Episode 56 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 56 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

سات سوسال بعد برسراقتدار آنے والا نیازی کئی حوالوں سے منفراور کچھ حوالوں سے خود غرض، لا تعلق اور ناسمجھ ہے ۔ عمران خان نیازی میں حبیب خان نیازی جیسی صلاحتیں تو ہیں مگر طریق استعمال سے نابلد ہے۔ عمران کے حواری اُسے ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی بنانے کی پوری کوشش میں ہیں۔نوکرشاہی خاص کر پولیس ایسے کاموں کی ماہر ہے جو کسی بھی سیاسی آقا کے اشارے پر عمران خان کو مفلوج کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماضی میں ایوب خان ، بھٹو اور پرویز مشرف کی حکومتیں بیرونی اشاروں اور اندرونی سازشوں کے نتیجہ میں ہی ختم ہوئیں۔اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے انتخابی نعرے قابل عمل نہ تھے اور نہ اُس کی ٹیم میں خود اعتماد ی اور یکجہتی کا کوئی عنصر تھا۔ ہارون الرشید اور اُس جیسی سو چ کے حامل دانشور اُسے اپنے نظریے اور فکری اساس پر چلا کر بادشاہ گر کاکردارادا کرنا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

وہ لوگ جو بڑے صحافیوں اور ادیبوں کو مسلسل پڑھ رہے وہ جاتنے ہیں کہ بڑے قلم کاروں کا کبھی ایک قبلہ نہیں رہا۔ ہارون الرشید مکمل پاکستانی ہیں اور وسیع مطالعہ کے حامل دانشور ہیں مگر فکر و نظر کے حوالے سے مستقل مزاج نہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ اُن کے مزاج میں علمی تکبر اور خود غرضی کا عنصر غالب ہے۔ جیسا کہ پچھلے ابواب میں بیان ہوا ہے کہ ادب کے بغیر علم عالم کو جاہلوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔
سوائے انبیا ء کے ہر عالم پہلے طالب علم ہوتا ہے اور عالم کبھی اپنے علم کی تکمیل کا دعویٰ نہیں کرتا۔ علم کی ہنڈیا تکبر کی آگ سے اُبل کر خالی ہو جاتی ہے اور عالم کا حقیقی علم مخلوق کے لیے نقصان اور فتنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسا شخص نہ تو کسی کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اور نہ ہی اُسکا علم فیض کا موجب بنتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ایسے علماء کی ایک فوج علم برائے فروخت کا اشتہار بنی اخبارات ، ٹیلی ویژن چینلوں اور مختلف تقریبات میں جلوہ افروز نظر آئے گی مگر فرد اور معاشرے کے چلن پر ان علماء کی تقریروں ، تحریروں اور کردار وعمل کا کوئی اثر نہیں ۔
فرداور معاشرہ تنزلی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ریاست روبہ زوال ہے۔ ریاست کا نظام چلانے والا ہرشعبہ کرپٹ افراد سے بھرا پڑا ہے اور کرپٹ سرکاری اور سیاسی افسروں، اہلکاروں اور کارندوں کا اَن دیکھا اتحاد ملکی نظام اپنی مرضی سے چلا رہا ہے ۔ جن جرائم پیشہ لوگوں کوجیلوں میں بند ہونا چاہیے تھا وہ اسمبلیوں اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بیٹھے آئین اور قانون کی آڑ میں حکمرانی کالائسنس لیے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے سارا نظام زندگی مفلوج ہے۔
عوام نسل در نسل جبر و استحصال کے عادی ہیں اور مزاجاً ایسی حکومت اور حکمرانوں کے عادی ہیں جو میکاولین اور چانکیائی چالوں کے ماہر ہوں ۔ جس معاشرے کے ہیرو اور لیڈر چور، ڈاکو ، غنڈے ، سمگلر اور قانون شکن ہوں اور عوام انہیں مسیحا اور نجات دھند تسلیم کر لیں ایسا معاشرہ اور ریاست کبھی اصلاح اور فلاح کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ جبر کی کوک سے جبر ہی پیدا ہوتا ہے ضروری ہے کہ جبر کے ناسور پر نشتر چلایا جائے اور عوام کو جبر کے اندھیروں سے نکال کر اصلاح و فلاح کی روشن راہوں پر ڈالا جائے۔
عوام الناس صحافیوں ، دانشوروں ، ادیبوں ، اداکاروں ، سیاستدانوں، پیروں، سجادہ نشینوں اور علمائے کرام سے متاثر ہوتے ہیں۔ 
قائداعظم اور علامہ اقبال  کے کردا رو عمل سے مسلمانان ہند متاثر ہوئے تو برطانوی حکومت، کانگرس اور مسلمان علمأو دانشوروں اور سیاستدانوں کے ایک بڑے ٹولے کی مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا ۔ اخباروں میں شائع ہونے والے کالم، تبصرے ، فیچر اور مضامین نے شہروں اور دیہاتوں میں ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا اور عوامی رائے کو ہموار کیا۔
دیہاتوں میں سکولوں کے بچے خبریں ، کالم اور مضامین اَن پڑھ لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور لوگ ان سے متاثر ہوتے ۔پھر ریڈیو کا زمانہ آیا تو نامور فنکاروں، ڈرامہ نگاروں، صداکاروں اور ادیبوں نے معاشرے پر علمی ، ادبی ، معاشرتی ، ثقافتی اور سیاسی اثرات مرتب کیے ۔ ٹیلی ویژن بھی کسی حد تک ریڈیو کا معاون رہا مگر سوشل اور آزاد میڈیا نے اخلاقیات ، آداب، معاشرت اور سیاست کی کایاہی پلٹ دی اور کردار کشی کی اس آندھی نے ہر شخص کو بے لباس کر دیا۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja