Episode 74 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 74 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

12اکتوبر1947ئکے دن مقامی لوگوں نے جنگ آزادی کشمیر کا اعلان کیا جو31دسمبر1948ءء تک یعنی 15ماہ جاری رہی۔ 24اکتوبر 1947ءء کے دن آزادکشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا مگر مجاہدین نے جنگ اپنے طو رپر جاری رکھی۔ یہ جنگ عملاً 1950ءء تک کسی نہ کسی صور ت جارہی۔ پاکستان آرمی نے مجاہدین کو آزادکشمیر ریگولر فورس کا حصہ بنا کر تنظیم سازی کی اور ہر محاذ پر باقائدہ کمانڈر تعینات کر دیے۔
 
اسی دوران مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں حالات کشیدہ ہوتے رہے جس کی پشت پناہی بھارت اور افغان حکومت کر تی تھی۔ 1965ئاور1971ءء کی پاک بھارت جنگوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ حال ہی میں مکتی باہنی کے خالق اور پاکستان کے دشمن اور غدار لیفٹیننٹ کرنل (ر)شریف الحق دالم کی تصنیف۔ ”Bangladesh Untold Facts“ سامنے آئی جسے جمہوری پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس کتاب کا اُردو ترجمہ رانا اعجاز احمد نے" پاکستان سے بنگلا دیش ،ان کہی جدوجہد" کے نام سے کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام فرخ سہیل گوئیندی نے کیا اور ہزاروں پاکستانیوں کے دلوں پر لگے زخموں پر اپنی دانش کا زہر چھڑک کر انہیں پچاس سال بعد پھر سے تازہ کر کے اپنے علم کا مینار بلند کرنے کی کوشش کی۔ فرخ سہیل گوئیندی نے مصنف کی حب الوطنی کا بینڈبجاتے ہوئے اسے عظیم سپاہی تو لکھ دیا مگر یہ لکھنا بھو ل گیا کہ وہ غداروطن ، را کاایجنٹ ، مجیب الرحمن کا ساتھی اور ہزاروں پاکستانی فوجیوں ، سویلین عورتوں اور بچوں کا سفاک قاتل اور انسانیت کا مجرم ہے۔
سر مئی عقاب کے نام سے کسی میجر آفتاب نے بحریہ ٹاؤن لاہور سے غدار وطن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جب ہماری ایک پوسٹ پر حملہ ہوا تو پتہ چل گیا کہ ایسا کام شریف الحق ہی کر سکتا ہے۔ میجر آفتاب نے اس انداز سے دالم کی بہادری کا قصہ لکھاجیسے شہید ہونیوالوں سے اُسکا کوئی تعلق نہ تھا۔ کیا یہ اُن شہیدوں کی اولادوں کے لیے ایک سانحہ نہیں کہ پاک فوج کی وردی میں ملبوس رہنے والا نام نہاد میجر آفتاب ایک ایسے شخص کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا ہے جس نے ملک اور اپنے حلف سے غداری کی اور بھار ت جا کر مجیب نگر آباد کیا اور پھرمکتی باہنی کو بھارت کی مدد سے تربیت دیکر اپنے ہی ساتھیوں پر یلغار کر دی۔
افسوس کہ میجر آفتاب جیسے نہنگ قوم بھی خاکی وردی میں ملبوس رہے اور پھر اسی وردی کی توہین کرتے ہوئے ایک غدار کے ہمنوا بن گئے ۔ آخر میں میجرآفتاب نے کچھ فائرفائیٹنگ بھی کی اور کرنل دالم کو حالات کے حوالے کرتے ہوئے اسے بیگناہ ثابت کرنے کے لیے لفاظی سے کام لیا ۔مگر اسکا اصل چہرہ اور دل کی آواز سرمئی عقاب ہی ہے ۔ کسی جگہ لکھا تھا کہ اوریا مقبول جان نے بھی اس تحریر کو پسند کیا اور مصنف کی کاوش کو سراہا ہے۔
دیکھا جائے تو ایسی تحریر اور ان تحریروں کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کے دل و دماغ ایک جیسے ہیں۔ وہ اپنی شیر وانیوں پر ہلال پاکستان ، ستارہ پاکستان اور پرائیڈ آف پرفارمنس کے تمغے توسجاتے وہیں مگر دلوں کی میل کبھی قلم سے اور کبھی منہ سے اگلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میجر آفتاب نامی دانشور کا نام پہلی بار دیکھا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ نہ جانے کتنے آفتاب اور دالم مقدس خاکی میں ملبوس ہو کر بھی وطن کی خاک سے نفرت کرتے رہے۔ انوار ایواب راجہ کا مضمون ”وردی کا ڈی این اے “ پڑھ کریوں لگا جیسے وردی کا ڈی این اے کچھ بد بختوں کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔ وردی کا ڈی این اے مقدس ہے اور مجرم اس کا حق ادا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja