Episode 61 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 61 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

صدرکلنٹن کے دور میں ایک مضمون نظروں سے گزرا جس میں لکھا تھا کہ صدر کے لباس ، گھر کی کراکری ، پردوں ، دروازے کی چٹخنی سے لیکر ڈور میٹ تک سب کچھ میڈان چائنہ ہے۔ دس سالوں کے اندر چینی کمپیوٹروں اور موبائل فونوں نے تودنیا ہی فتح کر لی۔ وہ کام جو امریکہ کا جوہری بم اور یورپ کے بحری بیڑ ے نہ کر سکے چینی عالموں اور سائنسدانوں نے دس سال کی مختصر مدت میں کیا اور ساری دنیا کو فتح کر لیا۔
 
چین ہمارا پڑوسی اور بھوٹان دوست ملک ہے۔ چین کے دانشور صدر اور بھوٹان کے کم عمر بادشاہ نے وہ ہی کام کیا جس کا اجرأ ریاست مدینہ سے ہوا۔ حضور ﷺ کافرمان ہے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ آپ ﷺ نے عدل و مساوات کا درس دیا اوران ہی بنیادوں پر ریاست کا نظام قائم کیا۔

(جاری ہے)

چین ، بھوٹان اور دیگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بنیاد علم و عدل پر استوار ہے مگر بد قسمتی سے اسلامی دنیا ، خاص کر اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی سرزمین پاکستان میں نہ علم کا معیار ہے اور نہ ہی عدل کی کوئی جھلک نظر آتی ہے۔

عام لوگوں کے بچے سکولوں ، کالجوں ، مدرسوں اور یونیورسٹیوں کے بجائے گلیوں اور محلوں میں پھرتے اور تھڑوں پر بیٹھتے ہیں۔ منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی نظران بچوں پر ہوتی ہے جو انہیں باقاعدہ ریکروٹ کرتے ہیں اور طرح طرح کے جرائم میں ملوث کر کے دولت کماتے ہیں ۔ایسے لوگ دہشت گردتنظیموں کے لیے بھی کام کرتے ہیں اور اپنی جان کے بدلے ہزاروں جانوں کا سودا کر لیتے ہیں ۔
قبضہ گروپ لوگوں کی ذاتی اور سرکاری قیمتی زمینوں پر چنگڑوں، گداگروں، لوفر لفنگوں اور جرائم پیشہ عناصر کو اکٹھا کر کے کچی اور جھگی بستیاں بساتے ہیں جس میں سیاسی جماعتیں ،این جی اوز اور بیورو کریسی بھی ملوث ہوتی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد حکومت قانون کی شعبدہ بازی دکھلا کر ان کچی بستیوں کی مسمارگی کا حکم دیتی ہے تو این جی او ، سیاسی جماعتوں کے نمائندے ، وکیل ، سول سوسائٹی اور مافیا کا تنخواہ دار میڈیا ان غریبوں اور بے گھروں کے حقوق کی بحالی کا علم اٹھا کر عدالتوں میں چلا جاتا ہے اور پہلے سے تیار کردہ حکم امتناعی کی آڑ میں اپنا کھیل کھیلتا ہے ۔
بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں کے مالکان ان سب چالوں اور قوانین سے بالا تر ہیں۔ ملک کے نامور وکیلوں سے لیکر ریٹائرڈ ججوں ، جرنیلوں اور پٹواریوں کی خدمت انہیں بھاری معاوضوں اور شاہانہ سہولیات کے عوض میسر ہیں اور ملکی آئین اور قانون ان پر بے اثر ہے ۔راولپنڈی ، اسلام آباد اور کراچی میں قائم ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان ہی اس ملک کے اصل مالک و مختار ہیں۔
ان کی کبھی کبھی اعلیٰ عدلیہ میں نمائشی جلوہ گری تو ہوتی ہے مگر حکم کی تعمیل نہیں کرتے چونکہ ملک کے نامور وکیل اور ہر سرکاری ادارے کا سربراہ ان کا تنخواہ دار ملازم ہے۔ تھڑے پر بیٹھا جرائم پیشہ آوارہ شخص ایسے وی آئی پی مجرموں سے متاثر ہو کر جرم کرتا ہے اور راتوں رات اپنے آئیڈیل کوتلاش کرتا وی آئی پی مجرم ، غنڈہ اور پھر سیاستدان اور وزیر بننا چاہتا ہے ۔
دیکھا جائے تو ہمارا سیاسی بازار ایسے بیوپاریوں سے بھرا پڑا ہے جن کا تخم جرم کے کھیت سے اٹھاہے۔ ایسے بااثر اور قانون سے مبّرا لوگ زندگی کے ہرشعبے میں بڑا مقام رکھتے ہیں اور عام آدمی اُن کے سامنے بے وقعت اور بے حیثیت ہے۔ اُن کی مرضی و منشأ کے بغیر نہ تو کوئی قانون بن سکتا ہے اور نہ ہی قانون کا نفاذ عمل میں آتا ہے۔ ملکی ترقی اُن کی مرضی کی محتاج ہے اور جو کچھ اس ملک میں ترقی و خوشحالی کے زمرے میں نظرآتا ہے یہ سب ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja