Episode 32 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 32 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال زندگی میں پہلی مرتبہ سخت غصے میں تھے۔ انہوں نے رنم کو بہت بار سمجھایا لیکن وہ ماننے میں نہیں آرہی تھی۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی فضول سی ضد چھوڑنے کے لئے تیار کیوں نہیں ہے۔ تھک ہار کر وہ رنم کے علم میں لائے بغیر راعنہ اور شہریار سے ملے۔ احمد سیال کی پریشانی کی وجہ جان کر وہ دونوں خود بھی فکر مند ہوگئے راعنہ نے تو یونیورسٹی میں رنم کو جا پکڑا۔
کچھ دن سے وہ بیحد مضطرب اور تھکی تھکی نظر آرہی تھی اکثر کلاسز بنک کردیتی جب دیکھو گراؤنڈ میں بیٹھی غیر مرئی نقطے کو دیکھتی پائی جاتی۔ ”رنم کیا بات ہے کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ مجھے فیل ہو رہا ہے تم بہت اپ سیٹ ہو؟“ راعنہ نے کمال ہوشیاری سے بات شروع کی۔ ”ہاں اپ سیٹ ہوں۔“ اس نے فوراً اقرار کیا اور رکے بغیر سب بتاتی چلی گئی۔

(جاری ہے)

”پپا میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔

مجھے صرف شہریار بھائی جیسا لائف پارٹنر چاہیے جو کوئی ڈیمانڈ نہ کرے۔“
”فرض کیا کوئی ایسا شخص مل بھی جاتا ہے جو بغیر کسی ڈیمانڈ کے تم سے شادی کرلے اور پھر کچھ عرصے بعد سب چیزوں کا مطالبہ کردے کیونکہ تمہاری احمقانہ ضد تمہیں کسی بھی بڑے نقصان سے دو چار کرسکتی ہے۔“ ”مجھے نقصان ہوگا کسی اور کو تو نہیں…“ ”وہ نروٹھے پن سے بولی۔
”رنم تمہاری ضد کا ہر جگہ چرچا ہے بہت سے نوجوان لالچ میں آ کر تم سے شادی کرنے پہ تیار ہوجائیں گے کہ جی ہمیں کچھ نہیں چاہیے بعد میں جب تم نکاح کے بندھن میں جکڑی جاؤ گی تو تمہارا شوہر زبردستی دھونس دھمکی بلیک میلنگ کے ذریعے تمہاری سب دولت جائیداد اپنے نام کروا سکتا ہے۔ تب تم کیا کرو گی۔ انکل کسی ایسے ویسے نوجوان سے تمہاری شادی نہیں کریں گے۔
”راعنہ نے اسے ایک اور پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی۔“ تو کوئی ایسا ویسا نوجوان مجھ سے میرے پپا کی دولت کے بغیر شادی کیوں نہیں کرلیتا۔ اتنی بڑی دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، کیا جیسا مجھے چاہیے۔“ ایک عجیب سی حسرت پنہاں تھی اس کے لہجے میں۔ ”مائی ڈئیر فرینڈ یہ لائف ہے کوئی فلم یا ناول کی کہانی نہیں ہے۔“ ”تمہاری شادی بھی تو شہریار بھائی سے ہوئی ہے ناں۔
“ وہ چہک کربولی۔ ”شہریار میرے کزن ہیں بچپن سے دیکھے بھالے ہیں پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں شروع سے ہی۔ میں نے ان کی محبت میں سب کچھ قبول کیا ہے کیونکہ شہریار میری فیملی سے کسی قسم کی فنانشل سپورٹ حاصل کر کے زیر بار نہیں ہونا چاہتے انہیں اللہ کی ذات پہ محنت پہ بھروسہ ہے۔“ راعنہ نے اسے حقیقت بتائی۔ ”ہماری فیملی میں آپس میں بہت سے Conflicts ہیں جس کی وجہ سے شہریار نے یہ سب کہا۔
میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی بس اتنا کہوں گی اپنی ضد سے باز آجاؤ۔“ رنم جواب میں کندھے جھٹک کر رہ گئی۔
بہت دن بعد رنم اور احمد سیال اکھٹے کھانا کھا رہے تھے۔ ”تم نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا ملک جہانگیر کی فیملی کے بارے میں۔“ احمد سیال نے کھانے کے درمیان بات شروع کی۔ رنم نے حیرانی سے انہیں دیکھا جیسے اسے پپا سے اس سوال کی توقع نہ ہو۔
”میں کیا جواب دوں۔“ وہ ناراض لہجے میں بولی۔ ”اینی وے وہ آرہے ہیں تم خود کو تیار کرلو اس کے بعد خواجہ صاحب ہیں وہ بھی تمہارے سلسلے میں آنا چاہ رہے ہیں۔“ انہوں نے اسے انفارم کیا۔ ”پپا مجھے نہ تو ملک جہانگیر کی فیملی میں کوئی انٹرسٹ ہے اور نہ کسی خواجہ صاحب میں۔ اگر آپ میری بات مانتے ہیں تو میں اس بارے میں سوچوں گی۔“ نہ چاہنے کے باوجود بھی رنم کے لہجہ میں تیزی آگئی۔
”میں تم پہ کوئی اپنی مرضی نہیں ٹھونس رہا صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ مہمانوں سے مل لو دیکھ لو۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔“ احمد سیال نرم لہجہ میں بول رہے تھے۔
”پپا I Know That آپ چاہتے ہیں کہ میری شادی ہوجائے۔ پپا میں شادی کرلوں گی لیکن میں آپ سے کچھ بھی نہیں لوں گی یہ بات آپ ان لوگوں کو بھی بتا دیں جو ہمارے گھر آئیں۔ اگر وہ لوگ بغیر کسی جہیز کے مجھے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔
“ رنم کا انداز قطعی بے لچک اور ٹھوس تھا۔ وہ ایک انچ بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ”رنم کیوں بچوں والی باتیں کر رہی ہو۔ سب لوگ ہنسیں گے مجھ پہ۔“ احمد سیال کی قوت برداشت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔ ”پپا آپ کو لوگ عزیز ہیں یا اپنی اکلوتی اولاد؟“ وہ انہیں جذباتی طور پہ بلیک میل کرنے پہ اتر آئی۔ ”مجھے تم پوری دنیا سے عزیز ہو مگر تمہاری خواہش ناقابل قبول ہے۔
وہ بے چارگی سے بولے۔ ”پپا آپ میری شادی کسی مڈل کلاس غریب خاندان میں تو کریں گے نہیں۔ جہاں بھی کریں گے وہ لوگ ہمارے ہم پلہ ہوں گے۔ ان کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو ہمارے پاس ہے پھر میں کیوں آپ سے کچھ لوں۔“ رنم اپنی بات پہ اڑی ہوئی تھی۔ ”رنم میں پاگل ہوجاؤں گا Try To Understand“ ”پپا آپ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ…!“ ”ورنہ کیا بولو تم…“ احمد سیال نے غصے میں آ کر اس کی بات کاٹ دی۔
”پپا میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا۔ وہ کھانا چھوڑ کر جا چکی تھی۔ احمد سیال نا سمجھی کے عالم میں ابھی تک اُدھر ہی دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ باہر گئی تھی۔ ان کے چہرے پہ بے پناہ پریشانی تھی۔
بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ رنم بار بار چہرے پہ آجانے والے بالوں کو سمیٹ رہی تھی۔ وہ فراز کے ساتھ پارک میں بیٹھی تھی۔ اسی نے فراز کو کال کر کے پارک میں بلوایا تھا۔
وہ سب کام چھوڑ کر چلا آیا۔ کیونکہ نہ آنے کی صورت میں رنم سے کچھ بھی بعید نہ تھا وہ ہر الٹی سیدھی بات سوچ سکتی تھی۔
اب وہ اس کے سامنے بیٹھا اسکا پریشان چہرہ اور تاثرات دیکھ رہا تھا۔ ”تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو پر تم بھی میرے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔“ اس کا لہجہ رونے والا ہو رہا تھا۔ ”میں تمہارے لئے ایک ایسا نوجوان ڈھونڈ سکتا ہوں جو تم سے بغیر جہیز کے شادی کرسکے۔
“ اس نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا۔ ”میں یہاں پریشان بیٹھی ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ ”مذاق کون کر رہا ہے۔“ ”فراز پپا نے مجھ پہ غصہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ آرہے ہیں تم ملو اور فیصلہ کرو۔“ ”ہاں تو مل لینا۔“ اس نے روانی میں کہا تو رنم نے اسے گھور کر دیکھا۔
 ”میں نے پپا سے بول دیا ہے کہ اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں ساری عمر شادی نہیں کروں گی۔
“ ”تم نے ایسے پپا سے بول دیا۔“ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ”ہاں بول دیا ہے۔“ اس نے تصدیق کی۔ ”تم پپا کی بات مان لو۔“ اس نے خلوص دل سے ایک بار پھر پرانا مشورہ دہرایا۔ ”بھاڑ میں جاؤ تم۔“ وہ پاؤں پٹختی اٹھ کھڑی ہوئی۔ فراز سر پہ ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
وہ راکنگ چیئر پہ بیٹھی آنکھیں موندے ہلکے ہلکے جھول رہی تھی۔ اسے آج فراز پہ بے پناہ غصہ تھا۔
وہ پارک سے نکل آئی تھی بعد میں اس نے رنم کو کتنی بار کال کی پر اس نے غصے میں ریسیو نہیں کی۔
اچانک دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی۔ ”یس کم آن۔“ اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آنے والے احمد سیال تھے۔ رنم نے انہیں بیٹھنے کے لئے نہیں کہا وہ بھی اپنے انداز سے بیٹھنے والے نہیں لگ رہے تھے۔ ”میں نے کبھی تم پہ اپنی مرضی نہیں ٹھونسی ہے لیکن مجبوراً یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ ملک جہانگیر کی فیملی کو بلوا رہا ہوں میں۔ بس یہی بتانے کے لئے آیا تھا۔“

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja