”بس دُھوپ اور ریت ہے اور پیاس کا سفر
کیا دل کے سامنے کسی صحرا کو دیکھتی
اس چشم سرد مہر کے سب رنگ دیکھ کر
کیا اشتیاقِ عرض تمنا کو دیکھتی
اس شہرِ بے نیاز میں جب تک رہا قیام
حسرت رہی کہ چشمِ شناسا کو دیکھتی“
اُسے آئے ہوئے چوتھا دن تھا اور اس دوران ایمان سے اس کا متعدد بار سامنا ہوا تھا اور ہر بار اس کی یکسر غیر اور اُچٹتی اجنبی نگاہوں نے ایمان کے دل کے لاتعداد ٹکڑے کئے تھے۔
وہ اس طرح اسے اِگنور کئے ہوئے تھا گویا اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو۔
کتنا بدل گیا تھا وہ ہر لحاظ سے۔ پہلے سے ولید کو تو کہیں گم کر آیا تھا۔ سنجیدگی ایسی جامد کہ کسی کو بات کرنے سے قبل الفاظ تولنے پہ اُکسائے، نگاہوں کی مستقل سرخیوں میں بہتی غیریت میں جو سرد مہری تھی، وہ ہر رشتے کو ایک فاصلے پہ ہی نہیں، ایک حد میں رہنے پر از خود مجبور کرتی تھی۔
(جاری ہے)
جب وہ آیا تھا، تو ایمان نے کتنے اشتیاق آمیز انداز میں کچن کی کھڑکی سے اُسے دیکھا تھا۔ بلیک ٹو پیس میں اس کا ورزشی دراز سراپا بے حد نمایاں تھا۔ وجاہت و خوبروئی تو پہلے بھی کیا کم تھی، مگر وہاں کے ماحول نے اس کی شخصیت میں جو نکھار اور بے نیازی پیدا کی تھی، وہ اُسے کچھ اور بھی دلکشی سونپ گئی تھی۔
ایمان بھیگتی آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
”تمکنت سے تجھے رُخصت تو کیا ہے لیکن
ہم سے ان آنکھوں کی حسرت نہیں دیکھی جاتی
کون اُترا ہے آفاق کی پنہائی میں
آئینہ خانے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی“
اشعر نے اُسے دیکھ کر بے ساختہ اشعار پڑھے تھے۔ہونٹوں پر ستائش سے بھری مسکان تھی، مگر اس کی سنجیدگی کا وہی عالم تھا۔
”ماہِ تمام ابھی چھت پہ کون آیا تھا
کہ جس کے آگے تیری روشنی بھی ماند ہوئی“
اشعر واقعی مرعوب تھا یا پھر اتنا خوش کہ اس خوشی کے الفاظ کا پیراہن پہنا کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔
ولید نے سپاٹ نظریں اُٹھائیں۔
”تمہاری شادی کب ہے اشعر…؟“
”ابھی تو ایک ماہ ہے۔ میری شادی کی تیاریوں پر تو آپ جناب کی آمد کی مبارک خوشیاں چھا گئیں ہیں۔ سبھی کچھ اُدھورہ ہے جناب…!“
وہ جواباً مصنوعی آہ بھر کے بولا۔
”فکر کیوں کرتے ہو…؟ ولید کے آجانے سے جہاں گھر کی خوشیاں مکمل ہوتی ہیں، وہاں اُدھورے کام بھی جلد سمٹ جائیں گے۔
انشاء اللہ…!“
عاقب نے مسکراتے ہوئے گویا اُسے تسلی دی۔ اشعر فرشی سلام جھاڑنے لگا۔
”بابا…! بڑے چاچو تو چھوٹے چاچو سے بھی زیادہ گڈ لکنگ ہیں۔“
عاقب کی گود میں چڑھی بیٹھی فاطمہ جو تب سے مسلسل ولید کو دیکھ رہی تھی۔ معصومانہ جوش سے بولی۔ ایک مشترکہ قہقہہ پڑا جبکہ اشعر کا منہ اُتر گیا۔
”فاطمہ کی بچی…! تجھے کاندھوں پر بٹھا کر سیریں کراتے کاندھے میرے گھسے تھے، چاکلیٹس اور آئس کریم کھلاتے میری جیبیں خالی ہوگئیں اور تعریفیں بڑے چاچو کی ہو رہی ہیں…؟بے وفا بھتیجی…!“
وہ مصنوعی غصے سے دانت کچکچانے لگا تو ایک لمحے کو سہی، ولید کے سنگی چہرے پر بھی ایک نرم سی روشن مسکان اُتری ۔
آف وائٹ، خوب پھولی ہوئی فراک میں ملبوس، ریشمی بالوں کو خوب صورت انداز میں سمیٹ کر سلور پنوں سے جکڑا گیا تھا۔ خوب صورت، معصوم سا بیضوی چہرہ اور ستاروں کی مانند دمکتی سیاہ گھور آنکھیں، وہ بے حد کیوٹ تھی۔ ولید نے اشارے سے اُسے اپنے پاس بلایا تو اگلے ہی لمحے باپ کی گود سے اُچھل کر وہ اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔
”نو پپا…! آپ اس سے پیار نہیں کریں گے۔
آپ صرف میرے پپا ہیں، مجھ سے ہی پیار کریں گے۔“
ولید نے اُسے اپنے قریب کیا ہی تھا کہ اُمید حسن نے شدید غصے میں آتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے فاطمہ کو زور سے دھکا دیا تھا، وہ گرتے گرتے بچی۔ وہاں موجود تمام لوگوں کو ایک دم جیسے سکتہ ہوگیا۔
”بری بات اُمید بیٹا…! فاطمہ آپ کی بہن ہے اور آپ کے پاپا اس کے چاچو ہیں۔ اشعر چاچو کی طرح اشعر چاچو بھی آپ سے پیارکرتے ہیں ناں…! جیسے عاقب پاپا کرتے ہیں آپ سے۔
اس طرح آپ کے پاپا بھی فاطمہ سے پیار کر سکتے ہیں۔“
ایمان جو کھانے کے لئے انہیں بلانے آئی تھی، اس کو نرمی و حلاوت سے سمجھا رہی تھی۔
”لیکن اشعر چاچا، عاقب پاپا، فاطمہ سے بھی تو پیار کرتے ہیں ناں…! لیکن میرے پاپا میرے پاس نہیں تھے، یو نو…! میں بہت مِس کرتا تھا انہیں۔“
وہ ایک دم بھبک کر رو پڑا۔ ایمان کو یک بارگی اس کی محرومی کی شدت کا اندازہ ہوا تھا۔
ولید جو تب سے ہونٹ بھینچے لاتعلق اور خاموش بیٹھا رہا تھا، کسی طرح بھی خود کو اُمید حسن کو کھینچ کر گلے لگانے سے نہ روک سکا۔
”آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے ناں پپا…؟“
وہ ہچکیوں کے درمیان بولا۔ ولید کی آنکھوں کی سرخیاں مزید گہری ہوگئیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ پہ ساکن تھا۔ اس جذباتی منظر نے تائی ماں کی آنکھیں بھگو ڈالیں۔
”پرامس کریں ناں پپا…! آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔
ویسے ہی جیسے عاقب پاپا، فاطمہ اور خالہ جانی کے ہر وقت ساتھ رہتے ہیں۔“
اونچی آواز میں روتا ہوا اُمید حسن سسکیاں بھر بھر کے سوال کر رہا تھا اور ولید خاموش تھا۔ ایمان سے مزید نہیں ٹھہرا گیا تو تیزی سے پلٹ کر چلی گئی۔ اس بات سے بے خبر کہ ولید کی سلگتی آنکھوں نے دروازے تک اس کا پیچھا کیا ہے۔
###