Episode 35 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 35 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

ایو ب خان کے دور حکومت میں ملک میں ترقی ہوئی مگر سرسبز اور خوشحال پاکستان پر سیاستدانوں نے تنقید کی۔دیکھا جائے تو سب کچھ نہ برُا تھا اور نہ ہی بہت اچھا تھا۔اسی دورمیں منگلا اور تربیلا ڈیموں کی بنیاد رکھی گئی اور کالا باغ ڈیم پر بھی ابتدائی کام مکمل تھا کہ ایوب خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ بھٹو دور میں تربیلہ پر کام جاری رہا اور ضیا الحق کے دور حکومت میں تربیلا جوائینٹ ونچر(T.J.V )نے ڈیم کی تعمیر مکمل کی۔
ملک میں بہت سی نئی صنعتیں لگیں اور نہری نظام کو بہتر بنایا گیا ۔جنا ب ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت وزیر خارجہ ساری دنیا میں متعارف ہوئے اور ایوبی حکومت کی پالیسوں کے بہتر ین ترجمان تصور کیے جانے لگے۔ ایوب خان کے دور میں مجموعی طور پر معاشی استحکام رہا مگر محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بیورو کریسی کے علاوہ بھٹو ، شعیب کٹھ جوڑ سے نہ صرف انتخابات میں دھاندلی کروائی گئی بلکہ ان کے صاحبزادوں خاص کر گوہر ایوب نے کراچی میں تشدد کا بازار بھی گرم رکھا۔

(جاری ہے)

گوکہ ایوب خان یہ الیکشن جیت گئے مگر عوام کے دلوں سے بھی اُتر گئے۔ 
جناب مجیدنظامی مرحوم کے مطابق الیکشن کے بعد مادر ملت نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور وہ بہت کم لوگوں سے ملتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار میں سلام کے لیے حاضر ہوا تو وہ ٹیرس سے سامنے آئیں۔ مجھے دیکھ کر گیٹ کی چابیاں نیچے پھینک دیں ۔ میں نے دروازہ کھولا اور ملاقات کے لیے حاضر ہوا چونکہ وہ ایوب خان کے بیٹوں سے خوف زدہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھیں۔
ایبڈو کے نفاذ کے بعد سابق وزیر اعظم جناب حسین شہید سہروردی نے بھی اسی طرح خوف کی حالت میں مادر ملت سے ملاقات کی۔بنگالی اخباری رپورٹر ابن الحسن کی ایک پرانی تحریر نظروں سے گزر ی جس میں جناب حسین شہید سہروردی کے خاندان ، پاکستان اور مسلمانوں سے محبت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر ایک مفصل مضمون لکھاگیا تھا ۔ ابن الحسن نے لکھا کہ جناب سہروردی کو دوبار زندگی میں روتے دیکھا گیا۔
جب انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو وہ روپڑے۔ دوسرے بار وہ محترمہ فاطمہ جناح سے ملکر آئے تو کمرے میں بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگے ۔ ابوالحسن کہتے ہیں کہ بیروت میں جلاوطنی اور کسمپرسی کی حالت میں اکثر بیمار رہتے تھے۔ میں نے حاضری دی اور کچھ پاکستانی تاجروں کا پیغام دیا کہ اگر آپ لند ن یا کسی دوسرے ملک جانے کا ارادہ کریں تو وہاں آپ کے علاج اور رہائش کا بندوبست ہو سکتا ہے ۔
آپ نے دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا انہیں کہنا کہ ملک کو سرمائیہ کاری کے ذریعے مضبوط بنائیں۔ دوران گفتگو رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں وزارت عظمیٰ کے چھن جانے پر نہیں بلکہ کشمیر اور مشرقی پاکستان کے لیے رویا تھا ۔میرے ذہن میں آزادی کشمیر کا جو منصوبہ تھا اُس کی بھنک ایوب خان ، جنرل آدم اور اُن کے ہمنوا سیاسی ٹولے کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔
اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرتوں کو مٹانے کے لیے کوشاں تھا کہ مجھے اقتدار سے ہٹا کر نفرتوں کے خیلج کو وسیع کر دیا گیا۔ 
محترمہ فاطمہ جناح کو مایوس دیکھ کر نہ روتا تو اور کیا کرتا ۔ انہیں ایوب خان اور اُن کے بیٹوں سے جان کا خطرہ تھا ۔ وہ عملاً قید تنہائی میں تھیں اور لوگوں سے ملنا بند کر دیا تھا۔محترمہ فاطمہ جناح کی موت کی خبر سنکر سب سے پہلے گوہر ایوب انہیں دیکھنے گیا جس کی وجہ سے کئی سوالات سامنے آئے۔
اس سلسلے میں کراچی میں ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی جسے بعد میں لاہور منتقل کر کے سیل کر دیا گیا ۔ جنرل عبدالمجید ملک مرحوم نے اپنی کتاب ” ہم بھی وہاں موجود تھے “ میں کشمیر کے حوالے سے جنرل ایوب خان کی مجرمانہ غفلت کا ذکرکیا جس کے نتیجے میں جناب لیاقت علی خان اُن کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے تھے مگر سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے سارے ثبوت مٹا ڈالے اور ایوب خان کو آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی کی رائیں ہموارکر دیں۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja