Episode 15 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 15 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

افتاداں و خیزاں روبینہ صبح وہاب کے آفس جانے کے بعد سیدھی زرینہ کے گھر آپہنچی۔ ٹیکسی کر کے آئی تھی پر سانس ایسے پھولا ہوا تھا جیسے میلوں دور سے دوڑتی آئی ہو۔ امیر علی دوا کھا کے سو رہے تھے ذیان اپنے کالج اور باقی سب بچے بھی اپنے اپنے سکولوں میں تھے۔ زرینہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی مشہور چینل پہ ساس بہو کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ روبینہ کو اس وقت اچانک اپنے گھر دیکھ کر حیران ہوگئی انہوں نے فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع بھی تو نہیں دی تھی۔
”کیسی ہیں باجی آپ؟ سب خیر ہے ناں؟“ زرینہ نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ روبینہ کے چہرے پہ بکھرے پریشانی کے رنگ بتا رہے تھے کہ سب خیر نہیں ہے کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔
”میں اس وقت کسی کے علم میں لائے بغیر تمہارے پاس آئی ہوں۔

(جاری ہے)

“ انہوں نے اضطراب کے عالم میں دونوں ہاتھ ملے۔ ”آپا بتائیں تو کیا بات ہے؟“ زرینہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

”وہاب، ذیان سے شادی کرنا چاہتا ہے…“ انہوں نے آرام سے الف تا یے سب واقعہ اسکے گوش گزار کردیا۔ ”یہ تو مجھے بھی پتہ ہے کہ ذیان سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ہی بلا وجہ یہاں کے چکر نہیں لگتے۔ پر مجھے کسی صورت بھی یہ پسند نہیں ہے۔ میں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اندھی، گونگی، بہری بنی رہتی ہوں۔ وہاب پاگل ہوچکا ہے مگر میں نے اسے کہا کچھ نہیں کیونکہ میری بہن کا بیٹا ہے۔
پر ذیان کے ساتھ اس کی شادی کی خواہش کسی صورت بھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ میں ساری عمر ہرگز ذیان کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ میں شادی کر کے اس گھر میں آئی تو پہلے دن سے ہی میرے شوہر نے مجھے اس کی اہمیت اور مقام بتایا۔ میں سلگتی کڑھتی رہی۔ امیر علی کو بیٹی بہت عزیز تھی نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ۔ اتنے برس کانٹوں پہ لوٹتے گزارے ہیں میں نے۔
اب وہاب کی وارفتگی مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہے وہ دیوانہ وار اسکے لئے میرے گھر کے چکر لگاتا ہے صرف ایک نظر اسے دیکھنے کی خاطر اور وہ مہارانی سیدھے منہ وہاب سے بات تک نہیں کرتی میرا خون کھول جاتا ہے پر وہاب کو اپنی عزت اور بے عزتی کا کوئی خیال تک نہیں ہے۔ وہ ذیان کے اس اہانت بھرے روئیے کو ادا تصور کرتا ہے۔ لیکن اسے یہ ہرگز نہیں پتہ کہ ذیان مجھ سے اسے اور مجھ سے وابستہ ہر شخص سے نفرت کرتی ہے۔
کیا آپا آپ ایسی لڑکی کو بہو بنانا پسند کریں گی جو آپ کے بیٹے کی شکل تک نہ دیکھنا چاہتی ہو۔“ زرینہ کے ایک ایک لفظ میں نفرت و بے زاری تھی۔ اس کا سوال سن کر روبینہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔ ”مجھے کیا پڑی ہے اسے بہو بنا کر اپنی زندگی خراب کروں ساتھ بیٹے کی بھی۔ مجھے یہ قیامت تک منظور نہیں ہے۔“ روبینہ آپا کے عزم سے زرینہ کے دل میں ٹھنڈک اتری۔
ورنہ اسے خوف تھا کہ شاید آپا وہاب کی ضد اور محبت سے مجبور ہو کر ذیان اور وہاب کے رشتے کی حمایت نہ کردیں۔
”ہاں آپا کیونکہ یہ رشتہ کسی طرح بھی آپکے حق میں مناسب نہیں ہے۔ ذیان مجھ سے بدلہ لینے کے لئے آپ اور وہاب کی زندگی کو اجیرن کردے گی۔“ زرینہ نے آپا کو اور ڈرایا۔ ”کچھ کرو زرینہ۔ وہاب تو پاگل ہو رہا ہے اس کلموہی ذیان کے پیچھے کہتا ہے اٹھوا لوں گا اسے۔
جب میں نے ڈرایا کہ امیر علی کبھی بھی ہمیں رشتہ نہیں دیں گے۔“
”آپا آپ کی یہ بات سچ ہے واقعی امیر علی ذیان کا رشتہ آپ کو نہیں دیں گے۔“
”ارے نہ دیں رشتہ مجھے اس حور پری کا رشتہ چاہیے بھی نہیں جس نے میرے بیٹے کو پاگل بنا رکھا ہے۔“ روبینہ نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ ”آپ اس مسئلے کا حل سوچنا پڑے گا ورنہ وہاب مایوسی کی صورت میں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔
“ ”جلدی کچھ سوچو زرینہ میرا وہاب تو پاگل ہو رہا ہے۔“ ”میں اس پہ غور کر رہی تھی آپ کے آنے سے پہلے…“ زرینہ کی آواز بہت دھیمی اور سرگوشیوں کی صورت میں تھی۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہ تھی۔
###
 ملک جہانگیر نے راتوں رات احمد سیال کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے بیگم افشاں سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
اب وہ صبح صبح گاڑی میں سامان رکھوا رہے تھے۔
موسمی پھلوں کے ٹوکرے، مٹھائی، خشک میوہ جات، دیگر چیزیں حتیٰ کہ گھر کے ملازموں کے کپڑے بھی اس سامان میں شامل تھے۔ وہ ابیک کے رشتے کی بات چھیڑ کر احمد سیال کے دل کو ٹٹولنا چاہ رہے تھے اس لئے اکیلے ہی اس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
چھٹی کا دن تھا احمد سیال گھر پہ ہی تھے۔
ملک جہانگیر کے ساتھ آئے ملازموں نے سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔
احمدسیال انکے استقبال کے لئے خود باہر آئے اور انہیں اندر لے کر گئے۔
ملک جہانگیر اپنے ہمراہ جو کچھ لائے تھے اس سے صاف ظاہر تھا کہ ان کا آنابے سبب نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ ورنہ نوکروں سمیت لدے پھندے آنا سوچنے پہ مجبور کر رہا تھا۔ ملک جہانگیر پہلے بھی انکے گھر آتے تھے اور گاؤں کی سوغات خاص طور پہ لاتے اور بھجواتے بھی تھے پر آج نوکروں کے ہمراہ اس طرح آنا معنی خیز تھا۔
چھٹی کے دن ان کی آمد نے اور خاص طور پہ انداز نے احمد سیال کو حیران کردیا تھا۔ وہ انہیں لے کر ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔ ملک جہانگیر نے خیر خیریت اور دیگر احوال معلوم کرنے کے بعد فوراً رنم کے بارے میں پوچھا۔ ”وہ اپنی ایک دوست کے گھر پہ ہے کچھ دن سے۔ سب دوست ملکر امتحان کی تیاری کر رہے ہیں وہاں“ احمد سیال نے جواب دیا۔ ”اچھی بات ہے ماشاء اللہ۔
رنم بیٹی دیکھتے ہی دیکھتے اتنی بڑی ہوگئی ہے۔“ ”ہاں بیٹیوں کو بڑا ہوتے کون سی دیر لگتی ہے۔“ احمدسیا ل مسکرائے۔ ”اور بیٹیوں کو بڑا ہونے کے بعد اپنے گھر بھی وداع کرنا پڑتا ہے۔“ ملک جہانگیر دھیرے سے بولے تو احمد سیال نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ تھوڑ ی دیر رک کر ملک جہانگیر پھر گویا ہوئے۔ ”میں تمہارے پاس اپنے بڑے بیٹے ملک ابیک کے رشتے کے سلسلے میں آیا ہوں۔
تم میرے گہرے دوست ہو ہم دونوں کے خاندان ہم پلہ ہیں۔ میں اس دوستی کو رشتہ داری میں بدلنا چاہتا ہوں۔ تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر۔“ ان کی بات پہ احمد سیال نے سکون کی سانس لی۔ ”میں خوش ہوں کہ تم اس مقصد کے لئے میرے گھر آئے ہو۔ مگر میں تمہیں کوئی امید نہیں دلا سکتا۔“ کیوں“ یکدم ہی ملک جہانگیر پریشان ہوگئے۔ ”میں نے اپنی بیٹی کو لاڈ پیار سے پالنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی آزادی بھی دے رکھی ہے۔
میں کسی بھی معاملے میں اس پہ اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ وہ باشعور ہے تعلیم یافتہ ہے اپنا اچھا برا خود سوچتی ہے اور اپنے فیصلے بھی شروع سے خود کرتی آئی ہے۔“ ملک جہانگیر کے چہرے پہ مایوسی کی لہر پھیلتی جارہی تھی جو احمد سیال کی نگاہ سے پوشیدہ نہ تھی۔ ”ابھی تو رنم کے اگزام کا چکر چل رہا ہے وہ فری ہولے تو میں اس کی رائے معلوم کروں گا۔
وہ مان جائے ملاقات کے لئے راضی ہوجائے تو میں تمہیں بتا دوں گا۔“ احمد سیال نے ممکن طور پہ ان کی دلجوئی کرنی چاہی۔ ساتھ ہی ملک ابیک کا بھرپور سراپا احمد سیال کے تصور میں آگیا۔ وہ نظر انداز کرنے کے قابل نہ تھا۔ لیکن یہاں معاملہ لاڈلی بیٹی کا تھا جس نے آج تک اپنی زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی خود کیا تھا وہ اسے مشورہ دے سکتے تھے پر اپنی بات ماننے پہ مجبور نہیں کرسکتے تھے۔
اس لئے انہوں نے ملک جہانگیر کو صاف آگاہ کردیا تھا کہ رنم کی مرضی ضروری ہے۔ ملک جہانگیر واپسی پہ پورے راستہ معاذ کی نافرمانی اور صاف انکار پہ کڑھتے آئے تھے۔
رنم انہیں سو فی صد معاذ کی عادات کا پرتو دکھائی دے رہی تھی۔ معاذ اس سے مل لیتا اسکے خیالات سے واقف ہوجاتا تو کبھی انکار نہ کرتا۔انہوں نے ابیک کا رشتہ لے جا کر غلطی تو نہیں کی ہے کیونکہ وہ معاذ کے بالکل برعکس ہے جبکہ رنم کے بارے میں جو احمد سیال نے بتایا تھا وہ ملک جہانگیر کے لئے تھوڑا سا پریشان کن تھا کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنا فیصلہ خود کرنے کی عادی ہے۔
اگر وہ مان جاتی ہے اور یہ شادی ہوجاتی ہے تو عادات کا یہ تضاد ابیک کے لئے پریشانی تو نہیں پیدا کرے گا۔ معاذ کے انکار کے بعد انہوں نے ابیک کا رشتہ لے جا کر غلًطی تو نہیں کی ہے۔ وہ اپنے پریشان کن خیالات میں گھرے گھر واپس آئے تھے۔
                                       ###
ملک محل میں رات کا کھانا کھایا جارہا تھا۔ کھانے کی ٹیبل پہ پانچ نفوس موجود تھے۔
ملک جہانگیر، احمد سیال کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔ ملک ارسلان بیچ بیچ میں سوال کر رہے تھے۔ ابیک بالکل لاتعلق بنا اپنی پلیٹ پہ جھکا کھانا کھا رہا تھا۔
بھائی جان یہ تو بتائیں کہ لڑکی کیسی ہے؟“ عتیرہ چچی نے بھی سوال کرنا ضروری سمجھا۔ ”لڑکی ماشاء اللہ خوبصورت ہے یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے اس بار جب میں احمد کے پاس جاؤں گا تو بے شک تم اور ارسلان میرے ساتھ جانا۔
“ ملک جہانگیر نے کھلے دل سے آفر کی۔ ”ہاں بھائی جان میں تو ضرور جاؤں گی۔“
افشاں بیگم بالکل خاموش تھیں کیونکہ ان کا لاڈلا بیٹا ابیک جو خاموش تھا۔ انہیں ملک جہانگیر کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ”احمد نے بیٹی کو بڑے پیار سے پالا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شادی جیسے اہم معاملے میں بھی بیٹی کی رضا مندی شامل ہو تب ہی تو اس نے کہا ہے کہ جب میری بیٹی راضی ہوئی تو میں آپ کو اپنے گھر آنے کا بول دوں گا۔
بیٹی کا باپ ہے ناں۔ جوتیاں تو گھسوائے گا ناں۔“
”ابیک اتنا گیا گزرا نہیں ہے کہ احمد سیال کی بیٹی کے ہاں کے انتظار میں بیٹھا رہے۔ میرے بیٹے کے لئے کمی نہیں ہے لڑکیوں کی“ افشاں بیگم پہلی بار بولیں۔ انہیں ملک جہانگیر کے آخری جملوں پہ بے پناہ غصہ تھا۔
ملک جہانگیر تاویلیں اور صفائی دے رہے تھے۔ ابیک کھانا کھا کر ٹیبل سے اٹھ گیا۔ افشاں بیگم نے شکوہ کناں نگاہوں سے مجازی خدا کی طرف دیکھا۔ جیسے سارا قصور ان کا ہو۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja