Episode 7 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 7 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

فون مسلسل دھیمے سروں میں گنگنا رہا تھا۔
احمد سیال نے سامنے ساگوان کی ٹیبل پہ پڑا موبائل فون آن کر کے کان سے لگایا۔ ”ہیلو“ وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے تو دوسری طرف سے والہانہ انداز میں سلام کا جواب ملا۔یہ ملک جہانگیر تھے انکے گہرے اور بے تکلف دوست۔ تین سال سے دونوں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن وقتاً فوقتاً فون پہ رابطہ رہا کرتا”اوہ تو آپ ہیں ملک صاحب“ وہ مسکرا رہے تھے۔
”جی یہ میں ہی ہوں احمد سیال“ جواباً وہ بھی بے تکلفی سے گویا ہوئے۔ ”تم نے تو نہ ملنے کی قسم کھا رکھی ہے میں نے سوچا خود فون کر کے تمہاری خیریت پوچھ لوں“ ”ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے بزنس کے سلسلے میں کبھی یہاں کبھی وہاں ہوتا ہوں پاکستان سے باہر آنا جانا لگا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

کاروباری بکھیڑوں میں ایسا پھنسا ہوں کہ میری اکلوتی بیٹی بھی شکایت پہ اتر آئی ہے۔

بہت دل چاہتا ہے پرانے دوستوں کے ساتھ محفل جماؤں لیکن یہ وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے“ احمد سیال کے لہجے میں شرمندگی بے بسی نمایاں تھی۔ ملک جہانگیر نے مزیدشکوے شکایتوں کا ارادہ ملتوی کردیا”ہماری بیٹی کیسی ہے اب؟“ ”اوہ ہاں رنم بالکل ٹھیک ہے“ ”اب تو کافی بڑی ہوگئی ہوگی“ ملک جہانگیر نے آٹھ نو سال پہلے رنم کو دیکھا تھا جب وہ مری میں زیر تعلیم تھی اور چھٹیوں پہ گھر آئی ہوئی تھی۔
”ہاں اب تو یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے بی ایس آنرز کر رہی ہے۔“
رنم کا ذکر کرتے ہوئے احمد سیال کے لہجے میں خود بہ خود ہی فخر سا در آیا تھا جیسے انہیں رنم کا باپ ہونے پہ غرور ہو۔
”میں اس وقت اسلام آباد میں ہوں۔ ابیک چیک اپ کروانے لایا ہے سوچا تمہیں فون کر کے حال احوال پوچھ لوں“ ”تم اسلام آباد میں ہو؟میں آفس سے نکل رہا ہوں سیدھے میرے گھر آؤ۔
مل بیٹھیں گے اکٹھے لنچ کریں گے۔ پرانی یادیں تازہ کریں گے“احمد سیال فوراً پرجوش ہوئے۔ ملک جہانگیر نے دو گھنٹے بعد آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔
ابیک انہیں چیک اپ کروانے کے بعد گھر چھوڑ کر ابھی ابھی ضروری کام کا بول کر نکلا تھا تبھی تو ملک جہانگیر نے احمد سیال کو دو گھنٹے بعد کا ٹائم دیا۔
کافی دیر گزر چکی تھی انہوں نے ابیک کو فون کر کے واپسی کا پوچھا اس نے کہا ابھی مجھے ٹائم لگے گا۔
کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے ڈرائیور کے ساتھ احمد سیال کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے”تم مجھے کچھ کمزور نظر آرہے ہو!“ احمد سیال انہیں تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جواباً وہ مسکرائے۔ دمے کی بیماری بھی لگ گئی ہے مجھے دل کا مریض تو پہلے سے ہوں۔ساتھ دیکھنے میں بھی دشواری پیش آنے لگی ہے۔ لیکن اب بیماریوں میں کیا رکھا ہے۔
میں آج بھی پہلے کی طرح باہمت اور حوصلہ مند ہوں۔“ملک جہانگیر شگفتگی سے مسکرائے تو احمد سیال نے تعریفی انداز میں انکے شانے پہ تھپکی دی”تمہاری ہمت اور حوصلہ قائم رہے جہانگیر“ احمد سیال نے دل سے دعا دی۔ دونوں باتیں کرتے کرتے ڈرائینگ روم میں آئے۔ آفس سے اٹھنے سے پہلے ہی گھر فون کر کے احمد سیال نے ملک جہانگیر کی آمد کا بتا دیا تھا یہی وجہ تھی جب وہ ڈائیننگ ہال میں پہنچے تو ایک پرتکلف کھانا ان کا منتظر تھا۔
رنم ابھی تک یونیورسٹی سے نہیں لوٹی تھی۔احمد سیال کے ساتھ ساتھ ملک جہانگیر بھی اس کی آمد کے منتظر تھے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔
                                    ###
رنم حسب عادت تیزی سے گاڑی دوڑا رہی تھی۔
گھر پہنچنے پہ کار پورچ میں اسے پپا کی گاڑی نظر آئی ساتھ ایک اجنبی گاڑی بھی تھی جو کم از کم اس نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔
وہ الجھ سی گئی کیونکہ پپا اس وقت شاذو نادر ہی گھر میں پائے جاتے۔ چھٹی کا پورا دن وہ گھر گزارتے وگرنہ یہ امر محال تھا۔ گاڑی روک کر وہ نیچے اتری تو سامنے رمضان جاتا نظر آیا رنم نے آواز دے کر روک لیا۔ وہ اسکے پاس مودبانہ انداز میں کھڑا اسکے سوالوں کا جواب دینے لگا۔ ”صاحب جی کے دوست آئے ہیں۔ وہ آپ کا دو تین بار پوچھ چکے ہیں“ ”اچھا جاؤ تم“ وہ پر سوچ انداز میں چلتی اسی طرف آئی جس طرف رمضان نے مہمان کی موجودگی کی نشان دہی کی تھی۔
احمد سیال اور ملک جہانگیر اپنی باتوں میں مصروف تھے رنم کو سلام کرنے پہ چونکے اور متوجہ ہوئے۔ رنم اپنی بانہیں احمد سیال کے گلے میں حمائل کئے حال احوال پوچھ رہی تھی۔ ”میں ٹھیک ہوں بیٹا ان سے ملو یہ ہیں میرے دوست ملک جہانگیر۔ بہت بڑے گاؤں کے مالک ہیں لیکن روایتی چودھریوں زمین داروں سے بالکل مختلف ہیں۔“ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سمیت احمد سیال آنے والے مہمان کا تعارف کروا رہے تھے۔
رنم نے رسمی انداز میں ان کی خیریت دریافت کی جواباً انہوں نے خلوص سے ”جیتی رہو“ دعا دی۔
رنم اسکے بعد وہاں رکی نہیں اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔
رنم کے جانے کے بعد دونوں دوست پھر سے باتوں میں لگ گئے۔ ملک جہانگیر کو رنم بہت اچھی لگی تھی۔ جوان ہونے کے بعد اس نے خوب رنگ روپ نکالا تھا۔ انہوں نے آج اسے کافی عرصے بعد دیکھا تو ذہن میں موجود سوچوں نے کچھ کچھ عملی صورت اختیار کرلی۔
انکے چہرے پہ موجود خوشی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
                                        ###
ملک جہانگیر نے گاؤں واپس جانے کی تیاری کرلی تھی۔ حالانکہ ابیک نے کتنا اصرار کیا کہ رات ادھر ہی رک جائیں پر وہ نہیں مانے۔ گاؤں سے باہر وہ زیادہ دیر رہ ہی نہیں سکتے تھے انکے لئے جائے پناہ ان کا گاؤں اور گھر تھا۔ وہ وہاں سچی خوشی اور سکون محسوس کرتے۔
”ملک محل“ انکے لئے خوابوں کی جنت تھا۔ اس جنت کی شان بڑھانے کے لئے انہوں نے ملک ابیک اور ملک معاذ کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔
ابیک تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سنبھال چکا تھا۔جبکہ معاذ کی تعلیم مکمل ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔معاذ ابیک کے مقابلے میں شوخ لاپرواہ اور زندگی سے ہر پل خوشی کشید کرنے کا قائل تھا یہی وجہ تھی کہ انہیں معاذ کے لئے رنم بالکل مناسب لگی تھی۔
ابھی تو وہ شادی کے نام سے دامن بچاتا تھا مگر پورا یقین تھا رنم کو دیکھنے اور ملنے کے بعد وہ ان کی بات ٹالے گا نہیں۔
دوسری طرف وہ ملک ابیک کی بھی شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ بات بہت عرصے سے انکے دل میں تھی۔ ابیک ان کا لاڈلا فرمانبردار سعادت مند بیٹا تھا۔ انہیں اسکے لئے ہیراصفت لڑکی کی تلاش تھی مگر ابھی تک وہ مل نہیں پائی تھی۔اگر وہ معاذ یا ابیک کے لئے رنم کا رشتہ طلب کرتے تو احمد سیال نے انکار نہیں کرنا تھا۔
ان کی دوستی پرانی تھی۔ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب ان کا رابطہ احمد سیال سے بالکل ختم ہوگیا کیونکہ وہ اپنے کاروباری بکھیڑوں میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔
مگر اس مصروفیت کے باوجود ان کی دوستی اور گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ نہ یہ مصروفیت دلوں میں بسی محبت کم کر پائی تھی۔ اتنے عرصے بعد دونوں کی ملاقات ہوئی تو ملک جہانگیر کو مایوسی نہیں ہوئی۔
آج وہ بے پناہ خوش تھے۔
                                  ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja