Episode 45 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 45 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

زرینہ خالہ اس کے ہاتھ پہ بندھی پٹی کو معاندانہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ روبینہ بھی وہاں موجود تھیں۔ زرینہ نے رات والا واقعہ من و عن دہرایا تو وہاب غصے سے بھڑک اٹھا۔ حسب توقع اس نے تردید کی۔ ”زرینہ تم تو میری ماں جائی ہو۔ وہاب پہ ایسا شرمناک الزام لگاتے ہوئے تمہارا دل نہیں کانپا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم اتنا بدل سکتی ہو۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔
اپنی سوتیلی بیٹی کی خاطر تم نے وہاب کا بھی لحاظ نہیں کیا حالانکہ یہی ذیان تمہاری نظروں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے اب تم اس کی حمایتی بن کر آگئی ہو۔ وہاب ایسا نہیں ہے۔“ روبینہ نے بہن کو بری طرح لتاڑا تو وہاب بھی شیر ہوگیا۔ ”ہاں خالہ آپ خود سوچیں مجھے ایسا کام کرنے کی بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہے میں بھلا ذیان کے ساتھ ایسا کرسکتا ہوں۔

(جاری ہے)

محبت کرتا ہوں میں اس سے۔ اور اب تو ہماری شادی بھی ہونے والی ہے۔ میں اپنی ہونے والی بیوی کی عزت کیسے خراب کرسکتا ہوں۔“ اس کی اداکاری اور ڈھٹائی قابل دید تھی۔ ایک ثانیے کے لئے تو زرینہ بھی چکرا گئیں۔ مگر جب نظر اس کے ہاتھ پہ باندھی گئی پٹی پہ پڑی تو ذیان کی باتیں پھر سے یاد آنے لگیں۔ وہاب نے صبح اٹھتے ساتھ ہی سب سے پہلے ڈاکٹر کے کلینک کا رخ کیا تھا۔

”یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے۔ رات تک تو بالکل ٹھیک تھا۔“ انہوں نے نظریں جما کر غور سے اسے دیکھا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ’
’صبح جب میں جاگنگ کے لئے نکلا تو بھاگتے بھاگتے لڑکھڑا گیا راستے میں پتھر پڑا تھا نیچے گرا تو ہاتھ پہ چوٹ لگی آتے ہوئے ڈاکٹر سے بینڈیج کروائی ہے۔“ وہ ایسے فر فر بول رہا تھا جیسے ہر سوال کا جواب پہلے سے سوچ رکھا ہو۔
”تم ذیان سے پوچھو۔ وہاب کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو ایسے ہی خواہ مخواہ الزام لگا رہی ہے میرے بچے پہ۔ میں خود پوچھوں گی اس سے۔“
روبینہ کو یہ پوچھ گچھ پسند نہیں آرہی تھی اُدھر انہوں نے ذیان سے پوچھنے کا قصد کیا اُدھر وہاب کے چہرے پہ بے چینی پھیل گئی۔ ”اماں چھوڑیں ناں بس اب۔ ذیان نہ جانے کیوں چڑتی ہے مجھ سے۔ خیر شادی کے بعد خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔
“ اس نے روبینہ سے زیادہ جیسے خود کو تسلی دی۔ ”ہاں زرینہ میں تو کہتی ہوں کہ اب تم ذیان کی شادی کر ہی ڈالو۔ میں شادی سادگی سے کرنے کے حق میں ہوں۔ میں تمہاری تنہائی کے خیال سے اتنے دن سے اپنا گھر چھوڑ کے بیٹھی ہوں۔ وہاب بھی تمہارے لئے فکر مند ہے۔اس لیے آفس سے سیدھا اِدھر چلا آتا ہے۔ لیکن ہم ماں بیٹا کب تک گھر سے دور رہ سکتے ہیں۔ تم میری مانو تو ذیان کو وہاب سے بیاہنے کے بعد خود بھی میرے گھر آجاؤ۔
اتنا بڑا گھر ہے میرا یہاں تم اکیلی کیسے رہو گی۔“ روبینہ کے لہجے میں بہن کے لئے مصنوعی فکر مندی تھی۔ زرینہ امیر علی کی موت کے بعد ان کے بدلتے روئیے اور دل میں آنے والی لالچ سے با خبر نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے اس آفر پہ خوشی سے پھولے نہ سماتی۔ اب یعنی روبینہ آپا اور وہاب یہ گھر ہتھیانے کے چکر میں تھے۔ یہ راہ ماں کو وہاب نے ہی دکھائی تھی۔
”میں عدت میں ہوں بعد میں اس پہ سوچوں گی۔“ زرینہ نے بات ٹالی۔ وہاب نے روبینہ کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ ”ہاں زرینہ پھر کب میں وہاب کی بارات لاؤں؟“ وہ پھر سے اصل موضوع پہ آگئیں۔ آپا میں ابھی دکھ اور صدمے میں ہوں، عدت بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور آپ کو شادی کی سوجھ رہی ہے۔ ”وہ رکھائی سے بولیں تو روبینہ قدرے شرمندہ ہوگئیں۔ ”بس یہ وہاب نے جلدی مچائی ہوئی ہے“ انہوں نے کن اکھیوں سے ساتھ بیٹھے وہاب کی طرف دیکھا۔
”تم ٹھیک کہتی ہو۔ عدت سکون سے گزار لو پھر شادی بھی ہوتی رہے گی۔ کون سا وہاب یا ذیان بھاگے جارہے ہیں۔ “زرینہ نے جیسے سکون کی سانس لی۔ 
”خالہ اس الزام کے بعد بھی میں ذیان سے شادی کے فیصلے پہ قائم ہوں اس سے آپ کو میری نیت کا اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ میں سچ میں ذیان سے محبت کرتا ہوں اسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔
“ وہاب کا لہجہ بہت جذباتی تھا۔ روبینہ نے بیٹے کو والہانہ نگاہوں سے دیکھا جیسے دل ہی دل میں واری صدقے جارہی ہو پر زرینہ اس بار وہاب کی باتوں میں آنے والی نہیں تھی۔ اسے مطمئن کرنے کے لئے جیسے اس کی تائید میں سر ہلایا۔
”خالہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ امی کو یہاں آپ کے پاس چھوڑ کر خود گھر چلا جاؤں۔ اتنے دن سے ہمارا گھر بند پڑا ہے۔ اور پھر میں نہیں چاہتا کہ رات پیدا ہونے والی غلط فہمی کی وجہ سے کسی کو باتیں کرنے کا موقعہ ملے۔
میں بیچ بیچ میں چکر لگاتا رہوں گا۔“ وہاب نے بہت چالاکی سے خود کو عارضی طور پہ منظر سے ہٹانے کا پروگرام بنایا تھا۔ زرینہ دل میں بہت خوش ہوئی۔ وہاب کی موجودگی سے اسے ہمہ وقت خوف اور عدم تحفظ کا احساس ہوتا۔ اچھا تھا وہ کچھ عرصے کے لئے یہاں سے دفعان ہوجاتا۔ اس عرصے میں وہ اطمینان سے سوچ بچار کرسکتی تھی۔
”خالہ میں عارضی طور پہ جارہا ہوں پریشان مت ہونا۔
“ زرینہ کو مسلسل خاموش پا کر وہ بولا تو زرینہ جیسے جبراً مسکرائی۔ ”ہاں تم خیر سے اپنے گھر جاؤ۔ میں پریشان نہیں ہوتی۔ آپ ہیں نا یہاں میرے پاس۔“ انہوں نے وہاب کو اطمینان دلایا تو وہ مطمئن ہوگیا۔
روبینہ کھانے کے بعد لیٹ گئی تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی تو زرینہ جو ان کے پاس بیٹھی تھی اس نے انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اسی طرح سوتا رہنے دیا۔
خود وہ آہستگی سے باہر آگئی کیونکہ بوا نے ان سے اکیلے میں کوئی ضروری بات کرنی تھی۔ زرینہ انہیں ڈھونڈتی باہر نکلی ہی تھی کہ وہ اسے اپنی طرف بڑھتی دکھائی دیں۔ ”چھوٹی دلہن آپ میرے کمرے میں آجائیں۔“ بوا کا انداز چوکنا اور رازدارانہ تھا۔ زرینہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے ساتھ آگئی۔ بوا نے کمرے کا دروازہ بند کر کے جستی ٹرنک کھولا اور اس میں رکھا بوسیدہ برسوں پرانا خط نکال کر ان کی طرف بڑھایا۔
زرینہ نے سوالیہ نگاہوں سے پہلے خط اور پھر بوا کی طرف دیکھا بوا نے جواباً انہیں خط پڑھنے کا اشارہ کیا۔ زرینہ خط پڑھ چکی تھی۔ خط بھیجنے والے نے آخر میں اپنا نام نہیں لکھا تھا پر پھر بھی زرینہ بیگم جان گئی تھیں کہ یہ خط بھیجنے والی ہستی کون ہے۔ 
”بوا آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔“ زرینہ بیگم کی نگاہیں ہاتھ میں تھامے گئے خط پہ تھیں۔
ان کے چہرے پہ شدید ہیجانی کیفیت تھی۔ ”چھوٹی دلہن خدا گواہ ہے میں نے خود کو اس گھرانے کا فرد سمجھا ہے اور کبھی نمک حرامی نہیں کی اس لئے چاہنے کے باوجود میں نے اس خط کا جواب نہیں دیا کیونکہ یہ نمک حرامی ہوتی ہے پھر امیر میاں بھی پسند نہ کرتے۔ لیکن اب میں سمجھتی ہوں کہ اس خط کے جواب دینے کا ٹائم آگیا ہے۔“ ”بوا آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟“ ”چھوٹی دلہن اس خط کے آخر میں ایڈریس بھی لکھا ہوا ہے۔
یہ آپ کے مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ ذیان وہاب میاں سے کسی صورت کسی قیمت پہ شادی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔“ ”میں خود بھی ذیان کی شادی وہاب سے کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس کی نظر میرے گھر پہ ہے میرے بچوں کے حق پہ ہے۔ذیان سے شادی کی صورت میں وہاب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ میں اور میرے بچے در در کی خاک چھانیں گے وہ ذیان سے بھی سب کچھ ہتھیا لے گا۔
میں امیر علی کی روح کو کوئی تکلیف پہنچتے نہیں دیکھ سکتی۔ ”ذرینہ کی آواز بھرا گئی۔ ”اور یہ ایڈریس کا کیا چکر ہے۔“ انہیں یاد آگیا کہ بوا نے خط کے آخر میں لکھے کسی ایڈریس کا ذکر کیا تھا۔ ”چھوٹی دلہن آپ ذیان کو اس کی ماں کے پاس بھیج دیں۔“ بوا نے نہایت سکون سے جواب دیا۔ ”خط کے آخر میں پتہ لکھا ہوا ہے میں اسی کی بات کر رہی تھی۔ ”بوا اتنے برس گزر چکے ہیں کیا پتہ اب حالات کیسے ہیں…“ وہ تذبذب میں تھیں۔
”حالات بالکل ٹھیک ہیں۔“ بوا پہلی بار سکون سے مسکرائیں۔ ”آپ کو کیسے پتہ بوا؟“ میری رشتے کی بھانجی صغراں اسی ساتھ والے گاؤں میں رہتی ہے جس کا پتہ خط میں لکھا ہے۔ میں نے اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ معلومات کروانے کو کہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اس گاؤں میں بھیجا۔ وہ سب کچھ دیکھ بھال آیا ہے۔ بس میں اس بات اس جرأت پہ شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ کو اطلاع دئیے بغیر یہ سب کیا؟ بوا کی نگاہوں میں شرمندگی تھی۔
”ارے بوا ایسی بات تو نہ کریں۔ آپ نے تو بیٹھے بیٹھے میرا مسئلہ حل کردیا ہے۔ میں جس کام کو مشکل سمجھ رہی تھی وہ اتنا ہی آسان ہوگیا ہے کیونکہ ذیان کی طرف سے میں ازحد پریشان ہوں۔ زرینہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ وہ سچ میں خوش تھیں۔
”چھوٹی دلہن میں صغراں کو وہاں جانے کے لئے بولتی ہوں وہ سب حالات بتا دے گی انشاء اللہ وہاں سے اچھی خبر ہی ملے گی۔
“ وہ پر امید تھیں۔ ”بوا کیا وہ ذیان کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار ہوگی؟“ مطلب وہ لوگ اسے قبول کرلیں گے؟“ زرینہ کا انداز خدشات سے بھرا تھا۔ ”چھوٹی دلہن صغری بہت تعریف کر رہی تھی کہ نیک اور خدا ترس لوگ ہیں بہت امیر بھی ہیں۔ باقی اللہ خوب جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔“
”بوا ہمیں جلدی جلدی ذیان کو یہاں سے بھیجنا ہوگا۔ میں وہاب کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں۔“ ”صغریٰ وہاں سے سب معلومات لے آئے پھر میں آپ کو بتاؤں گی۔“ ”بوا آپ اس کام میں دیر مت کرنا۔“ زرینہ لجاجت سے بولی۔ ”چھوٹی دلہن آپ اللہ سے دعا کریں بس۔“ بوا نے انہیں تسلی دی۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja