Episode 79 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 79 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

نیناں لڑکیوں کے کام کی نگرانی کر رہی تھی جب دروازے پہ متعین چھوٹی سی لڑکی نے ملک ابیک کے آنے کی اطلاع دی۔یہ نو دس سال کی نامرہ تھی عارفہ کی بیٹی۔عارفہ سات سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی۔ ابیک نے اسے سلائی کڑھائی کے اس مرکز میں کینٹین کھولنے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ دوسرے دیہاتوں سے بھی عورتوں نے اس انڈسٹریل ہوم کا رخ کیا تھا۔اب اچھی خاصی تعداد ہوگئی تھی شام میں چھٹی ہوتی تھی۔
صبح سے لے کر شام تک اچھا خاصا وقت ہوجاتا تھا سب کوبھوک بھی لگتی تھی۔
عارفہ چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ گھر کے بنے سموسے اور چائے بھی یہاں فروخت کرتی۔شروع میں ملک ابیک نے ہی تمام چیزوں کے لیے اسے پیسے دئیے تھے۔ اب اس کا کام چل نکلا تھا۔ سکول کی تعمیر کے بعد ملک ابیک نے کینٹین کا ٹھیکہ عارفہ کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

اپنی بیٹی ناصرہ کو سکول میں داخلہ دلوانے کے خواب اس نے ابھی سے دیکھنے شروع کردئیے تھے۔

وہ گھر کے کام کاج ختم کر کے ناصرہ کو بھی ساتھ لے آتی۔ وہ بہت سمجھدار بچی تھی۔ یہاں کئی ایک کام نمٹا دیتی اس لیے نیناں کو یہاں اس کی موجودگی پہ کوئی اعتراض نہیں تھا۔
نیناں پہ تو جیسے شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ابیک کو اس نے چار دن سے نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ بہانے سے دوبار ملک جہانگیر کی طرف گئی تھی۔ ملک ابیک گھر پہ نہیں تھا۔
آج وہ خود چل کر آگیا تھا۔ ابیک اس کے آفس میں اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ ہواؤں پہ چلتی رقص کرتی جیسے آفس میں آئی۔ اسے دیکھ کر وہ رسمی انداز میں مسکرایا۔ نیناں دوسری کرسی سنبھالے اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ ابیک موسم کے حساب سے ہلکی سی ٹی شرٹ اور جینز کی پینٹ میں ملبوس تھا۔ ٹی شرٹ کی آدھی آستینوں سے اس کے مضبوط صحت مند مردانہ بالوں بھرے بازو جھانک رہے تھے۔
اس کے پاس سے سحر انگیز مہک آرہی تھی۔ نیناں کے تو جیسے حواس ہی مختل ہونے لگے۔
”مس نیناں میں دو ماہ کے لیے شہر جارہا ہوں۔ وہاں مجھے اپنے پراجیکٹ پورے کرنے ہیں۔ درمیان میں شاید میں ایک آدھ چکر لگاؤں۔ لیکن شہر میں مجھے کافی زیادہ ٹائم لگ سکتا ہے۔ اس دوران یہاں کی سب ذمہ داری آپ کے سپرد ہوگی۔“ اس کے دو ماہ کے لیے جانے کا سن کر نیناں کا دل اداسی سے بھر گیا اور چہرہ تو ایک دم جیسے اتر گیا تھا۔
”یہ میرا سیل نمبر ہے کوئی بھی پرابلم ہو ضرورت ہو اس نمبر پہ کال کر کے آپ مجھے بتا سکتی ہیں۔“ ابیک نے کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ کارڈ اس سے لیتے نیناں کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ واضح لرزش ابیک نے بھی محسوس کی۔ ”ٹھیک ہے۔“ وہ مرے مرے انداز میں بولی۔ ایک دم جیسے ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہوگئی۔
ابیک جاچکا تھا۔ پر اس کی سحر انگیز خوشبو ابھی تک اس کے حواس پہ سوار تھی۔
وہ پورے دو ماہ کے لیے غائب ہو رہاتھا۔ ان دو ماہ میں وہ اسے دیکھے بغیر کیسے رہ پائے گی۔ اف قیامت در قیامت تھی۔ ”اے اللہ یہ شخص میرا نصیب ہے تو نے اسے ذیان کی جھولی میں کیوں ڈالا ہے وہ ناشکری لڑکی تو کسی طرح بھی ملک ابیک کے قابل نہیں ہے۔“ وہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے خدا سے شکوہ کناں تھی۔
ذیان کو عتیرہ ساتھ لے گئی تھیں، آج پھر اس پہ جن آیا تھا۔
چار نوکر انیوں، عتیرہ اور افشاں بیگم کے قابو کرنے کے باوجود بھی وہ ان کے ہاتھوں سے نکلی جارہی تھی۔ اس نے کمرے میں سخت توڑ پھوڑ مچائی تھی۔ ابیک نیچے بیٹھا سب شورو ہنگامہ سن رہا تھا اور بری طرح کڑھ رہا تھا۔
وہ اوپر جانا چاہ رہا تھا۔ ذیان کے آتم توش سے دو دو ہاتھ کرنا چاہ رہا تھا۔ پر ملک جہانگیر نے سختی سے منع کردیا تھا۔ آج ذیان کا جن کچھ زیادہ ہی غیض و غضب میں بھرا ہوا تھا۔
عتیرہ نیناں کو بھی اپنے ساتھ لائی تھیں۔ ذیان کرسٹل کے تمام ڈیکوریشن پیسز توڑ چکی تھی۔ اس کے بعد اس نے کپڑوں کی الماری کھولی اور ابیک کے تمام کپڑے ایک ایک کر کے باہر پھینکنے شروع کردئیے۔ ”نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں گا جلا کر بھسم کردوں گا۔“
ذیان کے حلق سے غراتی مردانہ آواز برآمد ہو رہی تھی۔ کپڑوں کے بعد ابیک کے قیمتی مردانہ پرفیومز کی باری آئی جو ابیک نیچے لے جانا بھول گیا تھا۔
ایک ایک کر کے ذیان نے تمام پرفیومز کی بوتلیں توڑ ڈالیں۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی جو اسے روکتا۔ ذیان نے ابیک کی تمام ٹائیوں کا ایک گولہ سا بنا کر بیڈ کے نیچے پھینک دیا۔ اس نے ابیک کے کپڑوں پہ اپنے پاؤں مارے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کپڑوں میں ابیک کا وجود ہو اور آتم توش اسے مسل رہا ہو۔ ذیان اب چیخیں مار رہی تھی بال نوچ رہی تھی اس کی آنکھوں میں غضب کا طوفان جیسے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
نیناں واحد ہستی تھی جو اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔ اس وقت ملک ابیک سے اس کی ہمدردی عروج پہ تھی اور ذیان کے خلاف دل میں نفرت کا طوفان برپا تھا۔ ارمانوں سے یہ شادی ہوئی تھی اور شادی کے اولین دن سے ہی وہ بدترین عذاب میں گرفتار تھا۔ نیناں کا دل کر رہا تھا ذیان کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دے۔ پر اس حیثیت میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔
ایسی جسارت کا صرف سوچ سکتی تھی۔ اس کی چھٹی حس بار بار اسے ریڈ سگنل دے رہی تھی۔
بال نوچنے کے بعد ذیان نے بال چہرے کے اطراف بکھرا کے جھومنا شروع کردیا۔ اس کا چہرہ اب مکمل طور پہ بالوں کے گھیرے میں تھا۔
سوائے نیناں کے سب کمرے سے جاچکے تھے۔
وہ ایک کونے میں کھڑی بہت خاموشی سے اور غور سے ذیان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے بال پرے کیے اور لمبی سانس لی۔
اب اس کے چہرے پہ کسی بھی قسم کی وحشت نہیں تھی وہ بالکل نارمل خوش باش نظر آرہی تھی۔ نیناں پہ نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک سی گئی۔ ایسا صرف لمحے بھر کے لیے تھا ذیان نے اس کی سمت خشمگین نگاہوں سے دیکھا۔ ”بھاگ جا یہاں سے۔ جلا کر بھسم کردوں گا۔“ ذیان کے حلق سے آتم توش کی مخصوص آواز برآمد ہوئی۔ نیناں کے لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ ذیان کی طرف اپنی نگاہوں سے تکتی باہر جارہی تھی۔
اس کے چہرے پہ وہ کیفیت ہرگز نہیں تھی جو محکوموں کا خاصہ ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے تاثرات میں آنکھوں میں ہونٹوں پہ ایک عجیب سی حقارت تھی۔
وہ لبوں سے کچھ نہیں بولی تھی آنکھوں سے سب کچھ جتا دیا تھا۔
ذیان گھٹنوں میں سر دئیے خاموش بیٹھی تھی۔ آتم توش نے اسے تھکا دیا تھا۔
عتیرہ، ذیان کو اپنے ساتھ لے جاچکی تھیں۔ ذیان کے جانے کے بعد ابیک نے اپنے بیڈ روم میں قدم رکھا۔
عنبرلوبان، عود اور اگر بتی کی خوشبوئیں ہر طرف چکرا رہی تھیں۔ بلکہ ان میں اس کے ضائع کیے جانے والے پرفیومز کی مہک بھی الگ سے شناخت کی جارہی تھی۔ اس کا بیڈ روم، بیڈ روم نہیں بلکہ بارونق مزار لگ رہا تھا۔ حالانکہ نوکرانیوں نے ذیان کی کارگزاری کے آثار پوری طرح مٹانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھنا کر رہ گیا۔ اسی وقت افشاں بیگم سے شکایت کی۔ عامل جلالی باوا کی ہدایت پہ ابیک کے بیڈ روم کا یہ حال ہوا تھا۔
افشاں بیگم نے فوراً صفائی کے لیے تین نوکرانیوں کو ابیک کے کمرے پہ مامور کیا۔ سب سامان سائیڈوں پہ کر کے کمرہ سرف سے مل مل کر دھویا گیا۔ اس کے بعد ڈھیروں ڈھیر ائیر فرشنیئر اسپرے کر کے وہ ناگوار بو ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ابیک کا موڈ خراب ہوا تھا۔ اب اس کا کمرہ واقعی اس کا کمرہ لگ رہا تھا۔ عود عنبر، لوبان اور دیگر عطریات کی حواس طاری تیز خوشبوئیں ختم ہوگئی تھیں۔
اتنے دن سے اس کے اعصاب میں شدید ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ آج قدرے سکون ہوا تھا۔
اس نے وارڈ روب کھول کر اپنا نائیٹ ڈریس نکالنا چاہا۔ مگر خالی الماری اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ اسے شدید قسم کا غصہ آیا۔ حالانکہ افشاں بیگم نے اس کا ایک اور شب خوابی کا لباس دھو کر استری کروا کے رکھوا دیا تھا۔ وہ اسے آج کا واقعہ بتا چکی تھیں کہ ذیان کے جن نے تمام کپڑے خراب کردئیے ہیں۔
وارڈ روب کھولتے ہوئے وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات بھول ہی گیا تھا کہ عزت مآب آتم توش نے اس کے پہنے جانے والے کپڑوں اور دیگر استعمال کی چیزوں کا ستیاناس کردیا ہے۔ حیرت انگیز طور پہ محترم جن نے ذیان کی کسی بھی چیز کو کوئی ہلکا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ ذیان کا بھاری عروسی سوٹ سلیقے سے تہہ کیا ہوا سب سے اوپری خانے میں پڑا تھا۔ دیگر کپڑوں کا بھی یہی حال تھا۔ ابیک نے اپنا شب خوابی کا لباس باہر نکالنا چاہا اس کے نیچے ذیان کی نائٹی پڑی تھی ابیک کے کپڑوں کے ساتھ وہ بھی باہر نکل آئی۔ اسے دیکھتے ہی ابیک کو اپنے شہید کیے جانے والے ارمانوں کا احساس ہوا۔ اس نے کپڑے نکال کر بیڈ پہ پھینک دئیے۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja