Episode 71 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 71 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال نڈھال انداز میں لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہیں وال کلاک پہ مرتکز تھیں جہاں دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ آج ملک جہانگیر کے بڑے بیٹے کی شادی تھی اس نے بہت اصرار سے انہیں مدعو کیا تھا۔ خود اپنے بیٹے ملک معاذ کے ساتھ شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے۔ معاذ انہیں بہت اچھا لگا تھا کیا تھا اگر وہ بے وقوف لڑکی ملک جہانگیر کے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو پسند کرلیتی۔
پر وہ ضدی لڑکی اپنی حماقت اور سرکشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر چھوڑ کر جانے کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی تھی۔ ملک جہانگیر نے جب وہ بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے ایک بار پھر رنم کے بارے میں اس کی واپسی کے بارے میں کافی دلچسپی سے پوچھا تھا۔ ابیک کی تو شادی ہو رہی تھی پر معاذ تو کنوارا تھا پڑھ رہا تھا اور ملک جہانگیر کے خیال میں احمد سیال کی بیٹی بھی پڑھ رہی تھی۔

(جاری ہے)

اگر انہیں علم ہوجاتا کہ جس لڑکی کے بارے میں وہ اس قدر شوق سے پوچھ رہے ہیں وہ گھر چھوڑ کر اپنی مرضی سے کہیں جا چکی ہے تو انہیں کیسا شاک لگتا وہ اسے بہو بنانے کا ارادہ ترک کردیتے جو معاذ کی پاکستان آمد پہ انہوں نے پھر سے باندھ لیا تھا۔ وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ رنم پڑھنے کے لیے ملک سے باہر گئی ہوئی ہے۔
احمد سیال بجھ کر رہ گئے تھے۔
طبیعت میں خرابی کی وجہ سے وہ شادی میں شرکت کرنے سے معذور تھے۔ اصل حقیقت صرف وہی جانتے تھے۔ رنم کے جانے کے بعد ان کا دل ہر شے سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ تب ہی تو دیرینہ دوست کے بلاوے پہ بھی وہ اس کے بیٹے کی شادی میں بھی نہیں جا رہے تھے۔
نیناں یعنی رنم کو کسی کی تیز نگاہوں کا احساس ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، ہرطرف شور و غل اور ہنگامہ تھا اتنے سارے لوگ تھے۔
ابیک اور ذیان کا نکاح ابھی نہیں ہوا تھا۔ کافی سارے مہمان ابھی نہیں پہنچے تھے۔ نیناں خوبصورت سوٹ زیب تن کیے عتیرہ اور افشاں بیگم کے ساتھ ساتھ تھی۔ اسے بہت بار احساس ہوا کہ کوئی گہری نگاہ سے اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ ہر کوئی دولہا، دلہن کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا ایسے میں پتہ چلانا ناممکن ہی تھا کہ کون اسے گھور رہا ہے۔
یہ معاذ تھا۔
نیناں کی تو آج تیاری ہی دیکھنے والی تھی۔ ایک بار پھر معاذ کو احمد سیال کی بیٹی یاد آگئی تھی۔ وہ ان کے گھر ان کی اکلوتی بیٹی کی ڈھیروں ڈھیر فوٹو دیکھ کر آیا تھا۔ نیناں، احمد سیال کی بیٹی سے کافی حد تک مل رہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ نیناں کا حلیہ عام سا تھا بال کچھ لمبے تھے اور پیچھے کی طرف سمٹے ہوئے تھے وہ احمد سیال کی بیٹی کی طرح فیشن ایبل اور طرحدار نہیں تھی۔
اگر نیناں کے بال اسٹیپس میں کٹے ہوتے شانوں پہ لہراتے وہ نیک کالر کی ٹاپ اور جینز میں ملبوس ہوتی ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہوتا زندگی سے بھرپور ہنسی اس کے لبوں پہ سجی ہوتی تو کوئی بھی تعین نہ کرتا کہ یہ دو الگ الگ شخصیت کی مالک لڑکیاں ہیں۔
معاذ سوچ رہا تھا دونوں لڑکیوں میں اتنی حیرت انگیز مماثلت اتفاقیہ ہے یا کوئی خاص بات ہے۔ احمد سیال کی بیٹی پاکستان سے باہر تھی اور یہ نیناں نہ جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی ایک اتفاقی نتیجے میں وہ عتیرہ چچی اور ملک ارسلان کو ملی تھی اس کی تفصیل وہ دونوں ہی بتانے سے گریزاں تھے بس بڑی دلسوزی سے بے سہارا بے آسرا کہہ کر اپنے گھر میں ٹھہرا رکھا تھا اور ادھر ابیک بھائی نے انڈسٹریل ہوم کے تمام امور اس کے سپرد کر رکھے تھے۔
بظاہر اس کے وجود سے کسی کو بھی شکایت یا تکلیف نہیں تھی۔ پر معاذ کے ذہن میں رہ رہ کے کوئی بات چبھتی تھی۔
پاکستان آنے سے کچھ ماہ قبل بابا جان نے اس کے لیے لڑکی پسند کی تھی یعنی ان کے دوست احمد سیال کی بیٹی۔ معاذ راضی نہیں تھا اس لیے ملک جہانگیر نے ارادہ بدل دیا اور ملک ابیک کے لیے دست سوال دراز کیا لیکن بعد میں اسے اطلاع ملی کہ وہ محترمہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلی گئی ہیں۔
ابیک کا نکاح اب ذیان سے ہونے جارہا تھا۔ بابا جان کے ساتھ جب وہ احمد انکل کے گھر گیا تو ان کی بیٹی کی فوٹو دیکھی جو شکل میں ہو بہو نیناں سے مشابہہ تھی۔ بابا جان نے وہاں بڑی دلچسپی سے احمد انکل سے ان کی بیٹی کی تعلیم اور پاکستان آمد کے بارے میں پوچھا۔ اسے خدشہ تھا کہ بابا جان کہیں پھر سے اس کے لیے وہاں بات نہ چلا دیں لیکن خیریت رہی انہوں نے یہ ذکر چھیڑا ہی نہیں اگر وہ ایسی کوئی بات اس سے کرتے تو اس نے سوچا ہوا تھا کہ وہ احمد انکل کی بیٹی سے خود روبرو ملاقات کی شرط لگائے گا۔
اب جب وہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر نیناں کو دیکھ رہا تھا تو اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے نیناں اصل میں وہ نہیں ہے جو خود کو ظاہر کر رہی ہے۔ وہ کوشش کرتی اپنی باتوں سے پڑھی لکھی نظر نہ آئے مگر اس کا لہجہ چغلی کھاتا کہ وہ جاہلوں میں سے نہیں ہے۔ اس کے کپڑے اور انداز عام ہوتا پر عام سے کپڑوں میں بھی وہ خاص لگتی۔
###
عتیرہ نے شادی میں بوا رحمت کی رشتے کی بھانجی صغریٰ اور اس کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا تھا۔
ان سے ذیان کی اداسی دیکھی نہیں جارہی تھی۔
ان کا خیال تھا کہ صغریٰ کو بوا رحمت کے ٹھکانے یا رہائش کے بارے میں ضرور علم ہوگا مگر وہ بھی انجان تھی۔ عتیرہ نے ملک ارسلان کے ذریعے اپنے طور پہ بوا رحمت اور زرینہ بیگم کے نئے گھر کا معلوم کرنے کی کوشش کی تھی جو ذیان اور ابیک کی شادی کی مصروفیات کی وجہ سے اتنی سرگرم اور پرجوش نہیں تھی۔
عتیرہ بوا رحمت سے ملنے کی متمنی تھی جنہوں نے اتنے سال ذیان کی دیکھ بھال کا خیال رکھا اور ایک ماں جیسی محبت ذیان کو دی وہ بوا کی محبتوں اور احسانات کا قرض اتارنا چاہ رہی تھیں۔ ان کی بدقسمتی کہ بوا عین وقت پہ غائب ہوگئی تھیں۔ ورنہ وہ ذیان کی شادی میں شریک ہوتیں تو وہ بہت خوش ہوتی۔ بوا کے نہ ملنے نے ہی تو اسے عتیرہ کے سامنے شکوے کرنے کی طاقت دی تھی اس نے دل کا سب زہر عتیرہ پہ انڈیل دیا تھا وہ سب کہہ دیا تھا جو اٹھارہ برس سے لاوا بن کر اس کے دل ہی دل میں پک رہا تھا۔
عام حالات وہ شاید ان سے یہ سب نہ کہہ پاتی۔ بوا کی اچانک گمشدگی نے اس کے دل پہ چرکا لگایا تھا۔
ذیان نے احساس سے عاری خالی دل خالی جذبوں کے ساتھ نکاح نامے پہ سائن کیے نیناں اس کی پشت پہ کھڑی اس کے حنائی ہاتھوں میں تھامے سنہری پین کو دیکھ رہی تھی جس سے ذیان نے نکاح نامے پہ سائن کیے تھے۔ ذیان کی پشت اس کی سمت تھی۔ نکاح کے لیے مولوی صاحب دیگر مردوں کے ہمراہ جن میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان اور دو اُن کے خاندان کے اور مرد تھے ذیان کے پاس آئے تو اسے بڑی سی چادر اڑھا دی گئی جس میں وہ سر سے پاؤں تک چھپ گئی تھی۔
ایجاب و قبول اور نکاح کے بعد وہ جاچکے تھے سب عورتیں عتیرہ کو مبارکباد دے رہی تھیں۔ نیناں وہاں کھڑی ذیان کی پشت کو گھور رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے لپک رہے تھے گھر کے افراد میں سے کوئی دیکھ لیتا تو برا مناتا۔ پر آج احتیاط کا دامن نیناں کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ ذیان کی طرف نفرت سے اٹھی جھلستی نگاہیں معاذ کے دماغ پہ نقش ہوگئی تھیں۔ وہ اس کا دیکھنا دیکھ چکا تھا، معاذ کے دماغ میں ایک لفظ گونجا تھا خطرہ۔ اس وقت بہت رش تھا سب عورتیں ذیان کو دیکھنے کے لیے ٹوٹی پڑی تھیں۔ معاذ کے پاس سوچنے کے لیے غور کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja