Episode 63 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 63 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

1988ئمیں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک خفیہ ڈیل کے ذریعے واپس آئیں اور جنرل ضیا الحق کی حادثانی موت کے بعد ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔ ضیا الحق کے دور میں ڈالر بارہ روپے کا تھا جبکہ جمہوریت کا جھونکا لگتے ہی ڈالر اٹھارہ روپے کا ہوگیا ۔ پٹرول اور دیگر اشیاء ضرور یہ کی قیمتیں بڑھ گئیں تو محترمہ نے اپنے جوتے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے میرا جوتا بھی پہلے سے مہنگا ہو گیا ہے۔
اسی دور میں حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم "ننگے پیر ہیں بے نظیر وں کے" لکھی تو انہیں پیپلز پارٹی نے اپنی صفوں سے خارج کر دیا۔ محترمہ کے دور میں بیرونی قرضہ حاصل کیا گیا جو مقررہ مدت میں ادا نہ ہوسکا۔ صدر مملکت نے کرپشن کی بناء پر بے نظیر حکومت ختم کر دی اور اُن کے شوہر جناب آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا گیا۔

(جاری ہے)

مختلف تجزیاتی رپورٹوں سے پتہ چلا کہ نہ صرف قرض سے حاصل شدہ رقم بلکہ اندرونی قرضوں سے لی گئی دولت بیرون ملک منتقل ہوگئی اور بے نامی اور نامی جائیدادیں خریدنے کا آغاز ہوا۔

سیاستدانوں کے علاوہ جناب زرداری کے دوستوں، یاروں اور بیورو کریسی نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور ملکی معاشی ، سیاسی اور سماجی نظام کی تباہی کی بنیاد رکھ دی۔ اس سے پہلے ایوب خان کے بیٹوں پر کرپشن کے الزام تھے مگر یحیٰی اور بھٹو دور میں اُن پر کوئی مقدمہ نہ بنایا گیا اگر یہ ہو جاتا تو شاید بے نظیر دور میں کرپشن کا آغاز نہ ہوتا ۔
 
نواز شریف کے پہلے دور میں ایک ارب ڈالر کا قرض لیاگیا اور پھر بے نظیر کے دوسرے دور میں تین ارب ڈالر قرض لیکر قومی معیشت پر انتالیس ارب ڈالر کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ قرضوں سے حاصل ہونے والی رقم کہاں گئی اسکا کبھی کسی نے حساب نہ مانگا ۔جناب زراداری کی طرح شریف برادران نے بھی اس دولت پر ہاتھ صاف کیا اور اپنی ملوں اور فیکٹریوں میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ بہت سا مال بیرون ملک بھی منتقل کر دیا۔
بقول جناب ضیا شاہد کے جناب نواز شریف کو پہلی بار الیکشن جتوانے پر اُن کے والد نے تین ارب روپے خرچ کیے اور پھر پاکستانی عوام سے نو ارب روپے وصول کر لیے۔ 
1999ء میں جنرل مشرف نے اقتدار پرقبضہ کیا تو ملکی معیشت کی کشتی نہ صرف ڈولنے بلکہ ڈوبنے لگی۔ 9/11کے بعد دنیا کے حالات یکسر بدل گئے تو پاکستان پابندیوں کی قید سے آزاد ہو گیا۔ سارے قرضے ری شیڈول ہو گئے اور کچھ معاف بھی ہوگئے ۔
اسی دور میں پاکستان نے سارا سود ادا کر کے کچھ قرضے واپس کیے اور ٹوٹل قرضہ چونتیس ارب ڈالر رہ گیا۔ 
جنرل پرویز مشرف کے بعد زرداری دور آتے ہی پاکستان نے ساڑھے سات ارب ڈالر قرض لیا اور زرداری کے پانچ سالہ دور میں ملک انسٹھ ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ اندرونی قرضوں کے علاوہ زرداری نے ایسی پالیساں مرتب کیں کہ معیشت تباہی کے دھانے پر جاپہنچی ۔
قرض کی یہ رقم بھی ذاتی جائیدادیں خریدنے ، دوستوں یاروں اور بیورکریسی کو نوازنے کے علاوہ بیرون ملک منتقل کر دی گئی ۔ عدلیہ اور عوام نے جمہوریت کی حمائت میں خاموشی اختیار کی اور میڈیا نے مال کما کر اعلیٰ صحافتی اقدار کا علم بلند کیا ۔ بہت سے نامور اور دانشور صحافی جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ تھی ارب پتی بن گئے ۔اُن کی بیگمات بیرون ملک شاپنگ اور علاج کروانے لگیں اور بچے بیرون ملک مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں علم کی موتی چننے لگے ۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja