پتا نہیں سفر اتنا طویل تھا ہی نہیں جو اتنی جلدی منزل بھی آگئی تھی۔ کھانے پینے کے بعد اس پہ سستی سی طاری ہوئی تو وہ وہیں ماما کی گود میں سر رکھے سو گئی تھی۔ دوبارہ آنکھ فضہ کے جگانے پہ کھلی تھی۔
”اُٹھو بھئی…! اسٹیشن آگیا ہے۔ اُترو…! فٹا فٹ کرو…! یہاں گاڑی زیادہ دیر رُکتی نہیں ہے۔ “
فضہ عجلت بھرے انداز میں سامان سمیٹ رہی تھی۔
ماما بھی اُٹھ کر اپنا بیگ اُٹھانے لگیں۔ ایمان نے سخت اُکتاہٹ بھرے انداز میں کھڑکی سے باہر دیکھا۔ غیر مصروف سا اسٹیشن تھا، جس کی عمارت بھی خستہ اور بوسیدہ تھی۔ اِکا دُکا کھوکھے تھے جن میں ایک پان سگریٹ کا، تو دوسرا نان پکوڑوں والا۔ تیسرے پہ غالباً پھل سجے ہوئے تھے۔ چند ایک اونگھتے ہوئے مسافر بھی سنگی بنچوں پہ بیٹھے تھے۔
(جاری ہے)
البتہ ٹرین کے اندر ایک ہنگامہ بپا تھا۔
سامان گھسیٹتے اُترنے والوں نے سر پہ اُٹھایا ہوا تھا جن میں ایک فضہ کا دھان پان سا وجود بھی شامل تھا اور اسی کوشش میں اس کی ایڑی کے نیچے کسی خاتون کا پیر آگیا۔ پھر تو پنجابی لب ولہجے میں آہ وبکا اور گالیوں کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ فضہ کی معذرت اسی طوفان میں گھٹ کر اپنی حیثیت کھو بیٹھی۔
”پتا نہیں یہ شہر کے لوگ تو پنڈ والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ لیتے ہیں۔
حد ہے بھئی…!“
خاتون کی لعنت و ملامت ابھی تھمی نہیں تھی کہ ایک اسٹوڈنٹ نے اپنا پف جھٹکتے ہوئے لقمہ دیا تھا۔ فضہ کی خجالت کچھ اور بڑھ گی۔ ایمان بے زاری سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔
”تمہارے پاپا تو کہہ رہے تھے ہمیں اسٹیشن پہ کوئی لینے آئے گا۔ فون کرکے بتا دیا ہے۔پتا نہیں کوئی پہنچا بھی ہے کہ نہیں …؟“
”السلام علیکم…! میں عاقب حسن ہوں۔ مصطفی شاہ کا بیٹا۔“
ایک مہذب گھمبیر آواز پہ ان کی گردنیں یگانگی انداز میں مڑی تھیں۔ سفید کھدر کی شلوار، گرے کُرتا، بلیک لیدر کی چپل۔ وہ ایک دراز قد کا اچھا خاصا خوبرو سا لڑکا تھا۔
”وعلیکم السلام…! کیسے ہو…؟“
ماما نے گویا مروتاً ہی شوہر کے بھتیجے کا احوال دریافت کیا تھا۔
جبکہ ایمان اس کا سر تا پاؤں جائزہ لینے میں مصروف رہی۔
”الحمد اللہ…! آپ لوگوں کو سفر میں کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہوئی…؟“
وہ جھک کر ان کے بیگ اُٹھا رہا تھا۔ ایمان کے چہرے پہ تمسخر پھیل گیا۔
”اگر ہوئی بھی ہو تو کیا کریں گے آپ…؟“
ماما کے لہجے میں کاٹ دار طنز تھا، جہاں فضہ بے طرح گھبرائی تھی، وہاں عاقب حسن نے بہت چونک کر اُسے گویا پہلی مرتبہ گھور کر دیکھا تھا اور اس کے معصوم سے چہرے پہ موجود بچگانہ سی خفگی کو محسوس کر کے روا داری سے مسکرا دیا۔
”ریلوے پولیس میں میرا کوئی عہدہ تو نہیں ہے، مگر آپ کی خاطر میں کسی سے بھی پنگا لے سکتا ہوں۔“
اس کے فریش لہجے میں خفیہ سی شرارت تھی۔ یقینا وہ پہلی ملاقات میں ہی بے تکلف ہونے والوں میں سے ہوگا۔
”میری خاطر کیوں…؟“
وہ خواہ مخواہ چڑی۔
”بھئی…! آپ میری کزن ہیں۔ آپ کی خاطر بھی اگر کوئی ایکشن نہ لوں تو فائدہ میرے اتنے جوان ہونے کا…؟“
جواباً وہ دانت نکال کر بولا۔
فضہ ہنس پڑی۔ جبکہ ایمان کا موڈ کچھ اور خراب ہو گیا تھا۔ وہ سامان اُٹھائے ٹرین سے اُتر آئے۔ عاقب نے اتنا سامان اُٹھا رکھا تھا کہ ایمان کو اُسے دیکھ کر اُلجھن ہونے لگی۔
”ماما…! قلی کر لیں بھئی…! مجھے لگ رہا ہے جیسے کسی گھوڑے پہ سامان لدا ہو۔“
ایمان کی ہنسی نکل گی۔ فضہ نے اُسے گھورا۔ اس کا خیال تھا عاقب نے لازماً مائنڈ کیا ہوگا۔
مگر اُسے مسکراتے دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی تھی۔
”سوری…! یہ ایمی تھوڑا مذاق کی عادی ہے۔ آپ نے مائنڈ تو نہیں کیا…؟“
فضہ کو ہر کسی کی فکر رہا کرتی تھی۔ ایمان اپنے بیگ سے چیونگم نکال کر لاپرواہی سے منہ میں ڈال رہی تھی۔
”نہیں بھئی…! ہم اتنے تنگ ذہن اور تنگ دل نہیں ہیں کہ ایسی باتوں سے مائنڈ کر جائیں۔ یہ تو ہماری ننھی سی بہن ہیں۔
“
عاقب نے اس شائستگی سے کہا تو پہلی بار ایمان کو تھوڑی سی ہمت نے گھیرا تھا۔ ایسی ہی باتوں کے دوران وہ لوگ اسٹیشن کی عمارت سے نکل آئے۔ سامنے ایک ہی پکی سٹرک تھی جس کے دونوں اطراف کھیت تھے۔ سرد ہواؤں نے ان کا استقبال کیا تھا۔ ایمان کا خیال تھا وہ انہیں ٹانگے میں لے کر جائے گا۔ مگر اُسے ایک سائیڈ پہ کھڑی سفید کرولا کی طرف بڑھتے دیکھ کر اُسے بے اختیار سکون کا احساس ہوا۔
فضہ اس سے تاؤ جی، تائی ماں، دادا کے علاوہ ولید اور عاشر کی خیریت دریافت کر رہی تھی۔عاقب انہیں سب کے متعلق تفصیل سے بتاتا رہا۔
”دادا بیمار رہنے لگے ہیں۔ اب تو یقینا ٹھیک ہو جائیں گے۔ “
اس نے اپنی بات کے اختتام پہ قدرے شرارت سے ان کی سمت دیکھا۔
”اب کیسے…؟“
فضہ نے دلچسپی سے اس کی بات کو آگے بڑھایا۔ وہ ڈگی میں سامان رکھ کر انہیں پچھلی سیٹوں پہ بٹھانے کے بعد خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا تھا۔
ان کی شدید خواہشوں میں سے ایک خواہش اپنی پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بھی رہی ہے ناں…! جب سے آپ کی آمد سے باخبر ہوئے ہیں، آدھی بیماری تب سے ہی رخصت ہوگئی ہے۔“
وہ ہنس کر وضاحت کر رہا تھا۔ ایمان نے ٹھنڈا سانس بھر لیا۔
”جانے کس کس کی خواہشوں اور دُعاؤں نے آج ہمیں اس موڑ پہ لاکھڑا کیا ہے…؟“
وہ نئے سرے سے گھلنے لگی۔
جبکہ فضہ یقینا خوش ہوگئی تھی جبھی اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ اس نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھا اور کھڑکی کی طرف رُخ پھیر لیا۔
کھیت کھلیان پیچھے رہ گئے تھے۔ اب باغات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔امرود، مالٹوں اور سیب کے وسیع باغات تھے، جن کی تازہ مہک فضا میں پھیلی ہوتی تھی۔
”یہ گاڑی تمہاری اپنی ہے…؟“
ماما کی چپ ٹوٹی تھی اور انہوں نے پہلی بار کوئی سوال کیا تھا اور فضہ کے خیال میں انتہائی نامعقول۔
”نہیں چچی جان…!یہ میرے دوست کی گاڑی ہے۔ آپ لوگوں کی سہولت کے لیے اُس سے لایا ہوں۔ ہم پچھلے سال گاڑی لینا چاہ رہے تھے مگر ابا نے منع کر دیا۔ ہمارا ٹریکٹر بہت پرانا ہو گیا تھا۔ ابا چاہتے تھے گاڑی کی بجائے نیا ٹریکٹر لے لیا جائے،ہل چلانے کے لئے۔“
وہ پھر تفصیل سنا رہا تھا۔ ایمان کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی…؟وہ بے زاری سے باہر جھانکتی رہی۔
گاڑی اب ٹیوب ویل کے پاس سے گزر رہی تھی۔ایک گدھا گاڑی جس پہ لکڑی کے کریٹ تھے،ان کی گاڑی کے آگے آگئی تھی۔عاقب نے رفتار ہلکی کر دی۔ٹیوب ویل کا پانی سرعت سے نالوں سے ہوتا فصلوں کو سیراب کرتا جا رہا تھا۔
”تو کیا تم لوگ بھی بھائی مصطفی کے ساتھ کھیتوں پہ کام کرتے ہو…؟“
ماما پتا نہیں سارا انٹرویو ابھی لینا چاہ رہی تھیں۔ فضہ نے عاقب حسن کے بیک ویو پر سے دکھائی دیتے چہرے پہ سادہ سی مسکان اُترتے دیکھی تھی۔
”جی…! میں تو شہر میں جاب کرتا ہوں۔ میرے پاس تو بہت کم وقت ہوتا ہے کہ ان کا ہاتھ بٹا سکوں۔ البتہ ولید اور اشعر چونکہ ابھی پڑھ رہے ہیں، تو وہ ضرور یہ کام دیکھ لیتے ہیں۔یوں مل جل کے کام ہو ہی رہا ہے۔ شکر ہے اللہ کا…!“
فضہ نے بالخصوص محسوس کیا کہ اس کے لہجے و انداز میں ایک مخصوص قسم کی انکساری اور سادگی تھی۔
”افوہ…! اس کا مطلب، آج پھر آپ کو ہماری وجہ سے آف کرنا پڑا ہوگا…؟“
فضہ کو انجانی سی خفت نے گھیر لیا اور وہ اپنے فطری سادہ سے انداز میں ہنس پڑا۔
”ارے…! تکلیف کیسی …؟ میرے لئے تو یہ ہی بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس قابل سمجھا کہ یہاں کچھ وقت گزارنے کے لئے آئے ہیں۔ آپ کا اپنا گھر ہے۔ “
گو کہ عاقب کا انداز ہرگز بھی بہلانے والا نہیں تھا،اس کے باوجود ایمان کے دل میں ایک تیر سا پیوست ہوگیا۔ اس نے ایک بار پھر خود کو اسی یاسیت کے حصار میں گھرتے محسوس کیا تھا۔
###