Episode 22 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 22 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

حضرت مجد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد سیّد احمد شہید بریلوی نے تحریک مجاہدین کی صورت میں اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کی مگر مسلکی بنیادوں پر تقسیم علماء کے ایک مخصوص ٹولے اور سُود خور طبقے نے سکھوں کے ساتھ ملکر اس تحریک کو ناکام بنادیا۔ آپ حسنی سیّد تھے۔ آپ نے سکھوں کے خلاف اعلان جہاد کیا اورحضرو سے مردان اور پشاور تک کے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔
آپ نے ان علاقوں پر اسلامی قوانین کا نفاذ کیا اور کشمیر سے گلگت ، بلتستان ، چترال ، دیر اور سوات کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ تحریک مجاہدین میں شامل ہو کر سکھوں کے خلاف جہاد میں شامل ہوں ۔ آپ نے امیر کا بل کو بھی لکھا کہ سکھو ں کی حکومت ختم ہوگئی تو کشمیر سے کابل اور پانی پت تک ایک اسلامی مملکت کے قیام سے اُمت کو ایک نیا حوصلہ ملے گا اور باطل قوتوں کا خاتمہ ہوگا۔

(جاری ہے)

 
سیّد احمد شہید نے مفتوحہ پشاور ، مردان اور ملحقہ علاقوں میں سودی نظام کا خاتمہ کیا اور سکھوں کے لگائے ہوئے ظالمانہ ٹیکس ختم کر دیے۔ دختر فروشی ، شراب کشیدگی اور جسم فروشی پر پابندی عائد کر دی جسکی وجہ سے ہوتی کے خوانین کے علاوہ پشاور اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے علمأ نے سیّد احمد کی مخالفت کی اور منسوخ ہونے والی بد اعمالیوں کو رسم ورواج اور ذریعہ معاش قراردے دیا۔
علمأ نے سیّد احمد کے خلاف فتویٰ جاری کیا اور عوام کو سکھوں کی مدد کرنے کا پیغام دیا۔ 20دسمبر 1825ءء کو اکوڑہ کے مقام پر سکھوں اور مجاہدین کے درمیان پہلا بڑ امعرکہ ہوا اور سکھ فوج شکست کھا کر میدان سے بھاگ گئی ۔ رنجیت سنگھ پر مجاہدین کا خوف طاری ہوگیا ۔ رنجیت سنگھ نے چال چلی اور پشاور شہر درانی سرداروں یا ر محمد اورشیر محمد کے حوالے کر دیا۔
قبائلی سرداروں اور علماء کے رویوں سے بد دل ہو کر آپ نے اپنا مرکز بالا کوٹ منتقل کیا جہاں مجاہدین پر افغان افواج اور قبائلی لشکروں نے مل کر حملہ کیا ۔ 6مئی 1836ءء کو بالا کوٹ کے مقام پر ہونے والے معرکہ حق وباطل میں مجاہدین آخر دم تک لڑے اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ سیّد احمد بریلوی اور مولوی محمد اسماعیل نے داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
معرکہ بالا کوٹ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کی زبوحالی اور ہرشعبہ زندگی میں تنزلی کا باعث خود مسلمان ہی ہیں جنہوں نے محض اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اُن کا خدائی احکامات پر عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور نہ ہی کوئی قیادت انہیں یکجا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سورہ کہف میں فرمان ربیّ ہے کہ” اللہ جس کو گمراہ کرنا چاہے اسے کوئی رہنمائی دینے والا دوست نہیں ملتا “۔
ہمفر ے ،لارنس آف عربیہ اور موجودہ دور میں ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ تک کسی بھی جگہ کسی مسلمان ملک اور قوم کی شنوائی نہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر کوئی عزت ووقار ہے۔ فرقہ بندی اور مسلکی منافرت نے ایک خدا، ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب ہدایت قرآن کریم کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا دشمن اور اغیا ر کے ہاتھوں آلہ کار بنارکھا ہے۔
 
جب گندھا را کا صدر مقام سندھ کے کنارے آباد ہنڈ کا شہر تھا اور اس کی مشرقی سرحد جہلم کے کنارے آباد عظیم الشان شہر پاٹی کوٹی سے ملتی تھی تو بھی انسانی معاشرہ منقسم اور ایک دوسرے سے متنفر تھا۔ نفرتوں کا سامان عہدعتیق سے عہد جدید تک بنتا رہا ہے جس کی ترسیل آج بھی جاری ہے۔ انسانی فطرت کا تجزیہ کرنے والے حیران ہیں کہ 1823ءء میں سکھوں نے پٹھانوں کاقتل عام کیااور وادی پشاور پر غلبہ حاصل کر لیا۔
مسجدوں کو تالے لگائے اور انہیں اصطبلوں میں تبدیل کر دیا۔ اذان پر پابندی لگائی اور قرآن پاک کے نسخے جلا دیے۔ ہوتی کے قدیم طوائف خانے کو وسعت دی اورطوائفوں کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا۔ طوائفوں کے ذریعے خوانین کی جاسوسی کا جال پھیلایا اور سودی نظام کے ذریعے ہر شخص کی زمین و جائیداد ہتھیا لی ۔ سیّد احمد شہید کا اس خطہ زمین کو جہاد کا پلیٹ فارم بنانے کا مقصد غیور پٹھان قبیلوں کی مدد سے سکھا شاہی کا خاتمہ اور اسلامی ریاست کا قیام تھا۔
اُن کا منصوبہ تھا کہ سکھوں کی تنزلی شروع ہوتے ہی کشمیر، شمالی علاقہ جات بشمول سوات ، دیر اور چترال کے مسلمان اس تحریک میں شامل ہو کر ایک بڑی اسلامی ریاست کے قیام کا موجب بن جائینگے۔ تاریخ دان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ پشاور ، ہوتی اور قبائلی علاقوں کے سرداروں نے دین اسلام پر اپنی فرسودہ روایات کو ترجیح دی اور سکھوں کا ساتھ دیکر تحریک اسلامی کو ناکام بنا دیا۔
 
آج افغان حکومت کا پاکستان مخالف رویہ بھی کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ موجودہ دورمیں ٹیلی ویژن چینلوں پر درجن بھر ریٹائر ڈ فوجی افسروں کے علاوہ بہت سے نامور صحافی اور دانشور اپنے آپ کو افغان امور کا ماہر سمجھ کر علم و دانش کے موتی بکھیرتے ہیں تو 1823ءء کے اکوڑہ خٹک اور6مئی 1936ءء کے بالا کوٹ کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔بیگ گراؤنڈ میں محمودغزنوی اوربابر کی یلغار اور ہوتی کی خوبصورت طوائف رمضانی اور شکورن کے گھنگرؤں کی چھنکار ، شکیلہ ناز، کشور سلطان ، قمرو جان اور زریں جان کی پرسوز و بلند آہنگ صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja