Episode 45 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 45 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

پختون قبائل میں خوشی کے موقع پر نشانہ بازی کا مقابلہ اور بُزکشی عام تھی۔ پوٹھوہار کے علاقوں میں کبڈی ،بینی،بھگدر، نیزہ بازی اور گھڑ دوڑ کے مقابلے ہوتے ۔ اگربارات دور سے آتی تو سارا گاؤں ملکر بارات کی رہائش کا انتظام کرتا اور ساری رات بیت بازی کے مقابلے ہوتے ۔ یہ ساری رسمیں خوانین، راجگان ، چوھدریوں اور علاقہ کے ملکوں کے لیے مخصوص تھیں۔
عام لوگ جنہیں کمی یا خیراتی کہا جاتا ان رسومات سے مبّرا تھے ۔ گو کہ انگریز نے مارشل ریس کا کانسپٹ متعارف کروایا مگر اس سے پہلے بھی ساری دنیا میں یہی نظام کسی نہ کسی صورت میں رائج تھا ۔ سیاست ہو یا جنگ و جدل، چند مخصوص قبیلے ہی معتبر سمجھے جاتے اور وہ ہی معاشرے میں عدل کا توازن برقرار رکھتے تھے۔ 
ہندوستان میں راجپوت قبیلے معتبر اور معزز سمجھے جاتے تھے اور انہیں حکمرانی اور سپہ سالاری کا حق دیا جاتاتھا۔

(جاری ہے)

نسل در نسل یہ روایت چلتی رہی اور نظام سلطنت بھی برقرار رہا ۔ جوں جوں دین اسلام کی روشنی پھیلتی گئی فرسودہ رسمیں مٹ گئیں ۔ تقویٰ ، پرہیز گاری، عدل ومساوات بزرگی اور برتری کا معیار ٹھہرا تو بہت سی فرسودہ روایات کا خود ہی خاتمہ ہو گیا ۔البتہ بہادری ، دلیری ، جرأت وبیباکی کا عنصر اپنی جگہ قائم رہااور قبیلے اور برادریاں اپنی اچھی روایات کو آگے بڑھاتی رہیں۔
 
انسانی نفسیات کا جائزہ لیں تو کئی قبیلے ، برادریاں اور قومیں متعصبانہ عصبیت کی حامل ہیں اور بحیثیت مجموعی معاشرے اور ریاست میں بدامنی اور خلفشار پھیلانے کا موجب بنتی ہیں۔ علاقائیت ، لسانیت ، فرقہ واریت اوردوسرے قبیلوں سے نفرت ان کی گھٹی میں پڑی ہے اور وہ ہر صورت میں اسکا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ موقع مل جائے تو کبھی دین ، کبھی علاقائیت اور کبھی ذاتی بغض و نفرت کی بنیاد پر قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
ایسے لوگ ہر وقت ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بننے کو تیار رہتے ہیں چونکہ اُن کی زندگیوں کا مقصد ہی تفرقہ بازی اور فساد پھیلانا ہے۔ 
یہ طبقہ کوئی ان پڑھ ، جاہل یا اجڈ لوگوں کا نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں وکیل ، جج، ممبران اسمبلی ، اعلیٰ حکومتی عہدیدار، فوجی افسر، ڈاکٹر، انجینئر اور بظاہر اعلیٰ علمی شخصیت شامل ہوتی ہیں۔
 
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماء، سیاستدان اور اُن کے پیروکار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے جن کے نظریات پر کار بند ایک ٹولہ آج بھی ملک دشمنی کے مشن پر کام کر رہا ہے جنہیں دنیا بھر کی شیطانی قوتوں کی مالی ، سیاسی اور مادی مدد حاصل ہے ۔ ایسے لوگوں کا اگر ڈی این اے کیا جائے تو ان میں خاندانی اوصاف اور اعلیٰ نسبی کے جرثوموں کی کمی ہوگی۔
ان کی عصبیت تعصب ، بغض اور فتنے سے جڑی ہو گی نہ کہ اعلیٰ نسبی ، فراخدلی ، جرأت ایمانی اور اعلیٰ انسانی اقدار سے کچھ تعلق ثابت ہوگا۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ ایسے لوگ اپنی زندگیاں شیطانی حربوں ، انسان دشمنی اور نفرت کی آبیاری میں گزار دیتے ہیں اور جو لوگ ان کے پیروی میں شیطانی راستوں پر چل نکلتے ہیں وہ ہمیشہ نفرت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور اپنا بغض اپنی اولا دوں کو ورثے میں دے جاتے ہیں ۔
 
قرآن کریم میں واقع بدر کے ذکر میں فرمایا کہ شیطان نے اہل مکہ کو طیش دی ، ورغلایا ، تکبر کے گھوڑے پر سوار کیا اور بدر کے میدان میں لا کھڑا کیا اور پھر کہا اب تم جانو اور تمہارا کام میرا مشن اتنا ہی تھا اس سے آگے میں تمہاری کوئی مد نہیں کر سکتا۔ 
شاید ایسے منفی کرداروں کی جانچ کی کوئی مشین فی الحال ایجاد نہیں ہو سکی جو ان کے حسب ونسب کا پتہ دے مگر فقرأ اور اولیأ نے قرآن کریم اور روحانی علم کے ذریعے ان کی نشاندہی کی ہے۔
حضرت میاں محمد بخش  کافرمان ہے کہ جسطرح تمے کی جڑ ، پھل ، پتے اور بیچ کڑوے ہوتے ہیں اسی طرح بدکردار ، بد اعمال ، بددیانت، حاسد اور فتنہ پرداز لوگوں کی اولادیں اللہ کی رحمت وہدایت سے محروم بد اعمالی کا پھل ہوتی ہیں۔ 
شیخ سعدی فرماتے ہیں:۔
ابر اگر آب زندگی بارد 
ہر گز از شاخ بید برنخوری 
با فرد مایہ روزگا ر مبر 
کز ئنی بور یا شکر نخور 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja