Episode 13 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 13 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم دو دن سے کومل کی طرف تھی وہ دونوں کمبائن اسٹڈی کر رہی تھیں۔ اشعر اور فراز بھی روز کچھ گھنٹوں کے لئے کومل کی طرف آجاتے تاکہ پڑھائی میں ان کی مدد کرسکیں۔ فراز خاص طور پہ اس سلسلے میں بہت مخلص تھا اپنے محنت سے بنائے گئے نوٹس تک انکے حوالے کردئیے تھے۔
رنم پہ احمد سیال نے کہیں آنے جانے پہ کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک وہ اپنے فیصلے خود کرتی آئی تھی۔
وہ کسی بھی معاملے میں انکے سامنے جوابدہ نہیں تھی انہوں نے اسے ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی ساتھ دنیا جہان کی ہر نعمت اسکے قدموں میں ڈھیر کردی تھی۔ کتری احمد سیال کی محبوب بیوی اور رنم اس بیوی کی محبوب ترین نشانی تھی۔ کتری سے ان کی شادی زور دار لو افیئر کے بعد ہوئی۔ اسے پا کر وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرتے تھے۔

(جاری ہے)

پر ان کی یہ خوش قسمتی زیادہ عرصہ انکے ساتھ نہیں رہ پائی۔

کتری، رنم کو جنم دینے کے صرف چار سال بعد کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد چل بسی۔ انہوں نے بیوی کے علاج پہ پانی کی طرح پیسہ بہایا اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا علاج کی خاطر ملک سے باہر تک لے گئے مگر اسے یعنی کتری کو موت کے منہ سے واپس نہ لاسکے۔ اس کی زندگی ہی مختصر تھی۔ وہ ان کا ساتھ چھوڑ کر ابدی سفر پہ روانہ ہوگئی۔ رنم چار سال کی بھولی بھالی بچی تھی اسے دیکھ بھال کے لئے عورت کی ضرورت تھی۔
یہ ضرورت ایک گورنس اور آیا کے ذریعے پوری ہوگئی۔ رنم انہی کے زیر سایہ عمر کے مدارج طے کرتی گئی۔ احمد سیال کو لوگوں نے شادی کے لئے اکسایا پر وہ جی جان سے بیٹی کی پرورش و تربیت میں مصروف رہے۔
رنم ددھیالی رشتوں کے معاملے میں خاصی بد نصیب واقع ہوئی تھی۔ کیونکہ اسکے پاپا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے وہ بھی عرصہ ہوا فوت ہوچکے تھے۔
رنم اپنے دادا کی دادی کی وفات کے بعد دنیا میں آئی۔
ہاں ننھیال میں اس کی ایک خالہ تھیں جو شادی کر کے کینیڈا میں جا بسی تھیں ان سے فون پہ ہی رابطہ ہوتا وہ بھی کم کم۔
احمد سیال کاروباری بکھیڑوں اور کامیابیوں میں ایسے مصروف ہوئے کہ پھر مڑ کر کسی چیز کی طرف نہ دیکھا۔ دوستوں، ملنے جلنے والوں نے دوسری شادی کے لئے بہت اکسایا، لڑکیاں دکھائیں آنے والے وقت سے ڈرایا پر وہ اپنے ارادے سے ایک انچ نہ سرکے۔
جسمانی اور جذباتی تقاضے کتری کے ساتھ ہی مرگئے تھے۔ اب تو رنم جوان ہوگئی تھی، انکے لئے وہی سب کچھ تھی۔
رنم کو انہوں نے ہر قسم کی آسائش اور آزادی دے رکھی تھی۔ اسکے حلقہٴ احباب میں لڑکے لڑکیاں دونوں تھے ویسے بھی اس کا تعلق معاشرے کی جس کلاس سے تھا وہاں یہ سب برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ رنم پارٹیز میں اور کلب جاتی سوئمنگ کرتی اپنے گھر میں دوستوں کو انوائیٹ کر کے ہلا گلا کرتی۔
احمد سیال اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے انہوں نے کومل کے گھر کمبائن اسٹڈی کرنے کی اجازت بخوشی دی تھی۔
پچھلی بار سب دوستوں نے رنم سیال کے گھر رہ کر اگزام کی تیاری کی تھی۔ اس بار کومل کی باری تھی۔
                                  ###
راعنہ گروپ کو جوائن ہی نہیں کر پا رہی تھی فراز اور اشعر روز شام کو کچھ گھنٹے کے لئے آجاتے۔ انکے جانے کے بعد کومل اور رنم پھر سے پڑھائی سٹارٹ کرتیں پر راعنہ نہیں آتی تھی۔

کومل تو صاف کہتی کہ راعنہ کو اپنے شادی کے خیالوں سے فرصت ملے تو وہ پڑھائی کی بھی فکر کرے۔ وہ آجکل سب دوستوں کی شرارتوں اور چھیڑ کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ وہ تو مزے لے کر انجوائے کر رہی تھی۔ انہیں کمبائن اسٹڈی کرتے ہوئے چھٹا دن تھا جب ان محترمہ کی شکل نظر آئی۔
کومل اور رنم نے اسکے وہ لتے لئے کہ توبہ ہی بھلی۔ اس نے کوئی احتجاج کئے بغیر کتابیں کھولیں۔
فراز اور اشعر اس کی درگت پہ مسکرانے لگے کومل نے گھور کر اشعر کی طرف دیکھا تو وہ وہیں ہونٹ سکیوڑ کر سعادت مند بچہ بن گیا۔ پر فراز اپنے مخصوص انداز میں مسکراتا رہا۔
راعنہ سنجیدہ بی بی بنی پڑھتی رہی۔ پھر کومل نے بھی حیرت انگیز شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ کچھ نہیں کہا۔ رات گیاہ بجے کے قریب راعنہ کے ہونے والے شوہر شہریار کی کال آئی تو وہ اپنا سیل فون لے کر کمرے کے کونے میں آگئی۔
وہ کافی آہستہ آواز میں بول رہی تھی۔ ”کیا کر رہی ہو؟“ شہریار نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ ”میں فرینڈز کے ساتھ مل کر اگزام کی تیاری کر رہی ہوں“ ”اب سوجاؤ صبح اٹھ کر پڑھ لینا اپنی صحت کا خیال رکھا کرو۔ اسی مہینے ہماری شادی ہے“ اس نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا تو راعنہ نے چور نگاہوں سے ان سب کی طرف دیکھا۔ وہ سب بھی اسی کو دیکھ رہے تھے۔
راعنہ نے شہریار کو خدا حافظ بول کر فوراً فون بند کردیا۔
”میں سونے لگی ہوں“ اس نے کتابیں سمیٹ کر ٹیبل پہ رکھ دیں“ ہاں ہاں اب تمہیں پڑھائی کی کیوں فکر ہوگی۔ آپ کے شہریار صاحب نے کہا ہوگا کہ جلد سوجایا کرو تاکہ شادی والے دن خوبصورت ترین نظر آؤ۔“ کومل کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ راعنہ جھینپ سی گئی۔ رنم نے بڑی دلچسپی سے راعنہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ رنگ ہی رنگ بکھرے محسوس ہو رہے تھے۔ اس حال میں وہ اور بھی دلکش نظر آرہی تھی۔
ویسے بھی رنم اور کومل کی نسبت وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کافی حد تک مشرقیت اس میں موجود تھی۔ جس کا اظہار ابھی بھی اسکے روئیے سے ہو رہا تھا۔
فراز صرف اس بات کی وجہ سے راعنہ کو بہت سراہتا اور وہ پھول کر کپا ہوجاتی”میں کل گھر جاؤں گی پپا سے ملنے ہوسکتا ہے واپس نہ آؤں“ رنم نے بھی کتابیں سائیڈ پہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔ ”ہوں“ پاپاز چائلڈ“ پتہ نہیں شادی کے بعد کیا بنے گا تمہارا“ کومل نے گہری فکر مندی سے اسے دیکھا تو جواباً ہاتھ میں پکڑا کشن رنم نے اس پہ اچھالا۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja