Episode 52 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 52 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک ارسلان دو دن سے یونیورسٹی نہیں آرہا تھا۔ عتیرہ ان دِنوں میں بولائی بولائی پھرتی رہی۔ ”پوری دنیا اسے ویران اور اداس نظر آرہی تھی۔ پہلے تو اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ارسلان دو دن کے بعد یونیورسٹی آیا تو وہ اس سے لڑ جھگڑ کر ناراض ہوگئی حالانکہ وہ صفائی دیتا رہا پھر بھی وہ نہ جانے کیوں ناراض ہوگئی تھی۔ ارسلان نے دو دن چھٹی کی تھی اس نے پورے ایک ہفتے کی چھٹی کی۔
عتیرہ کو پورے ہفتے شدید بخار رہا۔ جب وہ دوبارہ یونیورسٹی گئی تب بھی بخار سے ہونے والی کمزوری باقی تھی۔ ارسلان کو اس کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ بے تابی سے ڈھونڈتا ہوا لائبریری میں آیا۔ سامنے وہ کتاب رکھے پڑھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ ارسلان اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تو عتیرہ نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اسے جھٹکا سا لگا کیونکہ ارسلان کی حالت سے لگ رہا تھا وہ بہت پریشان ہے۔

(جاری ہے)

ارسلان نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا وہ کشاں کشاں اس کے پیچھے چلی آئی۔ پارکنگ ایریا سے ارسلان نے اپنی نئی ٹویوٹا کرولا نکالی اور اگلا دروازہ کھولا۔ عتیرہ کوئی سوال کیے بغیر بیٹھ گئی۔ اس نے نہیں پوچھا کہ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو نہ ارسلان نے بتایا۔
چند منٹ بعد ارسلان کے ساتھ وہ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی۔ اس طرح وہ پہلی بار اس کیساتھ گھرسے اکیلی یونیورسٹی سے باہر آئی تھی۔
”عتیرہ میں پچھلے پورے ہفتے سے بہت پریشان ہوں۔ دیکھ لو میں نے شیو تک نہیں کی۔“ ثبوت کے طور پہ ارسلان نے اپنی داڑھی کی طرف اشارہ کیا۔ ”تم کیوں پریشان رہے؟“ ”عتیرہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔“ ارسلان نے اچانک روانی سے یہ جملہ بولا تو اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے وہ جیسے گم صم سی ہوگئی جیسے کسی نے جادو سے پتھر کردیا ہو۔ ”تمہیں بری لگی ہے میری بات؟“ کافی دیر وہ خاموش رہی تو ارسلان نے بے تابی سے پوچھا۔
”مجھے پتہ تھا تمہیں یہ بات بری لگے گی۔ لیکن میں اپنے دل سے پورا ہفتہ لڑتا رہا ہوں نہیں رہ پایا تو تم سے آج کہہ دیا۔“ وہ اس کی مسلسل خاموشی سے دل گرفتہ ہو رہا تھا۔ ”مجھے تمہاری بات بری نہیں لگی۔“ بالا آخر عتیرہ نے خاموشی کے پردے کو چاک کیا۔ ”تو پھر اچھی لگی ہے؟“ وہ فرط شوق سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر جیسے اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔
عتیرہ نے نظر چرالی۔ ملک ارسلان کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔
                                      ###
عتیرہ، ملک ارسلان کے بازو پہ سر رکھے لیٹی اداس تھی۔ وہ انہیں مسلسل تسلیاں دے رہے تھے۔ ”دیکھو تمہارے اور ذیان کے درمیان چند برسوں کا فاصلہ نہیں ہے بلکہ یہ فاصلہ صدیوں کا ہے۔ ہمیں ان وجوہات کا سراغ لگانا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں دوری آئی ہے۔
اس کے شکوے، شکایت اس کا نامناسب سرد رویہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ تمہاری مجبوری کو اس وقت نہیں سمجھ سکتی کیونکہ وہ بچپن سے جو دیکھتی سنتی آئی ہے وہ سب عجیب ہوگا، آخر وہ بھی تو انسان ہے۔“ ”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ سے ڈسکس کر کے میرا دل و دماغ پرسکون ہوگئے ہیں۔“ وہ مسکرا دئیے۔ ”چلو اب سب پریشانیاں ذہن سے جھٹک کر سو جاؤ۔“ انہوں نے عتیرہ کا سر نرمی سے تکیے پہ رکھ کر چادر ان پہ ڈالی۔
ملک ارسلان اس کے ساتھ باتیں کرتے کرتے کب کے سو چکے تھے۔ عتیرہ کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ ماضی کا سفر کرتے کرتے بہت پیچھے چلی گئی تھیں۔ اس وقت وہ صرف عتیرہ قاسم تھی۔ الھڑ، کم سن اور زندگی سے بھرپور عتیرہ قاسم۔ جس پہ ملک ارسلان بری طرح دل ہار بیٹھا تھا۔
عتیرہ کتابیں سر سبز گھاس پہ رکھے ملک ارسلان کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔ 
”تمہارے ابو سے بہت جلد اب ملنا پڑے گا۔
”ارسلان نے شرارت سے اسے دیکھا۔ ”کیوں؟ میرے ابو سے کیا کام ہے؟“ اس نے موٹی موٹی آنکھیں پوری کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ جیسے ان نگاہوں میں ڈوبنے لگا۔ پتہ نہیں اسے کب، کیسے کس وقت اور کہاں عتیرہ سے محبت ہوئی تھی لیکن اسے یہ خبر تھی وہ عتیرہ کے بغیر جی نہیں سکتا۔ اسے شرعی طور پہ ہمیشہ کے لئے اپنا بنانے اور اس کے جملہ حقوق کو محفوظ کرنے کے لئے وہ ملک افتخار سے بات کرنے کی سوچ رہا تھا۔
اسے پوری امید تھی معاشرتی تفاوت کے باوجود بھی ملک افتخار مان جائیں گے کیونکہ وہ بہت اچھی تھی خاندانی تھی اس کے ابو خود دار اور عزت نفس کی دولت سے مالا مال تھے۔اس نے ملک افتخار کو راضی کرلینا تھا ورنہ ملک جہانگیر سے سفارش کروانی تھی۔
شام ڈھل رہی تھی۔ ذیان سو کر اٹھنے کے بعد عجیب سی کسل مندی محسوس کر رہی تھی۔ موسم گرد آلود اور حبس سا تھا۔
وہ ٹھنڈے پانی سے جی بھر کے نہائی تو سستی قدرے کم ہوگئی۔ وہ کپڑے بدل کر نیچے آئی تو عتیرہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیں۔ نیناں دوسری نوکرانیوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ ذیان ایک ثانیے کے لئے اس کے پاس رکی۔ ’مما کہاں ہیں؟“ اس نے استفسار کیا۔ ”وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ شاید سو رہی ہیں۔“ اس کے بجائے فریدہ نے جواب دیا تو ذیان نے غائب، دماغی سے سر ہلایا۔
نیناں نے ایک نظراس کے دھلے نکھرے گلابی چہرے کو دیکھا۔ جس کے گرد کھلے گیلے بالوں کا ہالہ تھا۔ سفید مومی راج ہنس جیسے پاؤں کالے رنگ کی نازک سی جوتی میں مقید تھے آج۔ ناپسندیدگی کا تیز و تند ریلا نیناں یعنی رنم کو شرابور کرگیا۔ کیونکہ سب نوکرانیوں کی نگاہوں میں رشک و ستائش کی نمایاں جھلک اس نے محسوس کی تھی۔ ”میں جہانگیر انکل کی طرف جارہی ہوں۔
مما سو کر اٹھیں تو بتا دینا۔“ ذیان نے انہیں مطلع کیا۔
”چھوٹی بی بی کتنی سوہنی ہیں۔“ اس کے جانے کے بعد ایک نوکرانی نے تبصرہ کیا۔ ”خوب صورت تو ہیں ساتھ مغرور بھی ہیں۔“ دوسری نے گرہ لگائی تو فریدہ بھی پیچھے نہیں رہی ”جو بھی ہے مجھے تو چھوٹی بی بی بہت اچھی لگتی ہیں۔ نہ غصہ کرتی ہیں نہ کچھ کہتی ہیں نہ کسی کام کا بولتی ہیں۔“ پہلی والی بولی۔
”ہاں ہیں تو بہت اچھی۔ کتنی چپ چپ رہتی ہیں۔“ دوسری نے بھی فوراً تائید کی۔ ”مجھے تو نہیں اچھی لگتیں۔“ رنم نے دلی تاثرات کے اظہار میں کسی بخل سے کام نہ لیا۔ تینوں اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ گڑبڑا گئی۔ ”میرا مطلب ہے مجھے ذیان بی بی کا غرور اچھا نہیں لگتا۔“ اس نے عقل سے کام لیا تھا۔ اگر عتیرہ بیگم سے کوئی شکایت کردیتا تو انہیں بہت برا لگنا تھا۔
ذیان اوپر ستونوں والے برآمدے کے پاس کھڑی تھی۔ جس کے گرد آتشی گلابی پھولوں والی نازک سی بیل لپٹی ہوئی تھی۔ وہ اس طرح اکیلی پہلی بار آئی تھی اس سے پہلے ایک بار عتیرہ کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ اب جہانگیر انکل سے ملنے آئی تھی تو خود سے اندر کا رخ کرتے ہوئے جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ حویلی کا جائزہ لینے میں مگن تھی جب ایک نوکرانی کی نگاہ اس پہ پڑی وہ بھاگ کر اس کی طرف آئی۔
”بی بی جی آپ ادھر کیوں رک گئی ہیں آپ آئیں اندر میرے ساتھ۔“ وہ اس کے یہاں کھڑے ہونے پہ جیسے حیران ہوگئی تھی۔ ذیان نے رکے بغیر قدم آگے بڑھائے، نوکرانی اسے ملک جہانگیر کے پاس چھوڑ گئی۔ وہ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ سفید چادر ان کے سینے تک پڑی تھی۔ اے سی فل کولنگ کے ساتھ چلنے کی وجہ سے کمرے میں اچھی خاصی خنکی تھی۔
اس سمے وہ اسے بالکل امیر علی کی مانند محسوس ہوئے۔
انہی کی طرح لاچار اور بے بس یہ صرف اس کی سوچ تھی ورنہ وہ لاچار اور بے بس نہیں تھے یہ تو بیماری نے انہیں کمزور کردیا تھا۔
ذیان نے اپنے دل میں جھانکا اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ جہانگیر انکل کے لئے اس کے دل میں کسی بھی قسم کی تعریف نہیں تھی بلکہ اس کا دل ان کی طرف کھینچتا، تب ہی تو اس وقت وہ یہاں تھی۔
”انکل آپ سو رہے ہیں؟“ اس نے ان کے پاس جا کر آہستہ آواز میں یہ جملہ کہا تو انہوں نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔
“ نہیں میں سو تو نہیں رہا بس آنکھوں میں تھوڑی تکلیف تھی سو ایسے ہی بند کر کے پڑا ہوا ہوں۔“ انہوں نے تفصیل بتائی۔
باتیں کرتے کرتے اچانک ان کی حالت بگڑ گئی۔ سینے سے خرخراہٹ سی ملتی جلتی آوازیں آئیں۔ انہوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھاا ور ان کا سرتکیے پہ ڈھلک گیا۔
”انکل انکل کیا ہوا ہے؟“ اس نے ہذیانی انداز میں سینے پہ رکھا گیا ان کا ہاتھ ہٹایا انہیں جھنجھوڑا۔
ان کا سانس جیسے سینے میں اٹک گیا تھا۔ ”میں کسی کو بلا کر لاتی ہوں۔“ ذیان نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے تسلی دی۔ وہ جانا چاہ رہی تھی پر انہوں نے کمزور گرفت سے اسے روکنے کی کوشش کی اور کسی چیز کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی جانے وہ کس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کی بے چارگی اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اشارہ کیا۔ اس بار وہ سمجھ گئی۔ ان کا اشارہ سائیڈ ٹیبل پہ پڑے انہیلر کی طرف تھا۔ ملک جہانگیر کو دمہ بھی تھا کافی عرصے سے انہیں یہ مرض چلا آرہا تھا سردیوں میں تو ان کی حالت قابل رحم ہوتی۔ صرف اس سال سردیوں کے موسم میں وہ دوبارہ ہاسپٹل ایمر جنسی میں رہ کر آئے تھے۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja