”مسکراہٹ کا ہر اِک راز ملاقات سے تھا
میری آنکھوں میں چھپا غم بھی تیری ذات سے تھا
تو نے جانا ہی نہیں اس دل کی تمنا کیا ہے
کچھ تعلق تیرا مجھ سے، میرے جذ بات سے تھا“
وہ اپنے دھیان میں کمرے سے نکل کر آئی تھی۔دیوار کے ساتھ بچھی چارپائی پہ کتابیں پڑی تھیں۔ یقینا اشعر یہاں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھ آئی۔ شاعری کی کھلی کتاب کے صفحے ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔
اس نے یوں ہی ہاتھ بڑھا کر کتاب اُٹھائی تو جہاں سے کھلی تھی، وہاں نہ صرف صفحہ فولڈ کیا گیا تھا، بلکہ ریڈ مارکر سے پوری غزل کو انڈر لائن کیا گیا تھا۔ لمحہ بھر کو نظریں ساکن ہوگئیں۔ وہ پھر سے دوبارہ پڑھنے لگی۔
”یاد کر تو، تیری ہر بات کو مانا میں نے
خواہشِ دل کا تعلق بھی عنایات سے تھا
صبح کی تازہ ہوا میں بھی زہر شامل تھا
شب کے اس ظلم کا انداز تیری ذات سے تھا
دل جو ٹوٹا تو بدن بھی ہوا ریزہ ریزہ
سلسلہ جسم کا دل کا میرے جذبات سے تھا
بھولنے والے تیری یاد کے لمحوں کی قسم
کس قدر حسن تیری یاد کے لمحات سے تھا
کوئی بھی آس نہیں زیست بھی ہے بے معنی
میری سانسوں کا میرے حالات سے تھا
بات کرتا ہوں تو وہ سامنے آجاتا ہے
اس طرح ربط میرا اس کے خیالات سے تھا“
اس کا دل جانے کیوں گداز سا ہونے لگا… کتاب بند کی اور ٹھوڑی کے نیچے ٹکا کر وہ کچھ سوچنے لگی تھی، جب اشعر کی شوخی سے بھرپور کھنکار پر بدمزہ ہو کر پلٹی۔
(جاری ہے)
”مجھے پتا تھا یہ شغل ویہلے نکموں والا صرف تم ہی سے منسوب ہو سکتا ہے۔“
اشعر زور سے ہنس پڑا۔ پھر سر کو نفی میں جنبش دیتا ہوا بولا ۔
”ناں جی…! اللہ نے ہمیں تو بچا کے رکھا ہوا ہے اس فضولیات سے۔ یہ تو ایک لیچڑ قسم کا دوست پیچھے پڑا ہوا ہے کہ کچھ اچھی شاعری سینڈ کروں، تب ولی بھائی کی کتاب چرا کر لایا تھا نقل کرنے کے لئے۔
لائیے…! واپس رکھ آؤں۔“
اس نے کتاب لینے کو ہاتھ بڑھایا۔
”تمہارے ولی بھائی عجیب سے نہیں ہیں…؟انہیں دیکھ کر ایسا نہیں لگتا جیسے کسی سے عشق وشق فرماتے ہوں…؟“
اس نے بظاہر سرسری انداز میں کھوج لگانے کی کوشش کی کہ وہ تو اتنا چکنا گھڑا تھا، کبھی پھوٹ کرنہ دیتا۔
”ہاں جی…! آپ کا اندازہ درست ہے۔ بے چارے مریضِ محبت ہیں۔
“
اشعر کی بات پر وہ ایک دم اندر سے کھل اُٹھی، مگر بظاہر سنجیدگی سے بولی تھی۔
”ہوں…! کون ہے وہ لڑکی…؟“
”انہیں ہی پتا ہوگا۔“
اب کی بار اشعر نے صاف کنّی کترائی تھی۔
”بتا دو مجھے بھی، میں کون سا انہیں جا کر بتانے والی ہوں…؟“
اس نے بے نیازی سے کہا، مگر اندر تجسس نے اودھم مچا رکھا تھا۔
”ایک بارپتا چل جائے، ثبوت ہاتھ لگ جائے، پھر میں کیسی درگت بناتی ہوں ولید حسن…! تمہاری، دیکھنا تم…!“
”مجھے واقعی نہیں پتا ہے، ٹرسٹ می…!“
اشعر نرمی سے کہہ کر کتاب لئے سیڑھیاں اُتر گیا۔
وہ چلبلا کر رہ گی۔ اُسے پورا یقین تھا، جب تاؤ جی، فضہ کی پاپا سے بات کریں گے، لازماً برسوں قبل طے کئے اس کے رشتے کی بات بھی چلے گی اور تب اُسے ولید سے حساب چکتا کرنے کا موقع میسر آجائے گا۔ مگر وہ منتظر ہی رہی تھی اور ایسا کوئی تذکرہ نہیں ہوا تھا۔ ایک حیرانی کے ساتھ ساتھ ایک بے مائیگی اور اِنسلٹ کا بھی احساس تھا جو اُسے دھیمی دھیمی آگ میں جلا رہا تھا۔
بھلے اُسے ولید کی ذات میں دلچسپی نہیں تھی، مگر یہ احساس تو تھا ناں کہ وہ اس کے نام سے منسوب ہے۔ مگراب یہ خاموشی اُسے بے چینی کے گرداب میں اُلجھا رہی تھی۔ ہر وہ یقین جو اُسے یہ احساس بخشتا رہا تھا کہ وہ اس کی ذات میں اِنوالو ہے، ہاتھ چھڑاتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی جگہ اس خدشے نے دل میں جگہ بنانا شروع کر دی تھی کہ کہیں ولید کسی اور میں اِنٹرسٹڈ تو نہیں ہے…؟ وہ چاہتی تو کسی سے بھی اس بات کی تصدیق کرا سکتی تھی۔
فضہ سے، ماما سے، بابا سے۔ مگر اس کی بلند و بالا سی اَنا کو ہرگز بھی یہ گوارہ نہیں تھا۔
نیچے گاڑی کے ہارن کی آواز سن کروہ اپنے خیالات سے چونک اُٹھی۔ یقینا عاقب حسن تھا۔ اس کے ذہن میں ایک خیال نے سرعت سے جگہ بنائی تو تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نیچے آگئی۔
”عاقب بھائی…!“
اس نے آخری سیڑھی پہ رُک کر اپنے کمرے کی سمت جاتے عاقب حسن کو بے اختیار پکارا تھا۔
”جی جناب…! حکم…!“
عاقب پلٹا اور مشفق قسم کی نظروں سے اُسے دیکھ کر مسکرایا۔
”مجھے گاڑی کی چابی چاہئے…!“
”کہیں جانا ہے کیا…؟“
عاقب ایک پل کو چونکا۔ اس نے محض گردن کو اثبات میں جنبش دی۔
”آؤ…! میں چلتا ہوں تمہارے ساتھ…!“
عاقب اُلٹے قدموں مُڑ کر اس کے نزدیک آگیا۔ اس نے ایک بار پھر سر کو نفی میں ہلایا۔
انداز میں مخصوص ہٹ دھرمی اور ضد کا عنصر تھا۔
”مجھے اکیلے ہی جانا ہے۔ ویسے مجھے گاڑی ڈرائیور کرنا آتی ہے، ڈونٹ وری…!“
انداز ایسا تھا، گویا جتا رہی ہو۔
”آپ کی گاڑی کو نقصان نہیں پہنچاؤں گی۔“
عاقب نے کچھ کہے بغیر کوٹ کی جیب سے چابی نکال کر اس کی سمت بڑھا دی۔
”تھینکس…!“
اس نے چابی اُچکی اور ان کی نگاہوں کی تشویش کو نظرانداز کئے آگے بڑھ گئی تھی۔
###