Episode 28 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 28 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 وہ لکھتے ہیں کہ جی ایم سیّد نے ہی باچا خان ، عبدالصمد اچکزئی ، مجیب الرحمن اور بلوچ سرداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور حقوق کی جنگ ( پاکستان سے علیحدگی ) لڑنے پرزور دیا۔ آگے چل کر الطاف حسین نے آپ کے فرامین کے مطابق حقوق کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور حکومتی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھائی ۔تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو تحریک طالبان پاکستان اور پختون تحفظ تحریک کوئی نئی بات نہیں ۔
 
”کشمیراور سندھ“ کے عنوان سے کلکتہ یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے پروفیسر سرجن داس نے لکھا ہے کہ کشمیر ، سندھ اور بلوچستان کے مسائل کی ایک جیسی نوعیت ہے۔ جس طرح آزادکشمیر پر پاکستان نے جبراً قبضہ کر رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے نظام میں مداخلت کر رہا ہے ویسے ہی سندھ اور بلوچستان کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

سرجن داس کی پاکستان مخالف تحریراور ذہنی خلفشار تو سمجھ میں آتا ہے مگر پروفیسر غلام محمد لاکھو ، شعبہ تاریخ سندھ یونیورسٹی کا بغض اور بھارت نوازی سمجھ سے باہر ہے۔

پروفیسر لاکھو نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے سرجن داس کی تعریف کی اور اس کے شیطانی خیالات پر خراج عقیدت پیش کیا۔ 
18ویں آئینی ترمیم بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اس ترمیم نے آج نہیں تو کل وہی اثر دکھلانا ہے جس کی ابتدأ جی ایم سیّد ، باپا خان ، عبدالصمد اچکزئی اور شیر محمد مری کر چکے ہیں۔ 18ویں ترمیم کی تپش سے ہی پختونستان ، گریٹر بلوچستان ، سندھو دیش اور جناح پورکے سوتے سانپ پھنکارتے ہوئے اٹھیں گئے جنہیں این ڈی ایس ، را، سی آئی اے اور دیگر دودھ پلانے والے میدان میں اُتر چُکے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان نیازی میں ایسی بصیرت اور دانائی ہے کہ وہ اس زہر کا تریاق تیار کر سکے اور اُٹھتے ہوئے طوفان کا رخ موڑدے ۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان نے حقیقت شناسی کا مظاہرہ نہ کیا تو تقدیر کا فیصلہ ہر صورت ہو کر رہیگا۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو ملکی سلامتی ، قومی عزت ووقار کا نہ تو احساس ہے اور نہ ہی اُن کی ذمہ داری ہے ۔
دونوں بڑی جماعتوں کا پہلا مقصد فوج سمیت تمام اہم اداروں کواپنی پارٹیوں کے منشور کے مطابق چلانا اورہر سطح پر اپنے بندے لگا کر کام نکلوانا ہے۔ جب بھی ان دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اس خفیہ مشن پر بات ہوتی ہے تو ہمارے دانشور تین سوال اُٹھاتے ہیں۔ اوّل غداری کا سرٹیفکیٹ دینے کا کسی کو حق نہیں، دوسر اسوال کیا یہ لوگ محب وطن نہیں اور تیسرا سوال کیا ان کے بغیر ملک چل سکتا ہے؟ اس خود ساختہ دانشور ٹولے سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ملکی وسائل لوٹنا ، ملک کی محافظ فوج کے کردار کو غیروں کی شہ پر مشکوک بنانا ، اداروں کو تباہ کرنا او روطن عزیز میں بسنے والے ہر شخص کو غیر ملکی بینکوں اور مالی اداروں کا مقروض بنانا غداری نہیں تواورکیا ہے۔
 
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے عوام کا حق نہیں کہ وہ ان کے خلاف آواز بلند کرے اورعدالتیں ان پر غداری کا مقدمہ چلا کر ملکی سیاست کو گندگی سے پاک کردیں۔ کیا چند صحافیوں اور سیاستدانوں کے ذاتی ملازم دانشوروں کا ہی حق ہے کہ وہ ان لوگوں کے کارناموں پر قصیدے لکھ کر انہیں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کریں۔ آخر ی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم تاریخ اور قرآن کریم کے اسباق بھول گئے ہیں اور ہمیں کسی سچے رہبر و رہنماء کی ضرورت ہی نہیں؟
فرمان ربیّ ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کا کام پیغام پہنچانا اور ڈرانا ہے ۔
آگے فرما یا کہ جو اچھے عمل کرے گا ، سیدھے راستے پرچلے گا، میرا حکم بردار اور میرے خوف سے ڈرنے والا ہوگا ، انصاف کریگا ، رزق حلال کھائے گا ، میری مخلوق سے ہمدردی کریگا وہ میرا نیک بندہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے کہ زمین کی وسعتوں میں اترو اور ان قوموں کا حشر دیکھو جنہوں نے نافرمانی کی اور میں نے انہیں عبرت کا نشان بنادیا ۔ خالق کائنات خود ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں لاہے عمل تیار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اگرپیغمبروں اور عظیم سیاستدانوں اور منصوبہ سازوں کے بعد خدا کے قوانین کی روشنی اورحکمت کے تابع ساری کائنات کا نظام چل سکتا ہے تو چند کرپٹ لوگوں کے بغیر پاکستان کا نظام زیادہ بہتر چلے گا۔ ( انشاء اللہ) 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja