Episode 17 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 17 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

جدید اور ترقی یافتہ معاشرے میں خوف کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کہیں جدیدیت اور مادیت سے بیزار ترقی یافتہ اور خدا بیزار معاشرہ حقیقت کی طرف مائل ہو کر بے راہ روی کا راستہ ترک نہ کردے اور جدید ترقی یافتہ معاشرے کو عملی انسانی اور روحانی معاشرے میں بدل کر استدراجی ، مادی و سفلی رسومات کا خاتمہ نہ کردے ۔ 
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسان نے خدائی دعویٰ کیا اور مخلوق کو طاقت کے ذریعے مغلوب کرنے کی کوشش کی وہ عذاب الہٰی سے بچ نہ سکا اور اُسکا وجود صفحہ ہستی سے ہی مٹ گیا ۔
وہ پیغام جو غار حراسے خدا کا محبوب بندہ و نبی ﷺ لیکر اہل مکہ کے پاس آیا چند سالوں میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ آپ ﷺ کی پیدائش ،نزول وحی ، واقعہ معراج اور واقعہ شق القمر کی گونج ساری کائنات میں سنی گئی اور اہل فکر ونظرنے اسکا مشاہدہ بھی کیا ۔

(جاری ہے)

تاریخ ابن کثیر کے مطابق یہ چودھویں کی شب تھی کہ کفار مکہ کا ایک وفد ابوجہل کی قیات میں آ پ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ ﷺانگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دیں تو ہم اسلام قبول کرلینگے ۔

آپ ﷺ نے تبسم فرمایا اور اپنی مبارک انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو چاند دو ٹکڑے ہو کر تقسیم ہوا اور پھر واپس مل گیا ۔ یہ معجزہ نہ صرف کفار مکہ بلکہ دنیا بھر میں خوش قسمت انسانوں نے بھی دیکھا ۔ کفار مکہ نے تواسے جادو کہہ کر انکار کر دیا مگر روئے زمین پر چند خوش قسمت لوگوں نے اسے دیکھا اور پھر اس معجزے پرتحقیق کا عمل شروع ہو گیا۔ 
یہ وہ دور تھا جب ہند میں علم نجوم و حساب اپنے عروج پر تھا۔
ماہرین فلکیات اور ہندو جوگیوں اور جوتشیوں کو پریشانی لاحق ہوئی اور انہیں اپنا علم و مشاہدہ ادھورا اور ناقص ہوتا دکھائی دیا ۔ ہندوؤں کو عرب تاجروں سے معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں ایک ایسی ہستی کا ظہورہوا ہے جن کے اشارہ انگشت سے یہ معجزہ رونماہوا ہے۔ 
انڈین آفس لائبری لنڈن میں موجود دستاویز نمبر 173،152اور2807کے مطابق کیرالہ کے راجہ چکراورتی نے بھی شق القمر کا مشاہدہ کیا ۔
وہ حکومت اپنے بیٹے کے حوالے کر کے مکہ مکرمہ چلا گیا اور حضور ﷺ سے ملکر مسلمان ہوگیا۔ چکراورتی فرماسن نے اپنا اسلامی نام تاج الدین پسند کیا اور صحابیت کے درجے پر فائز ہوا۔ واپسی پر حضرت تاج الدین  کا اومان کی بندرگاہ ظفر پر انتقال ہوا۔ آپ کامزار اسی بندرگاہ پر موجود ہے۔ بعد میں حضور ﷺ کے حکم پر اصحاب رسول ﷺ کیرالہ آئے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
ان اصحاب  کے مزارات کیرالہ اور گردونواح میں موجود ہیں اور ہند میں اشاعت اسلام کی نشانیاں ہیں۔ حضرت تاج الدین  کے قبول اسلام کا ذکر دیگر تاریخوں میں بھی موجود ہے۔ ابن مستدرک میں حاکم نے حضرت ابو سعید خدری  کے حوالے سے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جناب سمع اللہ عزیز مہناس نے اپنی تاریخ ”ناگ سے نیلم تک “ میں ایسے واقعات قلمبند کیے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر اور ہند میں دین اسلام کی روشنی آپ ﷺ کے مکی دور میں ہی پھیل چکی تھی۔
آزادکشمیر کے ضلع نیلم کے تاریخی گاؤں سالخلہ کے قدیم قبرستان میں کچھ ایسی قبریں موجود ہیں جن کا رخ کعبہ شریف کے بجائے بیت المقدس کی طرف ہے۔ یقینا یہ قبریں مکی دور کی ہیں۔ اس گاؤں کے دوسرے قبرستان میں اصحاب رسول ﷺ کی چار قبریں بھی موجود ہیں۔سالخلہ کے بیان میں ایلن بیٹس نے گزئیٹر آف کشمیر کے صفحہ 327پر لکھا ہے کہ ۔ 
There is a masjid in the village and shrine of charyar, or four companion of Muhamamd (Sahaba Kram)
صلح نامہ حدیبیہ کے بعد آپ ﷺ نے ساٹھ سے زیادہ خطوط مختلف بادشاہوں اور طاقتور قبائلی سرداروں کے نام لکھے۔
مشہور چینی سیاح ہیوگل نے اپنے سفر نامہ کشمیر و پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک خط کشمیر کے راجہ وین کے نام بھی لکھا تھا ۔ کشمیر کی تاریخ میں کسی راجہ وین کا ذکر نہیں ملتا ۔ آپ ﷺ کے ابتدائی دور اور نزول وحی کے وقت کشمیر پر راجہ رنادت کی حکمرانی تھی۔ رنادت نرم مزاج اور خدا ترس حکمران تھا۔راجہ وین کون تھااس بات کا ابھی تک کوئی تاریخی ثبوت نہیں مل سکا۔
اگرآپﷺکاخط رنادت کو ملتا تو یقینا وہ مسلمان ہو جاتا ۔ رنادت کی نرم مزاجی اور خدا ترسی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حق کی تلاش میں رہتا اور اکثر تنہائی میں بیٹھ کر مراقبہ کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ آپﷺکا خط کسی قبیلے کے سردار کے نام ہو جسکا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ تاریخ ابن کثیر کے مطابق کشمیر کے گاؤں اراشی کا ایک شخص حضور ﷺ کی آمد اور اعلان نبوت کا سنکر مکہ چلا گیا ۔
یہ وقت تھا جب مکہ میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم تھی ۔ کشمیری باشندہ جس کا نام معلوم نہیں ہوسکا سب سے پہلے ابوجہل سے ملا اور آپ ﷺ کے متعلق پوچھا ۔ دشمن رسول ﷺ نے مسافر کو ڈرایا دھمکایا اور اُ سکی سواری کا اونٹ اور سامان چھین لیا۔ بے سروسامانی کی حالت میں یہ شخص حضرت علی  سے ملا تو آپ نے اسے مسافر سمجھ کر پناہ دی اور مہمان نوازی کی ۔
کشمیری غریب الوطن کو جب تسلی ہوگئی کہ حضرت علی  سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا تو اُس نے اپنے وطن کشمیر اور مکہ آمد کی وجہ بتائی ۔ آپ  نے مسافر کو فوراً حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔ مسافر صحابی  کا احوال سن کر آپ ﷺ ابوجہل کے گھر گئے اور کشمیری صحابی  کا سامان اور اونٹ واپس کرنے کا حکم دیا۔ ابوجہل نے حکم کی تعمیل کی اور فوراً سامان اور اونٹ واپس کر دیا۔
بعد میں مکہ کے سرداروں نے وجہ پوچھی تو ابوجہل نے کہاکہ جتنے دن یہ اونٹ میرے پاس تھا یوں لگتا تھا کہ جیسے اونٹ مجھے کھا جائے گا۔ میں پہلے سے ہی خوفزدہ تھا۔ جونہی محمد ﷺ تشریف لائے میں نے بلا حجت اونٹ واپس کر کے اپنی جان بچائی۔ سمع اللہ عزیز مہناس کے مطابق ان صحابی رسولﷺکا مزار نیلم اورہزارہ کی سرحد پر واقع گاؤں پنچور میں ہے اور یہ ابتدائی دور کے پانچویں صحابی  ہیں جن کے مزارات وادی نیلم میں واقع ہیں۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja