Episode 12 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 12 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

اس طرح نہیں کرتے رابطہ تو رکھتے ہیں
تھوڑا ملنے جلنے کا سلسلہ تو رکھتے ہیں
منزلیں بلند ہوں تو مشکلیں تو آتی ہیں
مشکلوں سے لڑنے کا حوصلہ تو رکھتے ہیں
جو تمہارے اپنے ہوں تم سے پیار کرتے ہوں
ان کا حال کیسا ہے کچھ پتا تو رکھتے ہیں
دوستی کے رشتے کو توڑتے نہیں ایسے
روٹھے دوستوں سے بھی واسطہ تو رکھتے ہیں 
چھوڑ جانے والے لوٹ کے بھی آتے ہیں
لوٹ کے وہ آنے کاراستہ تو رکھتے ہیں
اس صبح اُٹھ کر اپنا سیل فون چیک کیا تقریباً پاپا کے نمبر سے لاتعداد مسزکالز تھی اور پھر یہ میسج جس میں اپنے تئیں انہوں نے اس کی خفگی کو محسوس کرکے گویا اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
 
وہ بے اختیار مسکرا دی۔ وہ ان سے خفا تو نہیں تھی البتہ رات کو جلدی ضرور سو گئی تھی۔

(جاری ہے)

اس وقت ان کو کال کرنے کو نمبر ملایا تو کریڈٹ ختم تھا۔ وہ بے چین سی ہو کر بستر سے نکل آئی۔ 

ماما سر تک کمبل تانے ہنوز سو رہی تھیں۔ البتہ فضہ کا بستر خالی تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہوگی…؟ اشعر، ولید اور عاقب کے ساتھ ساتھ تاؤ جی کا ناشتہ بنانے میں مصروف۔
وہ چاروں صبح کو تھوڑے وقفے سے نکلا کرتے تھے۔ اس نے کلستے ہوئے اُٹھ کر اپنے ہینڈ بیگ سے کالنگ کارڈ ڈھونڈنا شروع کیا۔ ناکامی کی صورت میں جھلاہٹ بھرے انداز میں بیگ کو بستر پہ اُلٹ دیا۔ اس وقت اُسے شاک لگا تھا جب اس کی باقی تمام چیزوں میں اُسے ایک بھی کالنگ کارڈ نہیں ملا تھا۔ حالانکہ اس کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ اضافی کارڈ اپنے پاس رکھا کرتی تھی۔
نیہاں سے بھی بات کرنی تھی، کارڈ کی اشد ضرورت تھی۔ وہ پانچ سو کا نوٹ مٹھی میں دبائے شال گھسیٹ کر اوڑھتی دروازہ کھول کر باہر آئی۔ برآمدے کے آگے سے چت اُٹھاتے ہی شدید دھند نے اس کا استقبال کیا۔ اتنی شدید دُھند تھی کہ محض چند فٹ سے آگے کا منظر نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ گرم بستر سے ایک دم اُٹھ کر باہر آگئی تھی۔ وجود میں کپکپی سی چھوٹ گئی۔ مگر وہ پرواہ کئے بغیر سڑھیاں پھلانگتی نیچے آگئی تھی۔
 
”اشعر…! اشعر…!“
اس نے آخری سیڑھی پہ تھم کر زور سے آواز دی تھی۔ صحن میں لگے واش بیسن کے آگے کھڑے منہ ہاتھ دھوتے ولید نے گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔ آف وائٹ جینز پہ براؤن خوب صورت سی شال لئے وہ اس کی سمت متوجہ نہیں تھی، مگر اپنے اندر ایسی مقناطیسی کشش رکھتی تھی کہ وہ کئی ثانیے پلکیں نہیں جھپک سکا۔ 
”جی جناب…! حکم…!“
اشعر عین اس کے پیچھے آکر زور سے بولا تو وہ اپنی جگہ اُچھل پڑی اور گرنے سے بچنے کو بے اختیار گرل کو تھام لیا۔
 
”بد تمیز…! میں تمہیں ادھر ڈھونڈ رہی تھی۔“
وہ اس کی سمت مڑتے ہی خفا ہونے لگی۔ 
”میم…! ہم اوپر تھے۔“
اشعر نے مسکرا کر وضاحت دی۔ 
”مجھے کالنگ کارڈ چاہئے، کالج سے آتے ہوئے لادینا۔“
”کون سا کنکشن ہے آپ کے پاس…؟“
وہ اس کے بڑھائے نوٹ کو اِگنور کرتے ہوئے ایک سائیڈ سے ہو کر سیڑھیاں اُتر گیا۔
”زونگ…! مگر اس کے سگنل اکثر غائب ہو جاتے ہیں۔
وہ بتلا کر کسی قدر جھنجھلاکر کہہ رہی تھی۔ 
”آپ جاز کی کسٹمر بن جائیں ناں…! بہترین ہے۔“
”جانتی ہوں۔ سم تھی بھی میرے پاس، پتا نہیں اب بیگ میں ساتھ رکھ کر لائی ہوں کہ نہیں…؟ دیکھوں گی۔“
وہ اپنی دانست اُسے جتلا رہی تھی۔
”اور یہ پیسے تو لے لو…!“
وہ اسے جاتے دیکھ کر پکاری۔ 
”فکر نہ کریں، اتنا سا کام کر کے میں غریب نہیں ہو جاؤں گا۔
ویسے اگر ضروری کال کرنی ہے تو میرا سیل فون لے لیں۔“
ایمان ایک دم خاموش ہوگئی۔ اُسے شاید اشعر کو یہ کام نہیں کہنا چاہئے تھا۔ اُسے ایک دم خیال آیا تھا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا…؟ آئندہ اس نے احتیاط لازم کر لی۔ وہ بہت انا پرست تھی۔اُسے کسی پہ بوجھ بننا اچھا نہیں لگتا تھا۔ 
”کیا ہوا…؟ خاموش کیوں ہوگئیں…؟“
وہ پلٹ کر واپس آیا تھا۔
ولید شیو بنا چکا تھا۔ تار سے لٹکا تو لیہ اُتار کر منہ صاف کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا اور گویا تب ہی پہلی بار ایمان کی نگاہوں میں آیا۔ 
”نتھنگ…!“
وہ چونکی اور سنبھل گئی اور پھر جیسے کسی خیال کے آتے ہی واپسی سڑھیاں چڑھنے کا ارادہ ترک کر کے اشعر کی سمت آگئی۔ 
”سنو…! تمہارے یہ بھائی کچھ پراؤڈ نہیں ہیں…؟“
اس نے اُنگلی سے ولید کے کمرے کی سمت اشارہ کیا تھا۔
 
”کچھ…؟ بہت زیادہ پراؤڈ ہیں۔ دراصل ان کو لڑکیوں نے ان کی خوب صورتی کی وجہ سے بہت سر چڑھایا ہوا ہے۔ خود کو کچھ سمجھنے لگے ہیں۔“
وہ اس کی سمت جھک کر راز دارانہ انداز میں کہتا کچن میں آگیا جہاں مٹی کے تیل کے چولہے پہ فضہ چائے بنا رہی تھی جبکہ تائی ماں مکھن کے خستہ خستہ پراٹھے۔ کچن کی حدت آمیز فضا میں دیسی گھی کے پراٹھوں اور آملیٹ کی بہت اشتہا انگیز مہک پھیلی ہوئی تھی۔
اُسے دیکھ کر انہوں نے مسکرا کر اس کا استقبال کیا اور بیٹھنے کو پیڑھی پیش کی مگر اس کا دھیان اشعر کی سمت تھا جس کی بات نے اُسے طیش میں مبتلا کرنے میں ایک پل لگایا تھا۔ 
”اتنے بھی خوبصورت نہیں ہیں۔ دماغ خراب ہے لڑکیوں کا…؟“
”کیا ہو گیا ہے بھئی…! یہ ہماری گڑیا کو صبح صبح اُٹھتے ہی غصہ کیوں آنے لگا…؟“
اسی پل عاقب اندر آیا تھا۔
بلیک پینٹ، وائٹ شرٹ، مہرون سوئیڑ میں سلیقے سے بال بنائے وہ بہت صوبر سا نظر آرہا تھا۔ 
”یہ …ولید حسن …؟“
”کک… کچھ نہیں…!ہم تو بس یوں ہی…!“
اشعر نے بوکھلا کہ اس کی بات کاٹی مگر عاقب کے گھبرانے پہ منہ لٹکا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ 
”ہاں ایمی…! تم بتاؤ…! کیا ہواہے…؟“
عاقب کے انداز میں بے پناہ سنجیدگی تھی۔
 
”کچھ نہیں…! میں یوں ہی چھیڑ رہا تھا انہیں کہ ولی بھائی کا دماغ لڑکیوں نے ان کے حسن وجمال کی وجہ سے آسمان پہ پہنچا دیا ہے۔“
اشعر نے کان کھجا کر وضاحت پیش کی تو عاقب نے اس کے سر پہ ایک چیت لگائی تھی۔
”نان سینس…!“
عاقب نے پہلے اشعر کو ڈانٹنا تھا، پھر ایمان کے سامنے ولید کی حمایت میں بولا تھا۔
”وہ بالکل پراؤڈ نہیں ہے سویٹی…!ہاں…! البتہ تھوڑا لیا دیا انداز ہے۔
جلدی فرینک نہیں ہوتا۔ مگر جب کسی سے دوستی پکی کرتا ہے ناں…! تو پھر اُسے آخری دم تک نبھاتا ہے۔“
”جی…! وہ مجھے ان کا کمپیوٹر یوز کرنا تھا نا…! انہیں برا تو نہیں لگے گا…؟“
ایمان نے اپنے مطلب کی بات کی۔ 
”یہ تو ولی بھائی ہی بتا سکتے ہیں ناں…!“
اشعر کی زبان پر پھر خراش ہوئی تھی، مگر عاقب کی گھوری پہ منہ بند کر کے بیٹھ گیا۔
 
”ہرگز بھی نہیں…! تم جب چاہو، جو مرضی چیز استعمال کر سکتی ہو۔ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں…!“
عاقب نے اس کا گال تھپک کر کہا تو وہ ایک دم مسکرا دی تھی۔ 
”تھینک یو…! سو مچ…!“
اگر اس فقرے میں بھائی کا اضافہ کر لیتے تو مجھے اور بھی اچھا لگتا۔ دیکھ لو اب میری شرافت پہ شبہ نہ کرنا۔ ایک بے حد حسین لڑکی کو خود سے بہن بنانے کو تیار ہوں۔“
وہ ہلکے پھلکے انداز میں ہنس کر کہہ رہا تھا۔ ایمان بھی زور سے ہنس پڑتی تھی۔ 
                                             ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط