Episode 85 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 85 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ، ذیان کو لے کر افشاں بیگم کے پاس آئی تھیں۔ ذیان نے اتنے ہفتے بعد سسرال میں قدم رکھا تھا وہ بھی بالکل تندرست و توانا ہو کر وہ آتم توش کی قید سے آزاد ہوچکی تھی۔ ان کے لیے یہ خوشی بہت بڑی تھی۔ انہوں نے شکرانے کے نوافل ادا کر کے بہو کی نظر اتاری اور صدقے کے بکرے ذبح کروائے۔ ذیان سجی سنوری بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا تھا۔

ذیان سب کے ساتھ ہنس بول رہی تھی۔ گھر واپس آتے ساتھ ہی اس نے اپنے اور ابیک کے مشترکہ بیڈ روم کی سیٹنگ تبدیل کروائی۔ اپنے سارے کپڑے الماری میں رکھے۔ زیر لب گنگناتے ہوئے وہ بے حد مسرور تھی۔
افشاں بیگم نے گہری نگاہ سے اس کا جائزہ لیا۔ یہ وہی پہلے والی ذیان تھی جسے انہوں نے ابیک کے لیے پسند کیا تھا۔

(جاری ہے)

آتم توش اس کے اور ابیک کے درمیان سے ہٹ چکا تھا۔

دو دن بعد عتیرہ، ملک ارسلان، ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کو دوسرے شہر ایک شادی میں جانا تھا۔ انہیں تین چار دن وہاں قیام بھی کرنا تھا۔ پہلے افشاں بیگم تذبذب میں تھیں جائیں کہ نہ جائیں۔ اب ذیان ہنسی خوشی اپنے گھر واپس آچکی تھی تو انہوں نے تیاری شروع کردی۔ ان کے جاتے ہی ابیک نے آجانا تھا اس لیے ذیان کو ساتھ لے جانے کے لیے انہوں نے اصرار نہیں کیا۔
ملک ابیک شہر سے لوٹ آیا تھا۔ مگر وہ گھر آنے کے بجائے دوسرے گاؤں میں ایک دوست کے پاس رک گیا تھا۔ چوہدری عثمان اس کے خاص دوستوں میں سے تھا۔ وہ دونوں دوست چوہدری عثمان کے ڈیرے پہ تھے۔ ڈیرے میں چھ کمرے، تین باتھ روم کشادہ صحن اور برآمدہ اس کے علاوہ تھا۔ ان کمروں میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔
چوہدری عثمان شکار کا شوقین تھا۔
کچھ سال پہلے تک ملک ابیک بھی اس کا ساتھ دیتا رہا تھا لیکن جب سے وہ عملی زندگی میں مصروف ہوا تھا شکار و کار سب بھول گیا تھا۔
عثمان کے شہری دوست شکار کی غرض سے گاؤں آتے تو وہ انہیں اسی ڈیرے پہ ٹھہراتا تھا۔
چھ میں سے چار کمرے بطور بیڈ روم استعمال ہو رہے تھے۔ جبکہ ایک ڈرائنگ روم اور ایک گیسٹ روم کے طور پہ سیٹ کیا گیا تھا۔
ملک ابیک نے گھر میں کسی کو بھی اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی۔
اس نے عثمان کو بھی منع کردیا تھا۔ ابیک نے بہانہ بنایا تھا کہ وہ پرانی یادیں بغیر کسی مداخلت کے تازہ کرنا چاہتا ہے۔ عثمان نے یقین کرلیا تھا، ویسے بھی اس کے پاس یقین نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ ابیک اس کے پاس ڈیرے پہ تھا۔
ملک جہانگیر، ملک ارسلان، افشاں بیگم اور عتیرہ کے ہمراہ تیار ہو کر ملک محل سے جاچکے تھے۔
ملک ارسلان نے اپنے جانے کی اطلاع ملک ابیک کو کردی تھی۔ اس نے یقین دہانی کروائی تھی کہ رات سے پہلے پہلے گھر ذیان کے پاس پہنچ جائے گا۔
ارسلان چچا سے بات کرنے کے بعد ملک ابیک نے عثمان کوبتایا۔ اس کے ملازم ابیک کی گاڑی کا تیل پانی چیک کر رہے تھے۔
ملک ابیک اس پل اسی دن اسی ساعت کے انتظار میں تھا۔ ذیان سے دو دو ہاتھ کرنے کا ٹائم آگیا تھا۔
سب کے سامنے ابیک کو دیکھتے ہی اس کا جن جلال میں آجاتا تھا۔ دوروں میں بھی جان اور شدت بڑھ جاتی۔ وہ ذیان کو سب کی موجودگی میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔
لیکن آج اکیلے میں یہ کام اس نے آسانی سے انجام دے لینا تھا۔ قدرت نے یہ موقعہ بن مانگے فراہم کردیا تھا۔ اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت کے زمرے میں آتا۔ وہ جلد از جلد ملک محل پہنچنا چاہ رہا تھا۔
واپسی سے پہلے اس نے اپنے ہوشیار ملازم انور کو فون کر کے کہا کہ آج رات سب ملازمین کو کسی بہانے رہائشی عمارت سے دور رکھے۔ انور بہت تیز تھا اس نے اسی وقت سوچ لیا کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے۔ انور ساتھ والے گاؤں کا رہائشی تھا۔ شادی کے دس سال بعد اللہ نے اسے بیٹا عطا کیا تو اپنی بساط کے مطابق اس نے دل کھول کر خوشی منائی۔
اس نے بیٹے کا عقیقہ کرنا تھا۔
ملک ارسلان اور ملک جہانگیر خود اس کے گھر جا کر نومولود کو تحفے تحائف دے آئے تھے آج شام کو اس نے خود بھی گاؤں جانا تھا۔ ملک ابیک کی کال آنے سے پہلے وہ چھوٹی بی بی ذیان کے پاس اجازت لینے ہی جارہا تھا۔ اب کال آنے کے بعد اس نے اپنے پروگرام میں تھوڑی سی ترمیم کرلی تھی۔ ملک محل میں کام کرنے والے سب ملازمین کو اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوت میں شرکت کی دعوت دی جو اس نومولود بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں کی تھی۔
انور کی سب کے ساتھ بہت بنتی تھی۔ اس لیے جب ذیان سے اس نے بات کی تو اس نے بخوشی سب ملازمین کو دعوت میں شرکت کے لیے چھٹی دے دی۔ ایک رات ہی کی تو بات تھی۔ گیٹ پہ موجود دو دو گارڈ تھے خود عتیرہ کی طرف زیبو اور فریدہ تھیں جو گھر کی حفاظت کے نقطہٴ نظر سے انور کی دی جانے والی دعوت میں شریک نہیں ہوئیں۔ اب ذیان دو گارڈز کے ساتھ گھر میں اکیلی تھی، ملک ارسلان اور عتیرہ کی طرف زیبو، فریدہ کے علاوہ دو گارڈز بھی تھے۔
اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ ویسے بھی گارڈز پوری طرح مسلح تھے۔ ایک گارڈ گیٹ پہ تھا اور دوسرے وقفے وقفے سے گھر کے اندر کے چکر لگا رہا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھا کر اوپر بیڈ روم میں آگئی تھی۔ زیبو اور فریدہ نے اسے پیش کش کی تھی وہاں اس کے ساتھ رکنے کی مگر اس نے انکار کردیا کیونکہ گیٹ پہ چاق و چوبند گارڈ موجود تھے۔
رات دس بجے کا وقت تھا جب ملک محل کے گیٹ کے سامنے ملک ابیک کی گرے پجیرو رکی۔
گیٹ پہ موجود گارڈز نے اسے دیکھ کر زور دار سلام جھاڑا۔ گھر کا مالک آگیا تھا اب وہ دونوں مطمئن تھے۔ گھر کا رہائشی حصہ گیٹ سے کافی فاصلے پہ تھا۔ بیرونی حصے میں ہونے والی سرگرمیوں کا رہائشی حصے کے مکینوں کو باہر آئے بغیر علم ہونا مشکل ہی تھا۔
ملک ابیک نے گیٹ سے ہی ڈرائیور کو پیجیرو سمیت ڈیرے کی طرف روانہ کردیا۔
لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ رہائشی اندرونی عمارت میں داخل ہوا۔
اس کی چال میں ہمیشہ کی طرح وقار اور اعتماد تھا۔ سب اندرونی لائٹیں آن تھیں۔
دوسری منزل بھی روشن تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر اپنے بیڈ روم کی طرف دیکھا۔ کھڑکیوں پہ پردے گرے ہوئے تھے۔ نومبر کا آغاز تھا اس بار خلاف معمول بارشیں جلدی ہوئی تھیں اس لیے موسم اچھا خاصا خنکی لیے ہوئے تھا کھلی فضا میں تو گرم کپڑوں کے بغیر گھومنا پھرنا مشکل تھا۔
خوش آئند بات یہ تھی کہ اس کے بیڈ روم کا دروازہ ہلکا سا بھڑا ہوا تھا ذیان نے ابھی تک لاک نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی تک اندر نہیں گیا تھا اس لیے ذیان کی سرگرمیوں سے لاعلم ہی تھا۔
ابیک نے بہت آرام سے کوئی آواز پیدا کیے بغیر دروازہ کھولا۔ کمرے میں خوشگوار حرارت پھیلی ہوئی تھی باہر کے مقابلے میں اندر کا درجہٴ حرارت معتدل تھا۔ ذیان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ گود میں رکھے مصروف عمل تھی۔
اس کے لمبے بال کھلے تھے اور اوپری وجود تقریباً ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ دوپٹے سے بے نیاز بے تکلف آرام دہ حلیے میں تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس وقت ابیک آسکتا ہے۔ اس نے قدم بڑھائے اور اپنے پیچھے ہاتھ مار کر دروازہ بند کیا۔ آہٹ اور دروازہ بند ہونے کی آواز پہ ذیان نے نگاہیں اٹھائیں۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja