Episode 52 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 52 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

ہمارے صحافیوں ، خود ساختہ دانشوروں اور کھرب پتی سیاستدانوں نے شاید ہی کبھی قائداعظم کو اُن کی شخصیت ، کردار اور مستقبل بینی کے حوالے سے پڑھا ہو ۔ ہمارے دانشور ستر سالوں سے قائداعظم  کو سیکو لر سیاستدان اور لیڈر بنانے کی جستجو میں ہیں۔ جب عقل کے اندھوں اور کتابوں کا بوجھ اٹھانے والے انسان نما جانوروں کو کوئی راستہ نہیں ملتا تو قائداعظم  ، تحریک پاکستان ،افواج پاکستان اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسلام اور پاکستان مخالفین سے مال کمانے کا مجرمانہ دھندا شروع کر دیتے ہیں ۔
وہ نہیں دیکھتے کہ آج بھارت ، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ فاٹا کے حقوق کی ڈیمانڈ میں کوئی قباعت نہیں۔ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اپنے آئینی ، قانونی اور انسانی حقوق کا مطالبہ کر ے اور ریاست اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کو اولیّت دے ۔

(جاری ہے)

انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں امن کی بہار آئی اور عوام کو خوشحالی کی اُمید لگی وہاں بدامنی اور مایوسی پھیلانے والے عناصر نے دخل اندازی شروع کر دی ۔

اس میں شک نہیں کہ ڈیورنڈ لائن ، پاک ایران بارڈ ، راجستان سے سیالکوٹ تک پاک بھارت سرحد، لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ، پاک چائینہ سرحد کے آرپار ، واخان پٹی کے دونوں جانب حتیٰ کہ گوادر، تربت ، جیوانی اور عمان کے لوگوں کے درمیان حائل سمندر کے آرپار قبائل کی رشتہ داریاں اورایک دوسرے کیساتھ خونی رشتے ہیں۔ ایک جیسا رہن سہن ہے، ایک ہی کلچر و ثقافت ہے مگر سرحدوں کا احترام انٹرنیشنل قوانین کا احترام ، پڑوسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت حکومتوں کا فرض ہے ۔
کسی نے سچ کہا کہ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے کرایہ دار بدل جاتے ہیں ۔ بد قسمتی سے افغانستان اور بھارت نے ہمیں ایک پڑوسی ملک تسلیم کرنے کے بجائے کرایہ دار سمجھ رکھا ہے ۔ایک طرف گریٹر افغانستان اور دوسری طرف اکھنڈر بھارت کا خبط خطے کے امن کو تہہ و بالا کیے ہوئے ہے اور خود ہمارے ملک کے اندر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بھارت اور افغانستان کے نظریے کو درست تسلیم کرتے ہیں ۔
میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کی بھارت نوازی سے کون واقف نہیں مگر ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے بھو نپو کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ملک بھی نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی نواز شریف ہی کا ہے۔ اگر آلو گوشت کھانے سے سرحد مٹ سکتی ہے تو پھر وہ پاکستان کہاں ہے جو قائداعظم  نے مذاکرات کے ٹیبل پر بحثیت سیاسی جرنیل لڑ کر جیتا تھا ۔ اگر بلاول بھٹو، مریم نواز اور منظور پشتین کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے تو باشعور قوم ، پاکستان کا آئین اور آزاد عدلیہ کہاں ہے ۔
عمران خان کی خاموشی ، مولانافضل الرحمن ، اسفند یارولی ، آفتاب شیر پاؤ اور مولانا سراج الحق کی پی ٹی ایم کو تھپکی اور فرحت اللہ بابر کی بے چینی آخر کس مشن کی تکمیل کا شاخسانہ ہے۔ 
بھارت میں پانچ سو زبانیں اور پا نچ ہزار قومیں اور قبیلے بستے ہیں جن کا کلچر ، ثقافت ، تعلیم و تمدن الگ الگ ہیں مگر ریاست کو کوئی خطر ہ نہیں ۔ پاکستان میں زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں سندھی، پختون ، پنجابی ، بلوچ ، کشمیری، گلگتی ، بلتی اور دیگر قوموں اور قبیلوں کے لوگ ادنیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ ہوں ۔
بھارت میں کئی ایسے قبائل ہیں جنہیں سرکاری نوکریوں تک رسائی نہیں ۔ یہی حال افغانستان و ایران کا ہے۔ افغانستان میں صرف حکمران طبقے کے لوگ حکومتی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ۔ حکومت بدلتے ہی سارا نظام بدل جاتا ہے۔ ایران میں سنی ، بہائی اور پارسی مذاہب کے لوگوں کو سرکاری نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل نہیں۔
ایک طرف تنگ نظر بھارت اور احسان فراموش افغانستان ہے جو خود امریکی بیساکھیوں کے سہارے کھڑا اور عربوں کے صدقہ و خیرات پر زندہ ہے ۔مگر اُسے پاکستان کے پختونوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستا ن ہے جو پچاس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو اپنا دینی اور مذہبی بھا ئی سمجھ کر پچھلے چالیس سالوں سے خدمت کر رہا ہے۔ یہی حال بھارت کا بھی ہے۔
ساری بھارتی آبادی کو دن میں ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا ہے۔ نوے فیصد لوگ دو کپڑوں سے تن ڈھانپتے ہیں مگر پختونوں اور بلوچوں کے لیے بھارت دن رات بے چین ہے۔ بھارت اور افغانستان کی پاکستان مخالف شیطانی چالوں میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور صحافیوں کا ایک مخصوص ٹولہ بیرونی آقاؤ ں کے اشاروں پر وطن دشمنی پر اُتر آیا ہے ۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja