Episode 71 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 71 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

پاکستان میدان جنگ میں 

علامہ محمد اسد اپنی تصنیف ”روڈ ٹومکہ“ میں لکھتے کہ دلی پہنچ کر میں نے علامہ اقبال  سے رابطہ کیا تو علامہ نے دلی آنے کی وجہ پوچھی۔ بتایا مشرق بعید جانے کا ارادہ ہے ۔ میں جس جرمن اخبار کے لیے کام کرتا ہوں وہ چاہتے ہیں کہ میں اس خطہ کے ممالک پر مفصل تحریر لکھوں۔
علامہ اقبال  نے کہا اب کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ دلی میں مسلم لیگ کے دفتر میں بیٹھ کر کام کرو ۔ فیصلہ ہوچکا ہے اور پاکستان بن کر رہے گا ۔ علامہ اسد لکھتے ہیں کہ اقبال کا حکم سُن کر میں حیران ہو گیا۔ تب مسلم لیگ نوابوں کی جماعت مشہور تھی جو بڑی بڑی گاڑیوں اور بھگیوں پر بیٹھ کر گھروں سے نکلتے او ر عالیشان محل نما حویلیوں میں رہتے تھے۔

(جاری ہے)

ہندو اور کانگرسی رہنما لفظ پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے اور عام دیہاتی مسلمان قائداعظم  اور پاکستان کے نام سے ہی واقف نہ تھے۔ 
علامہ اقبال  بیمار تھے اور لاہور تک محدود تھے مگر سینکڑوں لوگ انہیں ملنے جاتے اور یہی خبر لیکر آتے کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہو گیا ہے اورپاکستان بن کر رہے گا ۔
چوہدری غلام عباس (مرحوم) لکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے۔
23مارچ1947ءء کے دن قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور سات سال کے محدود عرصے میں تکمیل پاکستان ہو گئی۔مزید لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کے اندرونی حالات بھی اچھے نہ تھے۔ بہت سے لیگی تحریک آزادی کی آڑ میں اپنا مقام اور مفاد مقدم رکھنا چاہتے تھے اور بہت سوں کو آخر دم تک یقین نہ تھا کہ علامہ اقبال  کا خواب حقیقت بن جائیگا۔ برطانوی استعمار اور کانگرس پوری قوت سے تحریک آزادی کی مخالفت کر رہے تھے اور ہر سطح پر مسلمانوں کو ڈرانے ، دھمکانے اور لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش میں تھے۔
کیبنٹ مشن اور ماؤنٹ بیٹن مشن کی ناکامی نے پاکستان مخالف قوتوں کو مایوسی کے اندھیرے میں ڈالا تو علمائے دیوبند اور سرخ پوشوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت میں اتحاد کر لیا۔ سندھ کا محاذ جی ایم سیّد نے سنبھال لیا اور کانگرس کے اتحادی بن گئے ۔ جی ایم سیّد کو سندھی نوابوں اور جاگیرداروں کے علاوہ آدھی ہندو برادری اور طلبا ء کی حمایت سے بھی محروم ہونا پڑا۔
سندھ کا دانشور طبقہ انگریز اور کانگرسی چالوں سے بخوبی آگا ہ تھا ۔ سرچارلس نیپر کی خون ریزی اور پیر صاحب پگاڑا  کی شہادت سندھیوں کے دلوں پر نقش تھی۔ 
بلوچستان انگریزوں ، کانگرسیوں اور پاکستان مخالف دھڑوں کے نرغے میں تھا۔ بلوچی سرداروں کو طرح طرح کی ترغیبات دی جا رہیں تھیں ۔ ایک طرف حکمران اور دوسری طرف مسلم لیگی زعما، پارٹی ورکر ، طالب علم اور قبائلی سرداروں کا ایک گروپ دن رات محنت کر رہا تھا اور حالات پاکستان کے حق میں بدلنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔
کانگرس اور انگریزی حکومت زیادہ فکر مند نہ تھی۔ انہیں یقین تھا کہ اُن کے حامی سردار اور پاکستان مخالف قبائل جنہیں و ہ پوری طرح نواز چکے تھے اُن کے حق میں فیصلہ دینگے ۔ 29جون1947ءء کے دن ٹاؤن ہال کوئٹہ میں قبائلی جرگے نے فیصلہ کرنا تھا اور30جون کو ریفرنڈم ہونا تھا۔ اصل فیصلے کی تاریخ 29جون ہی تھی۔ جرگے کی اہمیت سے ہر کوئی واقف تھا اور اسی کے فیصلے پر زور دیا جارہا تھا۔
جرگہ ہال میں جانے سے پہلے سردار دوداخان مری نے ہنستے ہوئے کہا آج بلوچوں اور پٹھانوں کے درمیان پاکستان جیتنے کا مقابلہ ہے۔ دیکھو کون بازی لے جاتا ہے۔ سرداروں نے اپنی کرسیاں سنبھالیں تو انگریزی حکومت کانمائندہ مسٹر جیفرے فاتحانہ انداز میں ٹاؤن ہال میں داخل ہوا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا پیغام پڑھ کر سنانے لگا۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja