Episode 12 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 12 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

کنشک نے پٹنہ کے بجائے اپنا درالحکومت پرشاپور (پشاور ) منتقل کیا جس کی وجہ سے موجودہ پنجاب ، پختونخواہ، سندھ اور کشمیر میں ترقی و تجارت کی نئی رائیں کھل گئیں۔ دریائے سند ھ پر نئے پتن تعمیر کروائے اور تاجروں کی آسانی کے لیے بجروں کا انتظام کیا۔ ہنڈ اور موجودہ حضرو کے مقام پر قلعے تعمیر کروائے اور پتن کو وسعت دی۔ کشن دور میں سرینگر کے نواح میں کنزل وان کے مقام پر عالمی بدھی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پانچ سو بدھ علماء اور تین ہزار مصنفین اور محقیقین نے شمولیت اختیار کی ۔
یہ کانفرنس چھ ماہ تک جارہی رہی اور علماء اور دانشوروں نے اہم فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کی روشنی میں مہاوی بھاش ، یعنی کتاب عقل و علم مرتب ہوئی اور مصنفین نے اس علمی دستاویز کی تین ہزار جلدیں مرتب کیں ۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے اہم فیصلوں اور مستقبل کی پشین گویوں کو تانبے کی الواحوں پر کندہ کیا گیا اور یہ الواحیں پتھر کے صندوقوں میں ڈال کر ایک تہہ خانے میں محفوظ کر دی گئیں ۔

تہہ خانے پر اسٹو پا تعمیر کیا گیا اور اسی طرح مزید اسٹوپے وادی نیلم اور ملحقہ سوات کے علاقوں میں بھی تعمیر کیے تاکہ اصل اسٹوپے میں بند اہم فیصلے محفوظ رہیں ۔ ماہرین آج تک اس تہہ خانے کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں جبکہ بدھ دستاویز ات اور پتھروں پر کندہ اقوال میں اسکا ذکرموجود ہے۔ڈوگرہ دور میں گلگت سے ملنے والا بھوج پتروں کا علمی خزانہ بھی تحقیق کا محتاج ہے جسے غدار عبداللہ نے تحریک آزادی کے دوران بھارتی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔
 
کنشک 45سال تک حکمران رہا ۔123ءء میں کنشک کے انتقال کے بعد اُسکا بیٹا ہوشک اور پھر پوتا چوشک برسر اقتدار رہے۔ 178ءء میں چوشک کے انتقال کے ساتھ ہی کنشک دور کا اختتام ہو ااور بدھ مت کا زوال شروع ہوگیا ۔ کنشک کی حکمرانی کا مضبوط گڑھ موجودہ پاکستان ہی تھا۔ کنشک نے جنوبی ریاستوں پر نہ یلغار کی اور نہ ہی انہیں باجگزاربنانے کی کوشش کی۔
کشمیر کنشک دور میں انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ اور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ کشمیر میں روحانیت کے بھی کئی مراکز بن گئے جہاں بدھ راہب مراقبوں میں مشغول رہتے۔ ایک طرف تو یہ مذہبی پیشوا عبادت و ریاضت پر توجہ دیتے اور دوسری طرف کشمیر کے جنگلوں اور پہاڑوں سے ایسی نایاب جڑی بوٹیاں تلاش کر کے عوام الناس کے لیے نئی دوائیں اور عرقیات کشید کرتے ۔
کنشک دور میں وید کی علوم پر کئی کتابیں لکھی گئیں اور بدھ مبلغین کے ذریعے ساری دنیامیں بھجوائی گئیں۔ 
کنشک کے بعدہُن قبائل نے سر اٹھایا اوراشوک اعظم کی سلطنت کئی حصو ں میں تقسیم ہوگئی ۔ نئے راجواڑ ے اور ریاستیں بن گئیں اور قتل و غارت گری کا نہ رکنے والا سلسلسہ شروع ہوگیا۔ 
سفید ہُن حکمران مہر گل انتہائی سفاک اور بے رحم تھا ۔
موجودہ پنجاب اور ملحقہ علاقوں پر ظلم وجبر کی وجہ سے مختلف ریاستوں کے راجگان نے اُسے مل کر شکست دی تو مہر گل نے سکالا (سیالکوٹ ) کے قلعے میں پناہ لی۔ بعد میں وہ کشمیرچلا گیا اور وہاں کے راجہ سے پناہ کی درخواست کی۔کچھ عرصہ وہ راجہ کا مہمان رہا اور پھر موقع ملتے ہی راجہ اور اس کے خاندان کو قتل کرنے کے بعد اقتدار پر قابض ہو گیا ۔ مہر گل بدھ مذہب کا دشمن تھا۔
مہر گل نے کشمیر ، پنجاب ، افغانستان اور چینی ترکستان پر یلغار کی اور بدھوں کا قتل عام کروایا۔ شادرا یونیورسٹی سمیت بدھ تعلیم کے مراکز مسمار کروائے اور عدل و انصاف کے محکمے ختم کر دیے۔ پنڈت کلہن نے اسے انسانیت کا دشمن اور درندہ صفت انسان لکھا ہے۔ وہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہ کرتا تھا۔ کشمیری آج بھی اُسے تری کوٹہ یعنی تین کروڑ کاقاتل کہتے ہیں ۔
مہرگل تاریخ کا بھیانک اور انسان دشمن کردار ہے جسکا ذکر کشمیری اور افغان مورخین کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا۔ مہر گل نا قابل شکست تھا۔ ہندوستان سے چین ، ایران اور سنٹرل ایشیأ کا کوئی حکمران اُسکا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ تبت کی جانب سے ایک درویش سرینگر آیا تو مظلوم لوگ فریاد لیکر درویش کے پاس گئے ۔ دورویش نے بات سنی اور ایک خنجر لیکر زمین میں گاڑھا اور واپسی کی راہ لی ۔
اُسی رات سن 630ءء میں مہرگل نے زہر آلود خنجر اپنے سینے میں گھونپ کر خود کشی کر لی اور واصل جہنم ہوا۔ 
سفید ہُن وسطی ایشیا سے اُٹھے اور آندھی کی طرح بڑھتے ہی چلے آئے۔ یہ لوگ منگول نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ سب سے پہلے افغانستان پر حملہ آور ہوئے ۔ 500ءء تک ساری گندھا را سلطنت پر قابض ہوئے اور بدھ مت کے آثار مٹا دیے ۔ پچھلے صفحہ پر مہر گل ہن کا ذکر ہو چکا ہے۔ مہرگل پنجا ب کے بعض اضلاع کا حاکم تھا جس کا صدر مقام سکالا (سیالکوٹ ) تھا۔ ہُن موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے وسیع علاقوں پر قابض تھے اور چالیس ریاستوں سے خراج وصول کرتے تھے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja