ”وہاب بوا کے ساتھ بدتمیزی مت کرنا چھوڑ دو انہیں۔“ زرینہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ بوا کے ساتھ اس کا لب ولہجہ بہت نامناسب تھا۔
”تو خالہ تم تمیز سے بتا دو کہ کہاں ہے ذیان؟“ وہ طنزیہ انداز میں بولتا ان کے قریب چلا آیا۔

(جاری ہے)

”ذیان اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے پاس ہے۔“ دل کڑا کرکے انہیں یہ سچ بولنا ہی پڑا ورنہ وہاب سے کچھ بعید نہیں تھا۔“ کیسے گئی وہ اپنی ماں کے پاس، یہ ایکدم سے اس کی ماں کہاں سے ٹپک پڑی۔ پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی۔“ اس کی ماں ٹپکی نہیں ہے پہلے سے تھی اور اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی۔“ زرینہ بیگم نے بڑی مشکل سے خون کے گھونٹ پی کر وہاب کا یہ انداز برداشت کیا تھا۔
جب اس کی ماں آئی تو مجھے کیوں نہیں بتایا کیوں جانے دیا اسے۔ پتہ نہیں تھا کہ وہ میری ہونے والی بیوی ہے۔ اور اس کی ماں کیوں لینے آئی اسے۔ خالو کی وفات کا کس نے بتایا اسے؟“
وہاب کے اعصاب غصے سے تن رہے تھے۔ ”میں نے بتایا اسے اور ذیان کی ماں کو میں نہیں روک سکتی تھی وہ اس کی ماں ہے۔“ ”خالہ بڑے خدمت خلق کے شوق چڑھے ہیں تمہیں۔
ذیان کو ساری عمر تم نے خون کے آنسو رلایا چین سے ٹکنے نہیں دیا اور اب اچانک انسانیت جاگ پڑی۔ پہلے تو ہمیشہ اسے ماں کے طعنے دیتی رہی کہ تمہاری ماں ایسی، تمہاری ماں ویسی۔“ وہاب طنزیہ انداز میں ماضی کا آئینہ زرینہ بیگم کو دکھایا تو وہ نظر چرا آئیں۔“ یہ میرا اور ذیان کا معاملہ تھا تم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہو۔“ اندر سے خود کو مضبوط کرتے ہوئے زرینہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
”میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ خالہ بتاؤں گا آپ کو، پہلے ذیان سے نمٹ لوں۔“ وہ عجیب سے لہجہ میں بولا۔ ”کیا کرو گے تم؟“ ”ذیان میری ہونے والی بیوی ہے سب سے پہلے جا کر اسے واپس لانا ہے مجھے ایڈریس چاہیے۔“ ”ہمیں ایڈریس نہیں معلوم۔ ذیان کا سوتیلا باپ خود اسے لینے آیا تھا۔“ زرینہ کا لہجہ کافی مضبوط تھا۔ ”خالہ مجھے ایڈریس چاہیے ورنہ میں کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
پورے گھر کو آگ لگا دوں گا۔“ وہ زرینہ کے قریب جا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا۔ زرینہ بیگم کو معلوم تھا کہ وہاب جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔ ”ذیان کی ماں کوئی معمولی عورت نہیں ہے۔ نہ اس کا سوتیلا باپ گرا پڑا ہے۔ جاگیردار ہیں وہ۔“ زرینہ نے اپنے تئیں اسے متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ”ہا ہا ہا ہا۔“ وہاب نے بے ڈھنگا قہقہہ لگایا۔
”خالہ تمہیں تو ذیان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔“ ”ہاں پتہ ہے۔“ اور اس بھول میں مت رہنا کہ تم وہاں تک پہنچ کر ذیان کو واپس لا سکو گے۔“ ”خالہ میرا نام وہاب ہے اور ذیان میری ہونے والی بیوی ہے۔ اسے کیسے اور کس طرح واپس لانا ہے یہ میرا کام ہے بس مجھے وہاں کا پتہ دو۔“
”وہاب میاں، چھوٹی دلہن کو کچھ نہیں معلوم۔“ بوا، زرینہ بیگم کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
”تو پھر کسے معلوم ہے۔یہ معلوم ہے کہ ذیان کی ماں کوئی معمولی عورت نہیں ہے اس کا باپ جاگیردار ہے بس پتہ نہیں معلوم۔“ وہ خوفناک طنزیہ ہنسی ہنس رہا تھا۔ زرینہ اور بوا دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہاب ٹلنے والا نہیں تھا، اس نے ایڈریس لے کر ان دونوں کو چھوڑا۔
”خالہ ابھی بہت سے حساب آپ کی طرف باقی ہیں۔ لیکن پہلے ذیان والا معاملہ سیٹ کرلوں۔
وہ اب قدرے پرسکون نظر آرہا تھا۔ ”خالہ آپ کے اس گھر کی موجودہ مالیت کتنی ہوگی؟“
اس نے اچانک سوال کیا تو زرینہ چونک گئی۔ ”مجھے کیا پتہ ہے؟“ وہ تیکھے لہجے میں بولیں۔
”خالہ اگر اس کو آپ فروخت کردیں تو اچھی قیمت پہ بک جائے گا۔“ ”مجھے اپنا گھر نہیں فروخت کرنا یہ میرے بچوں کا ہے۔ آسرا ہے ہمارا۔“ ٹھیک ہے خالہ آپ اس پہ سوچ لینا۔
میں جارہا ہوں پھر ملاقات ہوگی۔“ وہ گیٹ سے باہر نکلا تو زرینہ نے خود دروازہ لاک کیا۔ شکر ہے کہ تینوں بچے سکول میں تھے ورنہ وہاب کا یہ انداز و تیور دیکھ کر سہم جاتے۔
”بوا اب کیا ہوگا؟ وہاب مردود کی نظر تو اب اس گھر پہ ہے۔“ زرینہ کو اب گھر کی فکر لگ گئی تھی۔“ میں تو کہتی ہوں کہ خاموشی سے یہاں سے نکل چلیں تاکہ وہاب میاں سے جان ہی چھوٹ جائے۔
“ بوا نے مشورہ دیا۔ ”بوا گھر چھوڑ کر جائیں گے تو وہاب کا کام آسان ہوجائے گا۔ وہ اس گھر پہ قبضہ کرلے گا۔“ زرینہ بہت فکر مند تھیں۔ ”چھوٹی دلہن میری مانیں تو اس گھر کو فروخت کردیں۔ ورنہ وہاب میاں آپ کو گھر سے بھی محروم کردیں گے۔“ ”بوا آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ اس کا شک تو مجھے پہلے سے تھا کیونکہ روبینہ آپا بھی بہانے بہانے سے بہت بار مجھے اپنے گھر رہنے کے لیے کہہ چکی ہیں۔
لیکن کیا کروں میں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔‘میں اکیلی عورت کہاں اس گھر کے لیے گاہک ڈھونڈوں گی۔“
”آپ امیر میاں کے وکیل سے بات کریں انہیں اپنی پریشانی بتائیں۔ وکیل صاحب بھلے مانس آدمی لگتے ہیں مجھے۔“ ”بوا یہ بات آپ نے اچھی کہی ہے۔ میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ مجھے بیگ صاحب سے رابطہ کرنا چاہیے۔“ زرینہ کے لہجہ میں ایک دم امید جاگی۔
”میں ابھی بیگ صاحب سے بات کرتی ہوں۔“زرینہ نے سیل فون اٹھا کر وکیل کا نمبر ملانا شروع کردیا۔
###
ذیان تکیے میں منہ چھپائے خوب اونچی اونچی آواز میں رو رہی تھی۔ تکیے نے اس کا بھرم رکھ لیا تھا ورنہ اس کی آواز سب کو متوجہ کرچکی ہوتی۔ کمرے میں لگا میوزک سسٹم آن تھا۔ جانے کیوں آج اسے اتنا زیادہ رونا آرہا تھا۔ امیر علی کی وفات کے بعد آج وہ پہلی بار اتنا زیادہ رو رہی تھی۔
کوئی ٹھیس تھی یا پچھتاوا جس کی وجہ سے دل درد کا ٹکڑا بنا ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
عین جس لمحے وہ رو رہی تھی اس وقت ملک ابیک، عتیرہ سے اسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ وہ کوئی ضروری بات کرنے آیا تھا۔ عتیرہ نے بخوشی اسے ذیان کے کمرے میں جانے کی اجازت دی تھی۔ ابیک نے بات ہی ایسی کی تھی وہ خود اب امید و بیم کی حالت میں تھیں۔
ذیان کو ایسے محسوس ہوا جیسے دروازے پہ دستک ہو رہی ہے۔
اس نے تکیے سے منہ باہر نکالا۔ واقعی سچ مچ دستک ہو رہی تھی یہ اس کا وہم نہیں تھا۔ اس نے بیدردی سے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں اور دروازہ کھول کر دیکھے بغیر باتھ روم میں گھس گئی۔اسے نہیں معلوم کہ کون آیا تھا۔واش بیسن کا نل کھول کر اس نے لگا تار ٹھنڈے پانی کے چھپاکے ہاتھ بھر بھر منہ پہ مارے۔ باتھ روم کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا ذیان کے دوپٹے کی ہلکی سی جھلک ابیک کو نظر آئی۔ کمرے میں اُداس آواز بکھری ہوئی تھی جیسے پوری فضا سوگ منا رہی ہو۔
Leave The Winter On The Ground
I Wake Up Lonely!
 There's air of Silence in The Bedroom 
And All Around
Touch Me Now, I Close My Eyes
And Dream Away
It Must Have Been Love, But Its over Now
It Must Have Been Good But It i Lost It SomeHow
IT Must Have Been Love, But Its
Over Now-------

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja