Episode 48 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 48 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 اگر ہم اپنے ملک کے قارونوں کا نسب دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی علمی ، عقلی ، دینی ، روحانی اوراعلیٰ انسانی اقدار کے حامل گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ مولانا مودودی  لکھتے ہیں کہ کردار کی سب سے اچھی تعریف سیّد قطب شہید نے کی ہے۔ سیّد قطب شہید فرماتے ہیں کہ شخصیت کی عمدہ مثال پھول اور کردار خوشبو ہے۔ لیڈر ، قائد ، رہبر اور مصلح پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔
اُن کی آمد و اظہار سے معاشرہ مہک اُٹھتا ہے اور اُن کے کردار کی خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے۔
مولانا عبداللہ فرشی اپنی تصنیف ”کشمیری ہنرمند“ میں لکھتے ہیں کہ بادشاہ کا حسب و نسب رعایا کے مقدر سے منسلک ہوتا ہے۔ رعایا پرور بادشاہ مال وزر کا نہیں بلکہ علم کا بھوکا ہوتا ہے۔ وہ ہنرمندوں اور علماء کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ اُس کی رعایا علم وہنر کی قوت سے خوشحال ہو ۔

(جاری ہے)

وہ رعایا کی خوشی اور خوشحالی سے اطمینان قلب حاصل کرتا ہے ۔ قرآن کریم کی سورة الحجرات کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ لوگوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر پہچان کے لیے اُن کے قبیلے اور ذاتیں یعنی حسب و نسب کا سلسلہ رکھا۔ اللہ کے ہاں عزت اُسی کی ہے جس کا ادب بڑا ہے ۔ ذات برادری یا قبیلہ محض علامت ہے ۔
وہ حضرت امام غزالی  ، حضرت فرید الدین عطا ر اور دیگر علمأ و حکمأ کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علم وفن کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہونے والی ہستیاں اپنے قبیلے کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ کے نزدیک بلند درجہ اسی کا ہے جو باادب اور متقی ہے۔ اگر کوئی گھرانہ یا قبیلہ اللہ کے بیان کردہ اوصاف سے مزین ہے تو یقینا اُس کا رتبہ انسانوں میں بھی بلند ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے قبیلے کی اعلیٰ روایات پر کاربند معاشرے اور ریاست کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے والا نہ ہو۔ 
آجکل کے دور میں کچھ لوگ معمولی حیثیت سے اُٹھے اور حرام کی دولت کے ناجائز طریقوں سے انبار لگالیے۔ فرعونیت کی یہ حالت کہ عدالتیں اور حکومتیں اُن کی مرضی سے چلنے لگیں اور عالمی سطح پر اُن کی پذیرائی ہونے لگی ۔
جج، جرنیل ، صحافی ، دانشور اورسیاستدان اُن کی مراعات سے مرغو ب ہوئے اور قدموں میں بچھ گئے ۔لوٹی ہوئی اور حرام کی کمائی سے ان لوگوں کے شفاخانے اور لنگر خانے چلنے لگے تودرباروں پر بیٹھے خلیفے ، متولی اور سجادہ نشین اُن کے دروں پر سوالی بن کر آگے ۔ یہ لوگ قانون سے مبرا ہوئے اور ریاست کے اندر کئی ریاستیں بن گئیں جہاں پاکستانی پولیس اور پریس کا داخلہ بند ہو گیا ۔
ایک دانشور نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ وقت کے حاتم طائی اور عوام کے خدمت گار ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہو تے ہوئے خد ا سے آس توڑ کر ان لوگوں سے اُمیدیں باندھ چکے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق حضرت علی  سے کسی نے پوچھا کہ کیا حرام کی دولت سے صدقہ و خیرات جائز ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی کہ کسی نے کھانے کی ایک دیگ چڑھائی اور پھر اُس میں چند قطرے پیشاپ ڈال دیا۔
پکانے والے کا حرام مال تو تھا ہی مگر کھانے والے بھی حرام میں شامل ہو گئے ۔ 
مشہور کشمیری حکمران راجہ رنادت کا حکم تھا کہ ریاست اور عوام کو لوٹنے والے سے مال چھین کر خزانے میں ڈال دو اور عوام کا مال انہیں واپس کر دو۔ لوٹنے والے کو زندہ جلا دو۔اگر کوئی شخص اس کی حمایت کرے تو اس کی زبان کاٹ دو ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ عدالتیں ایسے ڈاکوؤں کو حیلے بہانوں سے ڈھیل دیتی ہیں اور صحافی ان کی زبان بنکر اُن کی شان میں کالم اور کتابیں لکھتے ہیں۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja