Episode 84 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 84 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

نیناں ملک محل سے غائب ہوگئی تھی۔ اس کے کمرے سے اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا پرچہ ملا تھا۔
اس نے بغیر کسی القاب و آداب کے بطور خاص کسی کو بھی مخاطب کیے بغیر لکھا تھا۔
”میں اپنی مرضی سے ملک محل چھوڑ کر جارہی ہوں۔ میں اپنی زندگی اور حالات سے تنگ آچکی ہوں۔ مجھے اب مزید جینے کی تمنا نہیں ہے۔ میں اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کروں گی۔میں گمنام موت مرنا چاہتی ہوں اس لیے برائے مہربانی مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
کیونکہ یہ کوشش بیکار ثابت ہوگی میں یہاں سے نکل کر پہلی فرصت میں اپنی زندگی ختم کروں گی۔ فقط نیناں۔“ خط پڑھ کر عتیرہ کا تو جو حال ہوا سو ہوا ذیان بھی پریشان ہوگئی۔
افشاں بیگم بھی روہانسی ہو رہی تھیں۔ ملک ارسلان اور ملک جہانگیر نے اسے قریب کے علاقوں میں تلاش کروانے کی ناکام کوشش کی۔

(جاری ہے)

وہ جس طرح ایک دن اچانک ملک محل میں آئی تھی اسی طرح اچانک غائب بھی ہوگئی تھی۔

اس کا کوئی اتا پتہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس کی اصل حقیقت اس کی محسن عتیرہ تک کو معلوم نہ تھی جو اسے ہوٹل سے بچا کر اپنے ساتھ لائی تھیں۔ ملک محل میں کافی دن نیناں کے جانے کے بعد سوگواری چھائی رہی۔ عتیرہ تو پورا دن ٹی وی دیکھتیں اخبار پڑھتیں کہ شاید کہیں سے نیناں کی خبر مل جائے۔
جلالی باوا نے ذیان کے علاج کا عمل کامیابی سے مکمل کرلیا تھا۔
انہوں نے ذیان کو مکمل طور پہ صحت مند قرار دیا تھا۔ جلالی باوا نے ان سب کا یعنی ملک محل کے مکینوں کا سب سے بڑا مسئلہ حل کردیا تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ وقتاً فوقتاً ملک محل کا چکر لگاتے رہیں گے اور ذیان کی خبر گیری کرتے رہیں گے تاکہ اگر جن دوبارہ اس پہ سوار ہوجائے تو وہ اس کا سدباب کرسکیں۔
عتیرہ ،افشاں بیگم بے پناہ خوش تھیں۔
ملک جہانگیر بھی پرسکون تھے۔ ابیک کی شادی کے بعد تو جیسے گھر کی رونق ہی روٹھ گئی تھی۔ وہ خود گھر سے کتنے ہفتوں سے دور تھا۔
ملک ارسلان نے اسے اطلاع کر وا دی تھی کہ عامل جلالی باوا ملک محل سے رخصت ہوگئے ہیں تم گھر آجاؤ۔
ملک ابیک کو تو ویسے بھی گھر آنا تھا۔ نیناں کی اس طرح ملک محل سے پراسرار روانگی اس کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔
وہ شہر میں اتنا مصروف تھا کہ کوشش کے باوجود بھی نیناں کی گمشدگی کی خبر سن کر نہیں آسکا تھا۔ البتہ فون پہ اس کا سب سے برابر رابطہ تھا۔
سلائی کڑھائی کے سینٹر میں بھی نیناں کے جانے سے مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ اب وہاں جا کر حالات کا جائزہ لینا تھا کسی کو انچارج بنانا تھا تاکہ مقصد کماحقہ پورا ہوسکے جس کی وجہ سے اس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔
اپنی گمشدگی سے ایک دن پہلے نیناں نے اسے فون پہ رابطہ کیا تھا انڈسٹریل ہوم کے بارے میں تسلی بخش رپورٹ دی تھی۔ اور آخر میں اس نے ڈرتے ڈرتے کسی وہاب نامی نوجوان کا ذکر کیا تھا جو ملک محل میں ذیان کا پوچھتا آیا تھا۔ ملک ابیک نے خود کو کام میں غرق کرلیا تھا اس لیے نیناں کی بات وقتی طور اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ ملک ارسلان سے بات کرنے کے بعد ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ نمودار ہوئی۔
تمہیں جب دیکھتا ہوں تو…
میری آنکھوں پہ رنگوں کی پھواریں پڑنے لگتی ہیں!
تمہیں سنتا ہوں تو…
مجھ کو قدیمی مندروں سے
گھنٹیوں اور مسجدوں سے ورد کی آواز آتی ہے!
تمہارا نام لیتا ہوں تو…
صدیوں قبل کے لاکھوں صحیفوں کے
مقدس لفظ میرا ساتھ دیتے ہیں
تمہیں چھو لوں تو…
دنیا بھر کے ریشم کا ملائم ہیں
میری پوروں کو آ کر گدگداتا ہے
تمہیں گر چوم لوں تو…
ناچیدہ ذائقے یوں پھیل جاتے ہیں
کہ اس کے بعد مجھ کو
شہد بھی پھیکا پھیکا لگتا ہے
تمہیں جب یاد کرتا ہوں تو
ہر ہر یاد کے صدقے میں
اشکوں کے پرندے چوم کر آزاد کرتا ہوں
تمہیں ہنستی ہوئی سن لوں تو
ساتوں سر سماعت میں سما کر رقص کرتے ہیں
تمہارے اور اپنے درمیان
ہر کیفیت سے آشنا ہوں میں
مگر… جاناں!!!
تمہیں بالکل بھلا دینے کی جانے کیفیت کیا ہے!
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ مرگ ذات کے احساس سے بھر جاؤں گا فوراً
تمہیں میں بھولنا چاہوں گا تو
مرجاؤں گا فوراً!!!
                                           ###
احمد سیال کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔
یقین تو رنم کو بھی اپنی آنکھوں پہ نہیں آرہا تھا۔احمدسیال زندہ سلامت اس کے سامنے موجود تھے اور وہ اپنے گھر میں تھی۔
وہ بھاگ کر پوری شدت سے ان سے لپٹی تھی۔منظر تو پہلے ہی اس کی آنکھوں میں دھندلا رہا تھا اب پپا سے گلے مل کر آنسوؤں کو بہنے کا راستہ مل گیا تھا۔ اتنے ماہ کی دوری سخت زندگی اور اپنی ضد کے منفی نتائج نے اس کے سب کس بل نکال دئیے تھے۔
وہ پپا سے بے حد شرمندہ تھی ان سے نگاہیں تک نہ ملا پا رہی تھی۔وہ اسے لپٹائے اس کا ماتھا ہاتھ بال بار بار چومتے اس کے ہونے کا یقین کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ واقعی ان کی لاڈلی رنم تھی ان کا جگر گوشہ وہ تو تقریباً مایوس ہی ہوچکے تھے۔اب ان پہ شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہ اتنے سارے دنوں کا احوال پل بھر میں معلوم کرلینا چاہ رہے تھے۔
”پپا میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گی پہلے اپنا گھر تو دیکھ لوں۔ میں نے اپنا گھربہت مس کیا ہے۔“
وہ بھیگی بھیگی آنکھوں سمیت مسکرائی۔
احمد سیال بھی مسکرا رہے تھے۔ ”آؤ میں تمہیں گھر دکھاتا ہوں۔ تمہارے بغیر تو میں جیسے مردہ ہو گیا تھا۔ “ احمد سیال نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
وہ چپہ چپہ گوشہ گوشہ دیکھ رہی تھی۔خوش ہو رہی تھی۔
نیناں بن کر اس نے جو زندگی گزاری تھی وہ بہت قابل رحم اور مشکل تھی۔وہ سوچ رہی تھی جیسی زندگی اس نے گزاری ہے ویسی زندگی گزارنا وہ بھی نیناں بن کر بہت مشکل ہے۔جبکہ احمد سیال کی بیٹی کی حیثیت سے اس نے سب لگژی لائف انجوائے کی تھی وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ ملک محل میں نیناں کی حیثیت سے اس نے اچھی طرح جان لیا تھا۔
وہ شہر یار اور راعنہ کی شادی کے بعد جیسے پاگل ہوگئی تھی۔
ان کی شادی اس کے نزدیک خوابوں بھرا ایڈونچر تھی۔اس ایڈونچر کو وہ صرف چند دن ہی انجوائے کرسکتی تھی۔
راعنہ نے شہریار کی حیثیت کو قبول کرلیا تھا اس کے چھوٹے گھر میں خوش تھی۔
شہریار اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنا چاہتا تھا راعنہ ہر قدم اس کے ساتھ تھی۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ شہریار کے ساتھ شادی کے بعد ہر طرح کی مشکلات پیش آئیں گی۔
شہریار نے اس کے ڈیڈی سے کوئی مدد نہیں لی تھی وہ اپنے شوہر کی خودداری پہ خوش تھی۔ جبکہ رنم کو اب اگر شہریار جیسا انسان ملتا تو وہ اس کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی اور پھر انکار کردیتی۔ پہلے وہ مری جارہی تھی کہ کاش کوئی شہریار جیسا لائف پارٹنر اسے بھی مل جائے لیکن ایسا لائف پارٹنر ملنے کی صورت میں اسے تمام تر عیاشیوں سے ہاتھ دھونے پڑتے۔
وہ اتنے ماہ ملک محل میں رہی تھی وہاں اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ اس نے پپا کو انکار کر کے کتنی بڑی حماقت کا ثبوت دیا ہے۔
پپا اس کی باتوں میں آ کر کسی کے ساتھ اس کی شادی کر بھی دیتے تو یقینا اس کاا نجام حسرت ناک ہوتا۔ یعنی وہ صرف اس کی سوچ تھی بچگانہ سوچ کہ وہ پپا سے شادی کے بعد کچھ بھی نہیں لے گی۔اب سوچتی تو جھرجھری آتی۔ سہولیات اور اختیار کے بغیر بھی زندگی کوئی زندگی ہوتی ہے۔
اور اختیار دولت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ملک محل میں خادمہ کی سی زندگی نہ گزارتی۔
اب وہ بھی ملک محل کے مکینوں کی ہم پلہ ہوگئی تھی۔
احمد سیال کو اس نے حرف بہ حرف سب داستان کہہ سنائی تھی۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنے ماہ وہ ملک جہانگیر کی حویلی میں رہی اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔
کاش دوست کی دعوت پہ وہ ابیک کی شادی میں چلے جاتے۔ معاذ کے پاکستان آنے پہ چلے جاتے تو انہیں اتنی اذیت نہ اٹھانا پڑتی۔ رنم ان کے اتنے پاس رہ کر بھی دور رہی تھی۔وہ انہیں گزرے دنوں کا حسرت ناک احوال سنا رہی تھی۔
”پپا آپ کی بیٹی نے وہاں خادمہ کی سی زندگی بسر کی ہے۔ ایک آواز پہ بھاگ بھاگ کے کام کیے ہیں۔ ملازموں کی نگرانی کی ہے دیکھ بھال کی ہے… پپا وہ ایک خواب تھا بھیانک خواب میں یہ خواب پھر کبھی نہیں دیکھنا چاہوں گی۔
پپا یہاں ہمارے گھر میں اتنے ملازم ہیں جبکہ وہاں میں خود نوکرانی تھی۔پپا یہاں میں پانی مانگ کر پیتی تھی جبکہ وہاں…“
رندھی ہوئی آواز کی وجہ سے اس سے بات بھی مکمل نہ کی گئی۔
احمد سیال نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کا اپنا دل شدت غم سے پھٹا جارہا تھا۔
”میرے بچے ملک جہانگیر نے تمہارا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے ہی تو مانگا تھا۔
میں تمہیں عزت سے دھوم دھام سے رخصت کر کے ملک محل میں بھیجنا چاہ رہا تھا جبکہ تم ضد میں آ کر غلط طریقے سے وہاں پہنچی۔ ملک ابیک نے شادی کے بعد کسی بھی قسم کا جہیز نہیں لیا تم یہی چاہتی تھی ناں کہ تمہیں صرف تمہارے حوالے سے قبول کیا جائے۔ تم ایک بار میری بات مان لیتی تو ایک مضبوط حوالہ لے کر ملک محل میں جاتی۔ مگر تم نیناں بن کر گھر سے اپنی ضد کی خاطر نکلی اور سب کچھ گنوا دیا۔
“ احمد سیال جیسا مرد بیٹی کا دکھ سہہ نہیں پایا تھا وہ رو رہے تھے۔ رنم بھی تو رو رہی تھی۔ اس کے دل کو جیسے کوئی سینے میں مسل رہا تھا۔ ذیان کی جگہ وہ بھی تو ہوسکتی تھی۔ ملک ابیک نے ذیان کو ایسے ہی تو قبول کیا تھا وہ بیوی جیسا مضبوط اور باعزت حوالہ لے کر اس کی زندگی میں آئی تھی۔ اور رنم نے پا کر بھی سب کچھ گنوا دیا تھا۔ دونوں باپ بیٹی اپنے اپنے نقصان پہ رو رہے تھے۔
بہت دن بعد رنم اپنے بیڈ روم میں اپنے بیڈ پہ تھی۔ اس کا جہازی سائز بیڈ پردے کارپٹ ڈیکوریشن کھڑکی سے باہر دکھائی دینے والے سرسبز مناظر۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔
حتیٰ کہ اپنا سیل فون جو گھر سے جاتے وقت وہ آف کر گئی تھی ویسا ہی پڑا تھا۔
اس نے عتیرہ بیگم کا دیا ہوا سیل فون بیگ سے نکالا۔ سیل فون ہاتھ میں لیتے ہی اس کے لبوں پہ تمسخرانہ مسکراہٹ آگئی۔
اس میں ابیک، وہاب، ذیان، عتیرہ اور دیگر ملک محل کے مکینوں کے فون نمبر تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی بھی اپنے ساتھ نہ لاتی۔ احمد سیال کی بیٹی کا ذوق ایسا غریبانہ اور تھرڈ کلاس تو ہو نہیں سکتا تھا۔ اس نے نمبر ڈائری میں نوٹ کر کے سیل فون کمرے میں پڑے آرائشی ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ اسے اب اس گھٹیا کم قیمت فون کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اپنے بیڈ روم میں بیڈ پہ لیٹتے ہی اسے چین آگیا۔ کل تک وہ ملک محل میں تھی سرونٹ کوارٹرز کے ایک کمرے میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ اب وہ اپنے اصل ٹھکانے پہ لوٹ آئی تھی۔
                                          ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja