Episode 11 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 11 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

تاریخ بامزئی کے مطابق مگدھ کا راجہ اشوک مغرب میں سارے افغانستان ، بلوچستان ، سندھ ، شمال میں کشمیر ، کا شغر اور جنوب مشرق میں بنگال ،کا لنگا ، آندھر اور دکن کا بادشاہ تھا۔ اشوک بدھ مت کا پیروکار تھا۔ اُس کا دور حکومت بھی بے مثال تھا۔ وہ رعایا پر ور ،علم دوست اور امن پسند حکمران تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ظہور اسلام سے پہلے اشوک جیسا عظیم حکمران مشرق و مغرب میں پیدا نہیں ہوا ۔
 
اشوک نے محبت رواداری ، پاکیزگی ، مساوات اور اخلاقیات کے علم کو بام عروج تک پہنچایا اور اپنے اقوال و فرامین چٹانوں پر کندہ کروائے جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ 
اشوک کے بعد اُسکا بیٹا جلوک تخت نشین ہوا اور ساٹھ سال تک حکمران رہا۔ جلوک نے اپنے باپ کے علمی ، ادبی اور اخلاقی ورثے کی حفاظت کی اور چین کے بادشاہوں سے روابط قائم کیے۔

(جاری ہے)

جلوک نے عدل و انصاف کا محکمہ قائم کیا اور انتظامی امور بہتر بنائے۔ اُس کے دور میں مقامی اور مرکزی عدالتیں قائم ہوئیں جو چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرتی تھیں۔ اسی دور میں وزارت خارجہ ، داخلہ ، ٹیکس وصولی کا محکمہ ، وزارت خزانہ ، وزارت مذہبی امور اور وزارت فلکیات و حساب قائم ہوئی۔ 
جلوک کی حکمرانی کی خاص بات اُس کی رانی کی مشاورت تھی ۔
ملکہ امور سلطنت چلانے میں بادشاہ کی مدد کرتی تھی اور ہر محکمے میں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کی لڑکیاں اور شہزادیاں خاص عہدوں پر فائز تھیں۔ جلوک اور اُس کی ملکہ نے کوتیلیہ چانکیہ کی تعلیمات کے بجائے بدھ کے فرامین کو اولیّت دی ۔ اس دور میں تعلیم عام ہوئی اور سارے ملک میں پاٹ شالائیں سرکاری خرچہ پر تعمیر کروائی گئیں جہاں مرد اور عورتیں علم کی پیاس بجھانے آتے تھے ۔
ان پاٹ شالاؤں میں مرد اپنی بیویوں اور بچوں سمیت آتے اور بدھی علمائے کے لیکچر سنتے ۔ 172ق م میں جلوک اور اُس کی رانی اقتدار سے الگ ہوگئے اور اُمور سلطنت اپنے بھائی دامودر کو سونپ دیے۔ دامودرنے 32سال تک حکمرانی کی اور اُمور سلطنت کو مزید بہتر بنایا ۔ دامود ر نے نئے شہر، بستیاں ، تعلیمی ادارے ، سٹرکیں ، سرائیں ، ہنر مندی کے ادارے اور صحت کے مراکز تعمیر کروائے۔
سیلابی ندیوں اور دریاؤں کے کنارے بند تعمیر کیے اور جہاں جہاں پتن (کراسنگ پوائنٹ ) موجود تھے وہاں سرکاری کشتیوں کا بندوبست کیا۔ دامودر نے اپنے نام سے ایک بستی سرینگر کے قریب آباد کی جو ہر لحاظ سے ایک ماڈل بستی تھی۔ آجکل اس بستی کی جگہ پر سرینگر کا ایئر پورٹ اور فوجی بیرکیں ہیں۔ 
داموردر نے مرد م شماری ، خانہ شماری ، زمینوں کی پیمائش اور حیوانات شماری کے محکمیں قائم کیے جن کا مقصد غربت کا خاتمہ ، بنجر زمینوں کی آباد کاری اور گھریلو جانوروں کی افزائش تھا۔
دامور گوشت خور تھا جس کی وجہ سے گاؤ کشی کا قانون خود ہی نرم ہو گیا۔ 
اسی بادشاہ کے دور میں شاردا یونیورسٹی کو وسعت دی گئی اور گندھا رایونیورسٹی کے علاوہ پٹنہ ، بنارس اور شہباز گھڑی کے مقام پر قائم کیمپس کو بہتر بنایا گیا ۔ موریہ دور حکومت میں کشمیر اپنے قدرتی حسن کے علاوہ علمی اور ادبی حسن کا بھی گہوارہ بن گیا ۔ چینی سیاحوں اور نامور علماء نے کشمیر کی سیاحت کی اور یہ سلسلہ 432ءء تک جاری رہا ۔
دھرم مستر، بدھ ورمن ، سولوچی ، تن چنت اور تن سی سائی نامی مشہور کشمیری علماء نے چین کی سیاحت کی اور چینی ادب و علوم پر تحقیقی مقالے لکھے۔ 
اشوک کے انتقال کے بعد اُس کے جانشینوں کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا ۔سلطنت کا نظا م جس عروج پر تھا جلد ہی وہ تنزلی کی طرف چل نکلا ۔ ایک دور آیا جب صرف مگدھ کا علاقہ ہی اس سلطنت کی آخری نشانی رہ گیا۔
دراوڑوں نے آہستہ آہستہ زور پکڑ ا اور مگدھ سمیت ساری ریاست پر قبضہ کر لیا ۔ 78ءء میں مہاراجہ کنشک تخت نشین ہوا ۔ کنشک 45سال تک حکمران رہا اور اشوک کی عظیم سلطنت کا نظام نہ صرف بحال کر دیا بلکہ اُس کی وسعت پذیری بھی کی۔ 
کنشک نے چین پر حملہ کیا اورتبت سے لیکر کا شغر،یار قند ، ختن اور شمال مغرب میں بد خشاں تک کنٹرول حاصل کیا۔ مشرق اور شمال مشرق میں کشمیر اور ملحقہ علاقوں پر بھی فتح کا جھنڈا لہرادیا ۔
کنشک نے بلوچستان ، سندھ ،مکران اور ملحقہ ایرانی علاقوں کو زیر نگیں کیا مگر مگدھ ، چولا، آندھرا ، کالنگا اور مالوہ کی ریاستیں اپنی جگہ قائم رہیں۔ ان ریاستوں کے راجگان نے کنشک سے اچھے تعلقات بحال رکھے اور کبھی کسی ساز ش میں ملوث نہ ہوئے ۔ ان ریاستوں کے راجگان نے بدھ مت کی خوب خدمت کی اور کنشک کے تبلیغی اور اصلاحی پروگراموں پر عمل پیرا رہے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریاستیں اپنی خود مختاری کے اندر رہتے ہوئے کنشک کی ہم مسلک و مذہب ریاستیں تھیں جن کی وجہ سے کنشک کی حکمرانی مضبوط ہوگئی۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja