Episode 42 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 42 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

ریاست مدینہ اسی علم و بصیرت اور عقل و دانائی کے معیار پر قائم ہوئی جس کا آئین قرآن اور قانون شریعت محمد ی ﷺ تھا ۔ خلفائے راشدین نے اسی آئین و قانون پر عمل پیرا ہو کر اسلامی ریاست کی سرحدیں چین سے افریقہ اور یورپ کے قلب تک پھیلا دیں۔ صدیوں پرانی ایرانی، چینی ، ہندی، مصری اور یونانی تہذیبوں کو دین اسلام کی روشنی نے جلا بخشی ۔ یونانی حکمأ اور فلاسفہ کے نظریات کی درستگی کی اور علم و حکمت کے الہٰی اصولوں اور قوانین کا اجراء کیا۔
ریاست اور معاشرے کو ہمدردی ، اصول پرستی ، عدل اور مساوات کے قوانین کے تابع کیا اور انسانی معاشرے میں درجہ بندیاں ختم کر کے ہر انسان کو فطری عمل و اصول کے تحت جینے کا حق دیا۔ 
جس طر ح خیر وشر دو نظریے اوردو راستے ہیں ویسے ہی عصبیت کے مثبت و منفی پہلو ہیں۔

(جاری ہے)

عصبیت کا تعلق حسب و نسب سے ہے اور علم و تقویٰ ، تزکیہ نفس مجاہدہ قلبی ، جرأت و بہادری عصبیت کی بنیاد ہے۔

آپ ﷺ کی ذات بابرکات علوم ظاہریہ و باطنیہ کامنبع و مخزن ہے اور آپ ﷺ کی اولاد اس سرچشمہ فیض سے نکلنے والے ہر دو علوم کے دریا ہیں ۔ آپ ﷺ کی آل و اصحاب آپ ﷺ کی نسبت سے اعلیٰ نسبی کے روشن مینار ہیں جن کی روشنی سے تا قیام قیامت مخلوق خد ا فیض یاب ہو گی۔ 
وہ لوگ جن کی تحقیق کا دائرہ ناسوتی ، استدارجی اور مادی علم وعمل تک محدود ہے وہ کسی بھی الہٰی ، قرآنی روحانی علم و عمل کو سمجھنے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ وہ اپنی عقل و فرسودہ علم کی بنیاد پر حقیقی علم کی نفی کر تے ہیں۔
اُن کے نزدیک ظاہری مادی چکا چوند عیش و عشرت ہی سب کچھ ہے وہ اسی کے حصول کی خاطر جبرو استحصال کرنے والی قوتوں کے حامی ومدد گار ہیں۔ قرآن کریم کی سورة الزخرف میں بیان ہے کہ اللہ ہی ہر شخص کو روزی دیتا ہے اور بلند کرتاہے درجے بعضوں کے بعضوں پر اور ٹھہراتا ہے ایک دوسرے کا خدمت گار۔ اور تیرے ربّ کی رحمت بہتر ہے اُن چیزوں سے جو یہ لوگ( منکر، متکبر اور منافق) سمجھتے ہیں۔
آگے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو سب لوگ ایک ہی دین پرہو جا تے تو ہم دیتے اُن لوگوں کو جومنکر ہیں رحمان ( اللہ ) کے اُن کے گھروں کے لیے چھتیں اور سیڑیاں چاندی کی اوراُن کے گھروں کے دروازے اور تخت سونے کے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھیں مگر یہ سب کچھ بھی نہیں محض دنیاوی زندگی کا ایک شغل ہے ۔ اصل زندگی آخر ت کی ہے اور یہ اُ ن کے لیے ہے جن کے دلوں میں خدا کا ڈر ہے۔
 
اسی سورة مبارکہ میں فرعون کی حکمرانی ، تکبر اور جاہ جلا ل کا ذکر ہے جب اُس نے مخاطب کیا اپنی قوم کو اور کہا کیا میں مصر کا بادشاہ نہیں ہوں۔ نہریں میرے محل کے نیچے سے گزر رہی ہیں۔کیا میں اُس شخص سے بہتر نہیں جس کی کوئی عزت نہیں۔ جو ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتا تو پھر اس پر (موسیٰ  ) کیوں نہ اُترے کنگن سونے کے اور کیوں نہ وہ آیا فرشتوں کے جھرمٹ میں ۔
 
اسی سورة کی آیت سے آگے مشرکین مکہ کا ذکر ہے جب انہوں نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم طائف کے کسی رئیس خاندان کے مرد یا کسی بڑے قبیلے پر کیوں نہ اترا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ میری رحمت کو اپنی مرضی سے بانٹتے ہیں حالانکہ رحمت کے دریا ربّ کائنات کی دسترس میں ہیں ۔ اُس کے نزدیک کسی قبیلے کے سردار ، کسی متکبر بادشاہ اور سونے چاندی کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اس چکا چوند اور ظاہری بے وقعت نمائش کی کو ئی حیثیت ہے۔
اصل نسبت رحمت خداوندی سے ہے اور جن لوگوں نے اُس کی راہ پر چلنا پسند کیا وہ اللہ کی نسبت سے اپنے نسب کی ظاہری و باطنی تربیت کرتے ہیں جو آگے چلکر اُن کی نسلوں میں قائم رہتی ہے۔ اگر ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو نہ ریاست کا وجود قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ ان قوانین کے تابع عزت و حرمت کا مقام پاسکتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja