رات کا کھانا سرشام ہی کھا لیا گیا۔ کھانے پر خصوصی اہتمام تھا۔ چکن پلاؤ، چکن جل فریزی، تین قسم کے کباب، سلاد، کسٹرڈ،کھیر وغیرہ
فضہ نے یہ کھانا آپا کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا اور اب اسی بے تکلفی سے کھا بھی رہی تھی۔ جبکہ ایمان کا جی پہلے نوالے سے ہی اوب گیا۔ اُسے کھانے سے دُھوئیں کی مہک آرہی تھی۔
”کیا ہوا…؟ کھانا اچھا نہیں لگا پُتر…؟“
تائی ماں کی نظریں گویا اسی پہ تھیں۔
اس کے چہرے کے بے زار کن زاویے کو ولید نے بطور خاص نوٹس کیا اور ناگواری سے چہرہ پھیر لیا۔ جبکہ وہ تائی ماں کے اس سوال پہ گڑ بڑا گئی کہ تاؤ جی کے علاوہ دادا اور عاقب بھی ہاتھ روک کے سوالیہ نگاہوں سے اُسے تکنے لگے تھے۔
”نہیں…! یہ بات نہیں، بس مجھے اتنی ہی بھوک تھی۔
(جاری ہے)
“
اس نے بات بنانا چاہی کہ جتنی بھی بے مروّت سہی، مگر بہرحال وہ ان پیارے لوگوں کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”لے…! ابھی تو نے کھایا ہی کیا ہے…؟اتنے چڑی کا پیٹ بھرنے جتنے تو نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالے، وہ بھی یوں ہی پڑے ہیں۔ کھا پُتر…! کھا، آرام سے۔“
تاؤ جی نے خود اس کی پلیٹ بھر دی۔ کباب، دہی بھلے، سلاد، سالن، منٹوں میں اس کے آگے اتنی ساری چیزیں پیش کر دی گئیں۔ محض تاؤ جی کا دھیان خود سے ہٹانے کی خاطر وہ کباب ٹھونسنے لگی اور پھر سب سے پہلے وہی دستر خوان سے اُٹھی تھی۔
”آپ کی دلچسپی کس چیز میں ہے…؟“
کچھ دیر بعد ہی اشعر اُٹھ کر اس کے پیچھے آگیا۔ وہ جو باہر برآمدے میں کھڑی گہری ہوتی رات اور آسمان پہ اُمڈتے بادلوں کو خاموش کھڑی دیکھ رہی تھی، ذرا سا چونکی اور پھر تلخی سے سر جھٹکا۔
”کچھ نہیں…!“
اس کے انداز میں محسوس کیا جانے والا نخوت تھا۔ مگر اشعر نے پھر بھی کو ئی تاثر نہیں دیا۔
”کچھ نہیں …؟ یہ تو ممکن نہیں ہے۔“
پھر اس کے گھورنے پہ خفیف سا مسکراتے ہوئے گویا وضاحت دیتے ہوئے بولا تھا۔
”دیکھئے ناں…! ہر انسان کو کسی نہ کسی چیز میں دلچسپی ہوتی ہے۔ جیسے مجھے کھیلوں میں، عاقب بھائی کو کتابوں میں، جبکہ ولی بھائی کو کمپیوٹر میں، اور ہماری آپا کو اپنے شوہر اور بچوں میں۔ اماں کو گھر داری میں، ابا کو اپنے کھیتوں اور فیصلوں میں۔
“
اُس نے تحاشا گھورنے پہ دانت نکوستے ہوئے بے تکلفی سے کہا تھا۔
”بھئی…! میں آپ کی بات کا جواب دے رہا تھا۔ ویسے اس وقت آپ کو یہاں کھڑے دیکھ کر پتا ہے مجھے کیا خیال آیاتھا…؟“
وہ بڑی راز داری سے بولا۔ ایمان نے کسی قسم کا اشتیاق اور دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ تب بھی وہ اس ٹون میں بولتا رہا تھا۔ جیسے آسمان پہ تنہا اُداس چاند۔
”آپ ہمیشہ ہی اتنی خاموش رہتی ہیں…؟ یہاں آنا اچھا نہیں لگا…؟“
وہ پھربے تکان سوال کر رہا تھا۔ ایمان نے اُچاٹ نظریں اس پہ جمائیں اور نروٹھے پن سے بولی تھی۔
”دوسری بات زیادہ صحیح ہے…!“
اُسے خبربھی نہ ہوئی اور اس کے پیچھے دروازے پر رُکے کھڑے ولید حسن کی پیشانی پہ اس کے جواب نے ناگواری کے احساس کو یکلخت دوگنا کر دیا تھا۔
”اشعر…!“
انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کسی قدر بلند آواز سے پکارا دونوں میں چونک کر مڑے تھے۔
”اپنے کمرے میں جاؤ…! کبھی اسٹڈی پہ از خود بھی توجہ دے لیا کرو۔“
وہ برہمی سے کہہ کر لمبے ڈگ بھرتا صحن اور ڈیوڑھی کو عبور کرتا بیرونی دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ایمان کو اس کا روّیہ بہت شدت سے محسوس ہوا تھا۔ایک توہین آمیز سا احساس اُسے چھو کر گزر گیا۔
”چلتا ہوں…! لگتا ہے بھائی کا مزاج آج گرم ہے۔ویسے اگر آپ کو میری کمپنی کی ضرورت ہو تو میں دل وجان سے حاضر ہو جاؤں گا۔ “
وہ کھلکھلاتا ہوا کہہ کر بیٹھک میں گھس گیا۔ایمان وہیں کھڑی ہوئی ہونٹ چباتی رہی۔ ولید کے گھورنے پہ عذر کرتی رہی تھی۔ گھر کے دیگر افراد کی طرح اس نے نہ تو اُسے اہمیت دی تھی نہ ہی اس پر خصوصی توجہ۔ اس نے جانا تھا جیسے وہ اُسے خصوصی طور پر نظر انداز کرتا رہا ہو۔
”مگر کیوں …؟“
ایمان کی نازک طبع پہ ناگوار سا بوجھ پڑگیا۔
”کیوں کر رہا ہے وہ میرے ساتھ ایسا…؟کیا ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بہت قابل ہے …؟“
اس نے تنفر سے سوچا اور اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹک گئی تھی۔
”کہیں اُسے ہمار ایہاں آنا برا تو نہیں لگا…؟یقینا یہی بات ہے…!“
اس نے اپنی سوچ پہ خود ہی تصدیق کی مہر بھی ثبت کر ڈالی۔اس خیال کا پختہ ہونا تھا کہ اس پل گویا اس نے ولید سے ایک سر باندھ لیا تھا جو آنے والے وقتوں میں شدید تلخی کا باعث بن جاتا۔
###