Episode 39 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 39 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 سوال یہ ہے کہ کیاہماری دانش، علم اور وطن پرستی محض کھیل تماشہ ہی ہے۔ دانشور اور صحافی لاکھو ں کی تعداد میں نہیں ہوتے بلکہ چند گنے چنے ، سنجیدہ اور مستقبل پر نظر رکھنے والے لوگ ہو تے ہیں۔ آجکل ٹیلی ویژن سکرنیوں پردانشوروں کی اتنی بھیڑہے کہ دانشوری اور پھکڑ بازی میں فرق کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے ۔ امام غزالی  اور ابن خلدون کے فکر و فلسفہ پر مغربی محقیقین نے سنجیدگی سے کام کیا اور میکا ولیّن سیاست کو چھوڑ کر علم ، ہنر ، تحقیق اور یکجہتی کی رائیں اپنالیں ۔
ڈنگ ژیاؤ پنگ نے لاؤزے اور کنفیوشس کی تعلیمات کا پھر سے اجر أکیا اور دنیا کے سب سے بڑے یتیم خانے چین کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے قریب لاکھڑا کیا۔ بھارت چانکیائی سیاست کا مقلد ہے اور ساری دنیا کو اپنی سازشوں کی لپیٹ میں لیکر نہ صرف اکھنڈبھارت بلکہ اکھنڈورلڈ بنانے کی راہ پر گامزن ہے ۔

(جاری ہے)

امریکہ ، روس، چین ، فرانس، جرمنی، برطانیہ ، سعودی عرب ، خلیجی ریاستیں اور اسرائیل کھربوں ڈالر بھارت میں انوسٹ کر رہے ہیں چونکہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے۔

دیکھا جائے تو آج دنیا بھر کی استدراجی قوتوں کے سامنے پاکستان تنہا کھڑا ہے۔ اندرونی ، بیرونی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی یلغار اپنی جگہ جاری ہے اور بھارت امریکہ ، اسرائیل اور افغانستان کی مدد سے جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے۔ ملکی میڈیا کا بڑا حصہ بھارت اور امریکہ نواز ہے اور پوری قوت سے منفی پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ میڈیااور بڑی سیاسی جماعتوں کا ھدف فوج ، عدلیہ اورریاست پاکستان ہے ۔
جو سیاستدان ٹیلی ویژن چینلوں پر آکر ملک کی معاشی بتا ہی کا ذکر کرتے ہیں کوئی دانشور صحافی ان سے نہیں پوچھتا کہ ایک سال پہلے آپ کی حکومت تھی توآپ اس نظام کو کیسے چلا رہے تھے ۔ میاں شہباز شریف الیکشن سے پہلے اپنی تقریروں میں قسمیں کھا کرکہتے تھے کہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملکی خزانہ نہ نکالا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ پھر فرماتے تھے اس کرپٹ شخص کو لاڑ کا نہ کی گلیوں میں گھیسٹوں گا اگر نہ گھیسٹا تو میر نام شہباز شریف نہیں ۔
عمران خان نے بھی آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے سمیت روائیتی پاکستانی سیاست کو اپنایا اور عوام کو وہ سبز باغ دکھلائے جنہیں حقیقت میں بدلنا ممکن ہی نہیں۔کیا ایک محب وطن پاکستانی میڈیا اور ہر دور میں اس ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاسی خاندانوں اور اُن کے درباریوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ عمران دشمنی میں فوج اور ملک کو منفی پراپگینڈے کی بھینٹ چڑ ہا کر اغیار کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کریں۔
پاکستانی قوم کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ ان شاہی گھرانوں کی اصلیت پر نگاہ رکھیں اور ان کے بد ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک سنجیدہ عوامی پلیٹ فارم پر جمع ہوں ۔ آخر یہ نیم خوابیدہ قوم حکمران خاندانوں سے کیوں نہیں پوچھتی کہ کئی عشروں سے آپ حکومت میں رہ کرسوائے قرض اور کرپشن کے قوم کے لیے کیا اثاثہ چھوڑ کر گئے ہیں جس کا اب حساب مانگ رہے ہیں ۔
کوئی دانشور اینکر اپنے میزبانوں سے کیوں نہیں پوچھتا کہ مریم اور بلاول کے پاس ملک کی معاشی حالت درست کرنے ، امن وامان کی بحالی اور غربت کے خاتمے کا کیا منصوبہ ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد وہ آٹھ ماہ میں سب کچھ درست کر سکتے ہیں؟ یقینا ایسا ممکن نہیں اور حکمران خاندانوں نے خاص منصوبہ بندی سے ملک اور قوم کو اس حالت تک پہنچایا ہے اور اُن کے ارادے بیرونی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک اور ہولناک ہیں۔
وہ چاہتے کہ پاکستان خطے میں بھارت سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی باجگزار ریاست بن کر رہے۔ اسکا اٹیمی دفاعی نظا م لپیٹ دیا جائے اور فوج کا رول سرمونیل ہو۔ جگنو محسن ، نجم سیٹھی ، امتیا زعالم اور ان کے مریدین کے خیالات سے کون واقف نہیں ۔ان اصحاب علم و قلم کی دونوں شاہی خانوادوں تک رسائی ہے اور میاں نواز شریف کی پالیسوں پر ان کا گہر ااثر ہے۔
حال ہی میں جنا ب زرداری او ر بلاول نے پی ۔ٹی ۔ایم کے وفد سے ملاقات کی اورفرمان اللہ کا کڑ نے دی نیشن میں لکھا کہ پی۔ ٹی۔ ایم کوہ سلیمان کے دونوں اطراف بسنے والے پختونوں کی آواز ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جو کچھ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کے سربراہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے اُس میں کوئی حقیقت نہیں ۔ بین السطور مضمون نگارنے تسلیم کیا ہے کہ سندھی ،بلوچی اور پختون عدم تحفظ کا شکار ہیں اور پنجابی غلبے سے نجات چاہتے ہیں ۔
حیرت ہے کہ حب الوطنی کے دعویدار کسی دانشور صحافی نے جناب زرداری سے نہیں پوچھا کہ کیا پی ۔ٹی۔ ایم کی شکل میں ایک نئی الذوالفقارمعرض وجود میں آ چکی ہے اور کیاآپ کسی عدالتی فیصلے کی زد میں آنے کے بعد اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔اگر ایسا نہیں تو آپ اس تنظیم سے کس بنیاد پر روابط بڑھا رہے ہیں ۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja