Episode 40 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 40 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

کسی بھی ملک اور قوم کی تباہی کا باعث چند بااثر لوگ ہوتے ہیں جن کے بہکاوے میں آکر ساری قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ سورة نمل میں حضرت صالح کے ذکر میں فرمایا کہ صرف نو(۹) لوگ ایسے تھے جنہوں نے باہم معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ شہر میں امن نہیں ہونے دینگے اور نہ ہی پیغمبر  کا پیغام لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے دینگے ۔ تاریخ میں اس قوم کی تبا ہی کی مثال عقلمند اور باشعور اقوام کے لیے پیغام ہے کہ ایسے خود غرض ، منفی سوچ کے حامل اور کرپٹ لوگوں کی قیادت قبول نہ کریں اور نہ ہی ان کے ہم خیال دانشوروں کے پراپیگنڈہ کا شکار ہو کر اپنی تبا ہی کا خود اہتمام کریں۔
باغیرت اور باخبر قومیں کسی ایسے شخص کولیڈر یا قائدتسلیم نہیں کرتیں جس کا کردار مشکوک اور طرز عمل خودغرضانہ اور متکبر انہ ہو۔

(جاری ہے)

پاکستان میں جمہوریت خود غرضی کا شکار رہی اور قیادت جبر کی علامت بن گئی جس کووجہ سے چار مارشلاؤں کی راہ خو د سیاسی قائدین نے ہموار کی۔ قائداعظم  کے بعد حسین شہید سہروردی کے اخلاص و کردار میں کوئی شک نہ تھا ۔

اُن کے ذاتی معاملات کا ملکی ، قومی اور سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ مسلمان ، اسلام اور پاکستان اُن کی پہلی ترجیحی تھے اور وہ اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوئے ۔ قائداعظم  کا پاکستان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جو سیکولراز م کے حامی ،پاکستان کے دشمن اور اسلام کو فرد کا ذاتی مسئلہ سمجھ کر مغربی طرز زندگی کے رسیاتھے ۔ بہت سے قلمکاروں کا خیال ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو قائداعظم  سے بھی بڑے لیڈر تھے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ خود بھٹو مرحوم نے سکندر مرزا کو قائدعظم سے بڑا لیڈر اور جنرل ایوب خان کو ایشیا ء کا ڈیگال قرار دیا تھا۔
وہ جنرل ایوب خان کے متبادل صدارتی اُمیدوار تھے اور اُن ہی کے مشورے پر ڈپٹی کمشنروں کو کنونشن مسلم لیگ کے ضلعی صدور کا سیاسی عہدہ دیا گیا۔جناب بھٹو نے تاشقند کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کا نعرہ لگایا تو قوم اُن کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔آج تک بلاول ہاؤ س کے باہر بھوکی، ننگی ، بیمار بد حال اور کس حد تک غرضمند قوم کھڑی ہے۔ نہ بھٹو صاحب نے تاشقند کے راز بتائے ، نہ روٹی ، کپڑا اور مکان دیا اور نہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوا۔
بھٹو صاحب کی سیاسی پھبتیاں ، طنز کے تیراور تکبر کا طنطنہ اُن کے سیاسی اثاثے کا حصہ ہے جواب بلاول سمیت ہر سیاستدان کاہتھیار اور علم و عقل کا میعار ہے۔ 
جناب ضیا ء شاہد کی کتاب کاباربار ذکر کرنا ایک مجبوری ہے ۔" نواز یا آئینہ" کی بات میں لکھتے ہیں کہ برسوں کی محنت کے بعد پاکستان سے محبت کرنیوالا نواز شریف انڈین لابی اور اینٹی آرمی سوچ کے حامل پاکستان دشمنوں اور بھارت نواز دوستوں کے گھیرے میں آگیا ۔
عاصمہ جہانگیر، محموداچکزئی ، اسفند یار ولی ، نجم سیٹھی، اُسکی بیگم جگنو محسن اور بھٹو کو پھانسی تک پہنچانے والے فوج کے دشمن پرویز رشید کا نواز شریف کے گرد ایک ایسا دائرہ ہے جس میں قائداعظم  کے ساتھیوں کو تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 
مشہور روسی شاعراور ادیب رسول حمزہ توف اپنی تصنیف ”میرا داغستان“ میں لکھتے ہیں کہ بستی میں صرف ایک بیوقوف اور ایک ہی عقلمند کی گنجائش ہو سکتی ہے ۔
جس بستی میں سارے بدھو یا پھر سارے ہی عقلمندوں ہوں اس کا نظام نہیں چل سکتا۔ وطن عزیز میں بدھوں کی اسقدر بہتات ہے کہ کوئی غیر جانبدار شخص بدھو اور عقلمند کی پہچا ن نہیں کر سکتا۔عقلمندجاہلیت کی باتیں کرتے ہیں اور انہیں عقل ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہماری سیاست مسخر ے کا کھیل اور معیشت بنیے کی دکان تک محدود ہے۔ معاشرہ اقدار وروایات کا کھنڈر ہے اور سوداگری لیڈری کا میعار ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں طوائف کا کوٹھا، کراڑ کی ہٹی اور ریاست کا نظام چلنا رہتا ہے چونکہ اس سے کچھ لوگوں کی ضروریات جڑی ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے آج ملک کا نظام اُن لوگوں کے ہاتھ ہے جن کے مفادات اس ملک کی قسمت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں دنیا بھر کے خزانے پاکستان لا کر ڈھیر کر دیے جائیں اور کرپٹ نظام کو درست نہ کیا جائے تو ایک ہی رات میں یہ خزانے کسی دوسرے ملک میں منتقل ہو جائینگے ۔
بدنیت ،بد عہد اور بد دیانت لوگوں پر بھروسہ کرنے والی قومیں ترقی تو کیا اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتیں۔
دس سالہ جمہوری دور میں سیاستدانوں نے ملکی خزانہ خالی کیا ، اداروں کو تباہ کیا ، ملک پر قرضوں کا بوجھ ڈالا اور پھر تماش بین بن کر قوم کا تمسخراڑایا ۔ بلور خاندان نے ریلوے کو تباہ کیا، پیپلزپارٹی اورنون لیگ نے پی آئی اے میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کیں اور مشاہد اللہ جیسے خاندانوں کے خاندان پی آئی اے میں گھپا کر اس اہم ادارے کو کنگال کیا۔
ایم ۔ کیو۔ ایم، پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی مشترکہ کا وشوں سے سٹیل مل ، شپنگ کارپوریشن اور ٹیکسیشن کے نظام کا بیڑہ غرق ہوا اور عوام بد حال ہو گئے ۔
قبضہ مافیا ، لینڈ مافیا، واٹر مافیا اور ٹیکس مافیا سمیت جرائم کی سینکڑوں نئی اصطلاحات متعارف ہوئیں جن کی پشت پناہی سیاسی جماعتوں اور بڑے سیاستدانوں نے کی۔ باوجود اس کے عوام آج بھی ان ہی سیاسی جماعتوں اور خود ساختہ لیڈروں کی دیوانی ہے اور انہیں نجات دھند ہ سمجھ کر اُن کی پوجا کرتی ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja