Episode 28 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 28 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال کھانا کھا رہے تھے رنم انہیں راعنہ کی شادی کی روداد سنا رہی تھی۔ ”پپا راعنہ کے ان لازنے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی ہے اور نہ کوئی جہیز لیں گے وہ لوگ۔“ ”اچھا۔“ احمد سیال کو سن کر حیرانی نہیں ہوئی وہ نارمل موڈ میں تھے۔ رنم کا چہرہ بجھ سا گیا۔ اس نے اپنے تئیں زبردست عجیب و غریب شاکڈ کرنے والی بات بتائی تھی لیکن پپا نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا۔
”تم کب تک فری ہوگی؟“ احمد سیال نے کھانا کھاتے کھاتے سوال کیا۔ ”کیوں پپا؟“ ”تم راعنہ کی شادی کی مصروفیت سے فری ہوجاؤ تو انفارم کرنا۔“ وہ مبہم سے انداز میں بولے۔ ”کیوں پپا؟“ اس نے پھر سوال کیا۔ ”میں نے تمہیں بتایا تو تھا میرے دوست جہانگیر ملک نے تمہارے لئے اپنے بیٹے کا پروپوزل دیا ہے۔ تمہارے اگزام کے دوران وہ آیا تھا۔

(جاری ہے)

“ ”ہاں مجھے یاد آرہا ہے آپ نے ذکر کیا تھا۔

“ اس نے بھی احمد سیال کے انداز میں کہا۔
”میں ملک جہانگیر کی فیملی کو بلواتا ہوں کسی دن۔ تم بھی مل لو۔“وہ نپکین سے ہاتھ صاف کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔
رنم نے ان کی بات کا جواب نہیں دیا تو انہوں نے سیدھے اسٹڈی روم کا رخ کیا۔ رنم ادھر ہی بیٹھی دل ہی دل میں پپا سے خفا ہو رہی تھی۔پر ابھی اس کے پاس لمبی چوڑی ناراضگی دکھانے کا ٹائم نہیں تھا کیونکہ کل راعنہ اور شہریار کا ولیمہ تھا، اسے تیاری بھی کرنی تھی۔
اس موضوع پہ پپا سے بعد میں بھی بات کی جاسکتی تھی۔
ولیمے پہ شہریار نے بہت زیادہ مہمانوں کو انوائیٹ نہیں کیا تھا۔ راعنہ کی فیملی اور ان دونوں کے مشترکہ رشتہ دار اور کچھ دوست احباب تھے۔ کھانے میں چار ڈشز تھیں، راعنہ کے ولیمے کا جوڑا بہت نفیس پر زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ بے پناہ خوش نظر آرہی تھی۔راعنہ کے گھر والے بھی مسرور تھے۔
شہریار کے کسی بھی عمل پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ راعنہ کے پپا بے پناہ خوش تھے کہ انہیں شہریار کی صورت میں اپنی بیٹی کے لئے خود دار غیرت مند شوہر ملا ہے۔
وہ سب دوست راعنہ اور شہریار کا گھر دیکھنے بھی گئے۔یہ گھر کسی پوش علاقے میں نہیں تھا پر صاف ستھری کالونی میں تھا۔ چھوٹا سا مناسب اور موزوں فرنیچر سے آراستہ تین کمروں کا گھر راعنہ اور شہریار کی محبت کے وجود سے سج گیا تھا۔
رنم حیرانی سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔ شہریار کے پاس سیکنڈ ہینڈ گاڑی تھی راعنہ کو شہریار کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ذرہ بھر احساس کمتری نہیں تھا۔ ”میری یہ لائف پپا کے گھر کی لائف سے بالکل ڈفرنٹ ہے۔“ انہیں کھانے پینے کی سب چیزیں خود سرو کرتے ہوئے راعنہ خوشی سے بتا رہی تھی۔ ”تم یہاں آرام سے رہ لو گی؟“ رنم نے نگاہیں اس کے چہرے پہ ٹکا دیں۔
”میں یہاں رہتے ہوئے بہت کمفرٹیبل فیل کررہی ہوں۔ پپا مجھے اور شہریار کو بہت کچھ دینا چاہ رہے تھے مگر شہریار عام مردوں کی طرح لالچی نہیں ہیں۔ ورنہ ہمارے طبقے میں اکثر شادیاں بزنس ڈیل ہوتی ہیں۔پر ہماری شادی بزنس ڈیل نہیں ہے رئیل شادی ہے۔“وہ مسکراتے ہوئے تحمل سے رنم کو جواب دے رہی تھی۔
 ”تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہمارے سوشل سرکل میں شادی بزنس ڈیل ہی ہوتی ہے۔
“اس نے تائید کی۔ تمہارے لئے بھی تو ایک جاگیردار فیملی سے رشتہ آیا ہے۔ بہت اونچا ہاتھ مارا ہے تم نے۔“کومل کو یاد آیا۔ رنم کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ ”میری شادی پپا میری مرضی سے کریں گے۔“وہ غصے سے بولی۔پتہ نہیں کومل کے عام سے جملے پہ وہ کیوں ہائپر ہوگئی تھی۔ ”ہاں تمہارے پپا تمہاری شادی اپنی مرضی سے اپنے کسی دوست کے بیٹے سے کریں گے۔جو ان کی طرح بزنس مین ہوگا بہت امیر۔
“کومل اسے تنگ کر رہی تھی۔ رنم ناراض ہو کر وہاں سے اٹھ گئی۔
رنم،احمد سیال کے پاس بیٹھی پورے ایک گھنٹے سے مسلسل بول رہی تھی۔ ”پپا راعنہ کے ہزبینڈ نے کچھ نہیں لیا ہے نہ جہیز، نہ گاڑی نہ بنگلہ نہ بنک بیلنس۔ شہریار بھائی نے خود راعنہ کے لئے شادی کا جوڑا اور جیولری خریدی۔ وہ شہریار بھائی کے لائے ہوئے جوڑے میں ہی اپنے پپا کے گھر سے رخصت ہوئی۔
“پپا میں بہت حیران ہوں پر یہ سب مجھے بہت اچھا لگا۔
”Papa I Cant Even Think That A person Who Happy With His Own Earnings And He Is Even Not Ready To Take Anyones Help
حیرانی اور بے یقینی اس کے ہر انداز سے عیاں تھی۔
”Yes There Are Such Type of Peoples“
احمد سیال اس کی حیرانی سی پھیلی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے مسکرائے۔ ”آپ خود سوچیں پاپا۔ شہریار بھائی کی جگہ کوئی اور ہوتا تو لینے سے انکار نہ کرتا کیونکہ اتنا کچھ ایک ساتھ مل رہا تھا۔
پر شہریار بھائی نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ ہے راعنہ کو اسی میں گزارا کرنا پڑے گا۔ میں آہستہ آہستہ محنت کر کے سب بناؤں گا۔ اپنے سسرال سے مدد نہیں لوں گا۔“ وہ نئے سرے سے انہیں بتا رہی تھی۔ جب سے راعنہ کی شادی ہوئی تھی یہ اس کا پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔ احمد سیال اس کی باتیں سنتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔ ”راعنہ کا شوہر خود دار اور سیلف میڈ ہے اسے اپنے زور بازو پہ بھروسہ ہوگا تب ہی اس نے کسی قسم کی ہیلپ نہیں لی ہے۔
“احمد سیال نے تبصرہ کیا۔ ”اور ہاں وہ جہانگیر کے گھر والے آنا چاہ رہے ہیں تمہیں دیکھنے۔“انہیں اچانک یاد آیا۔ ”پپا میری خواہش ہے میری شادی جس شخص کے ساتھ ہو وہ شہریاربھائی کی طرح خود دار ہو۔ کسی قسم کی ہیلپ نہ لے۔سب کچھ اپنی محنت سے بنائے۔“رنم اپنی دھن میں بول رہی تھی۔ اس نے احمد سیال کی بات سنی ہی نہیں۔
”میں اتنی زیادہ دولت، جائیداد کا کیا کروں گا رنم، اگر تم کچھ لئے بغیر میرے گھر سے رخصت ہوجاؤ۔
“ احمد سیال کو اپنی لاڈلی کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ ”پپا آپ جہاں میری شادی کریں گے کیا ان کے پاس، گھر دولت، جائیداد یہ سب کچھ نہیں ہوگا؟“وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔ میری جان بے شک سب کچھ ہوگا لیکن میں اپنی اکلوتی اولاد کو کسی بھی چیز سے محروم نہیں کرسکتا۔میں تمہاری شادی دھوم دھام سے کروں گا۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے۔ میں تمہیں اس گھر سے خالی ہاتھ رخصت نہیں کروں گا ایسا جہیز دوں گا کہ دنیا دیکھے گی اور تمہاری شادی ہمارے سوشل سرکل کی شاندار اور یادگار شادی ہوگی۔
“ احمد سیال باتوں باتوں میں بہت دور نکل گئے تھے۔ ”مجھے کچھ نہیں چاہیے پپا مجھے شہریار بھائی جیسا لائف پارٹنر چاہیے بس۔“ وہ جھنجھلا سی گئی۔ ”تمہاری سوچ بچوں والی ہے۔“وہ مسکرائے۔
احمد سیال اُسے بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کر رہے تھے۔ ”پپا میں سیریس ہوں۔“وہ اپنی بات پہ زور دے کر بولی۔ ”اینی وے میں ملک جہانگیر کے گھر والوں کو انوائیٹ کروں گا تم ان کے بیٹے کو دیکھ لینا مل لینا۔
“احمد سیال نے اس کی بات کو اہمیت نہیں دی۔ رنم کو بے طرح غصہ آیا۔ ”میں کسی سے نہیں ملوں گی پپا۔“وہ دھم دھم کرتی وہاں سے چلی آئی۔ احمد سیال اس دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ نکل کر ابھی ابھی گئی تھی۔وہ اس کے غصے کا سبب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اچانک نہ جانے اسے کیا ہوگیا تھا۔جب سے وہ راعنہ کی شادی اٹینڈ کر کے آئی تھی تب سے اس کے پاس ایک ہی موضوع تھا کہ شہریار نے سسرال والوں سے اپنی کم حیثیتی کے باوجود کسی قسم کی مالی امداد قبول نہیں کی ہے۔ وہ اس پہ غور کر رہے تھے۔ رنم نے ملک جہانگیر کی فیملی سے ملاقات کرنے کی ضمن میں کسی قسم کی رضا مند ی نہیں دی تھی۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja