Episode 54 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 54 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

عمران خان نیازی اس لڑی کا تیسرا حکمران ہے جسے اُسی سرزمین پر حکومت ملی جہاں اُس کے جد اعلیٰ حبیب اللہ خان نیازی ، ہیبت خان نیازی اور عیسیٰ خان نیازی نے حکمرانی کی مگر آخر الذکر دونوں بھائیوں نے تاریخ میں کوئی اچھا نام نہ چھوڑا۔ بد عہدی،بے وفائی، سفاکی اورظلم دونوں بھائیوں کا خاصا تھا۔ اگرہم جناب ذوالفقار علی بھٹو ، آصف علی زرداری اور میاں برادران کی سیاست اور طریق حکمرانی کا ہیبت خان نیازی، عیسیٰ خان نیازی اور پنجاب کشمیر کے ایک ظالم حکمران مہر گل ہن کا موازنہ کریں تو سارے کردار ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
اسرار احمد راجہ نے اپنی کتاب ”کشمیر کا المیہ “ میں لکھا ہے کہ جس طرح مہر گل ہن پیر پنجال کے قریب واقع ہستی ونج کے مقام پر بیٹھا سو ہاتھیوں کو ہزاروں فٹ بلند چوٹی سے گرا کر لطف اندوز ہوتا رہا ایسے ہی میاں برادران اور اُن کی کابینہ کے اہم ارکان ماڈل ٹاؤن کے قتل عام سے لطف اندوز ہو تے رہے ۔

(جاری ہے)

وہ لکھتے ہیں کہ اتفاقاً مہر گل اور میاں برادران کا آبائی پیشہ ایک ہی تھا اور دونوں خاندان آہن گری کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے۔

 
سندھ میں راؤ انوار، آصف علی زرداری کا بیٹا اور عزیز بلوچ بھائی تھا تو الطاف بھائی ان سب کے بڑے بھائی تھے۔پنجاب میں عابد باکسر اور بقول ضیا شاہدکے بابووارث بدمعاش، محترم خواجہ سعد رفیق وہی کام کرتے تھے جو ہیبت نیازی شیر شاہ سوری کے لیے کرتاتھا۔ 
سرکاری ریکارڈکے مطابق پاکستان میں بم دھماکوں کی ابتداء نیشنل عوامی پارٹی نے کی اور تعلیمی ادارے بزور بندوق جماعت اسلامی نے فتح کیے ۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فیڈرل سیکیورٹی فورس کی بنیاد رکھی جس کے جیالوں کے سر سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد شاہنواز بھٹو نے الذولفقار بنائی جس کے کارناموں کی تفصیل بھٹو صاحب کے مشیر برائے امور نوجواناں جناب راجہ انور نے اپنی تصنیف ”دہشت گرد شہزادہ “ میں بیان کی ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان نے انجمن سپاہ صحابہ کی کوکھ سے جنم لیا اور پھر غیروں نے اسے اپنا لیا۔
 
جنر ل پرویز مشرف کی غلط پالیسوں کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیمیں مضبوط ہوئیں اور لاکھوں پاکستانیوں کے خون نے حکمران طبقے کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا۔ طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد امن کا جھونکا آیا ہی تھا کہ راؤ انوار نے ایک بار پھراسے بدامنی میں بدل دیا۔ نقیب اللہ مسعود کے قتل کے بعد مسعود تحفظ تحریک کا آغاز ہوا اور پھر منظور پشتین کا چہرہ سامنے آگیا۔
نقیب اللہ مرحوم کو بھول کر مسعود تحریک نے پختون تحفظ تحریک کا روپ دھار لیا تو ملکی اور غیر ملکی میڈیا سمیت پاکستان پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور خود حکمران جماعت کے کچھ افراد نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ سمیت دنیا بھر کے پاکستان مخالف میڈیا نے پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کر دیا مگرپی ٹی آئی حکومت نے کسی کو بھی موثر جواب نہ دیا۔
بی بی سی اوروائس آف امریکہ جیسے پاکستان مخالف ادارے ہمیشہ سے ہی پاکستان کے دشمن رہے ہیں۔ انہیں کبھی کشمیر ، فلسطین ، افغانستان ، بھارت اور برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر لکھنے اور بولنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ بی بی سی پر بولنے والے بھو نپو کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی ہی ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر ایمان کا سودا کیے بیٹھے ہیں ۔ بی بی سی اور دیگر پاکستان مخالف اداروں کو پاکستانی ہی شرانگیز مواد مہیا کرتے ہیں اور حکمران جماعتوں کے اہم افراد اس کی تائید کرتے ہیں۔
بلاو ل بھٹو اور مریم نواز کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر محب وطن اور پاکستانی ہیں ۔ ایک خود ساختہ Opinion Makerاینکر کے پروگرام میں ن لیگ کے غلام دستگیر خان نے کہا کہ فاٹا کے متعلق جو کچھ فوج ہمیں بتاتی رہی ہے اور ہم یقین کرتے رہے اب اس پر تحفظات ہیں کہ کیا یہ واقعی سچی رپورٹیں تھیں؟ Opinion Maker اینکر نے کہا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ فوج نے اصل بات نہیں بتائی تون لیگی لیڈر نے کہا کہ موجودہ حالات یعنی پی ٹی ایم کے حوالے سے فوج کا جو رویہ ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja