Episode 20 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 20 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

مینوئل آف انڈین ہسٹری کامصنف ٹیلر لکھتا ہے کہ جلال الدین خلجی کو ترک جرنیلوں نے تسلیم نہ کیا۔ وہ پے درپے بغاوتوں اور عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے دن بدن کمزور ہوتا گیا۔ 20جولائی 1292ءء کے دن علاؤ الدین نے ایک سازش کے ذریعے سلطان کو قتل کروا دیا اور خود تخت نشین ہو گیا ۔ ضیاء الدین برنی اور فرشتہ کے مطابق علاؤالدین کا خاتمہ زہر خوانی سے ہوا اور اقتدار تغلق خاندان کو منتقل ہوگیا۔
فیروز شاہ تغلق کے بعد سادات نے حکومت سنبھالی ۔ اسی دور میں تیمور نے ہندوستان پر حملہ کیااور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ سادات کی ناکام حکمرانی نے ہرشعبہ زندگی کو متاثر کیا۔1316ءء میں سیّد خضر خان حکمران بنا جس کے بعد مبارک شاہ ، محمد شاہ اور علاؤالدین شاہ حکمران رہے اور عیش وعشر ت کے علاوہ عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی کام نہ کیا۔

(جاری ہے)

یہ لوگ محمد شاہ رنگیلا سے بڑھ کر رنگیلے اور امور سلطنت سے غافل تھے۔ باوجود اپنی نا اہلیوں اور نالائقوں کے یہ خاندان 1316ءء سے 1357ءء تک 37حکمران رہا ۔ 
سلطنت دہلی کا پہلا افغان حکمران بہلول لودھی 1451ءء میں برسراقتدار ہوا۔ علاؤ الدین عالم شاہ کے وزیر حمید خان نے افغان لودھی قبیلے کے سردار کو فوج کشی کی دعوت دی۔ بہلول لودھی قبیلے کی ساہو خیل شاخ سے تعلق رکھتا تھا۔
بہلول نے تخت دہلی پر تو قبضہ کر لیا مگر پٹھان صوبیداروں اور عہد یداروں نے اس کے پاؤں نہ جمنے دیے ۔ سلطان محمود شرقی نے دہلی کا محاصرہ کر لیا اوردریا خان لودھی حاکم سنبھل بھی بغاوت پراُترآیا ۔ ملتان اور لاہور کے افغان گورنر بھی بے قابو ہوگئے اوربہلول کے لیے مصیبت بن گئے ۔ تنگ آکر بہلو ل نے کوہ سیلمان کے دونوں اطراف بسنے والے پٹھان قبیلوں کو ہندوستان آنے اور قسمت آزمانے کی دعوت دی مگر فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا۔
بہلول نے سارا وقت بغاوتیں کچلنے اور پختون سرداروں سے نبردآزما ہونے میں گزرا ۔ ان حالات کے باجود وہ39سال تک حکمران رہا ۔بہلول کی وفات کے بعداُسکا تیسرا بیٹا نظام خان سکندر لودھی تخت نشین ہوا۔ سب سے پہلے سکندر نے اپنے بھائی عالم خان حاکم رابری کے خلاف فوج کشی کی۔ سکندر نے اپنا سارا وقت بغاوتیں کچلنے اور سرداروں سے صلح کرنے میں گزارا ۔
سکندر کے بعد ابراہیم لودھی تخت نشین ہوا مگر ملک کے سیاسی حالات نہ بدلے ۔ شہزادہ جلال الدین نے ابراہیم لودھی کے خلاف بغاوت کی اور پٹھان سرداروں کو ساتھ ملا کر کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی اثناء میں حاکم پنجاب دولت خان لودھی نے بابر کو پنجاب پرحملے کی دعوت دی۔ لاہور پرقبضے کے بعد بابر نے پانی پت کے مقام پر ابراہیم لودھی کا سامنا کیا۔
21اپریل 1526ءء کے دن بابر فتح یاب ہوا اور لودھی خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔
بابر کے بعد ہمایوں کا دور اقتدار آیا۔ 26جون1539ءء کے دن ہمایوں کو چوسہ کے میدان میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر ایران چلا گیا۔ ہمایوں کی شکست اور جلاوطنی میں اُس کے بھائیوں او ر بہنوئی کا زیادہ ہاتھ تھا۔ شیر شاہ کے بعد اُسکا بیٹا اسلام شاہ تخت نشین ہوا ۔
سلیم شاہ انتہائی چالاک اور سفاک حکمران تھا۔ جیسا کہ پچھلے باب میں ذکر ہو چُکا ہے کہ حاکم پنجاب و ملتان ہیبت خان نیازی ، حاکم جو نپور عیسیٰ خان نیازی اور شیر شاہ کے دست راست خواص خان نے سلیم خان کے خلاف بغاوت کی جس کی وجہ سے اُس کی گرفت کمزور ہوگئی ۔ سلیم خان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ہمایوں واپس آیا اور سرہند کی لڑائی میں سلیم خان کو شکست دیکر سوری حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔
وہ پندرہ سالہ جلاوطنی کے بعد دسمبر1554ءء میں پہلے پشاور پر حملہ آور ہوا اور دریائے سندھ تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ سابق حکمرانوں اور حملہ آوروں کی طرح ہنڈ کے مقام پر کشتیوں کا مضبوط پل تعمیر کروایا اور فروری 1555ءء میں لاہور اور دیپالپور پر قابض ہوگیا۔ ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی کے قتل کے بعد سندھ کے شمالی علاقوں سے لیکر کشمیر کی سرحد تک کوئی ایسا حکمران نہ تھا جو ہمایوں کا مقابلہ کر سکے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کناروں سے لیکر چناب تک گکھڑوں کی حکمرانی تھی جو ہمایوں کے حمایتی اور مدد گار تھے۔ کشمیر پر چک خاندان کی حکومت تھی جوخودباہمی انتشار کا شکار تھے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja