Episode 105 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 105 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”بس دُھوپ اور ریت ہے اور پیاس کا سفر
کیا دل کے سامنے کسی صحرا کو دیکھتی
اس چشم سرد مہر کے سب رنگ دیکھ کر
کیا اشتیاقِ عرض تمنا کو دیکھتی
اس شہرِ بے نیاز میں جب تک رہا قیام
حسرت رہی کہ چشمِ شناسا کو دیکھتی“
اُسے آئے ہوئے چوتھا دن تھا اور اس دوران ایمان سے اس کا متعدد بار سامنا ہوا تھا اور ہر بار اس کی یکسر غیر اور اُچٹتی اجنبی نگاہوں نے ایمان کے دل کے لاتعداد ٹکڑے کئے تھے۔
وہ اس طرح اسے اِگنور کئے ہوئے تھا گویا اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو۔ 
کتنا بدل گیا تھا وہ ہر لحاظ سے۔ پہلے سے ولید کو تو کہیں گم کر آیا تھا۔ سنجیدگی ایسی جامد کہ کسی کو بات کرنے سے قبل الفاظ تولنے پہ اُکسائے، نگاہوں کی مستقل سرخیوں میں بہتی غیریت میں جو سرد مہری تھی، وہ ہر رشتے کو ایک فاصلے پہ ہی نہیں، ایک حد میں رہنے پر از خود مجبور کرتی تھی۔

(جاری ہے)

جب وہ آیا تھا، تو ایمان نے کتنے اشتیاق آمیز انداز میں کچن کی کھڑکی سے اُسے دیکھا تھا۔ بلیک ٹو پیس میں اس کا ورزشی دراز سراپا بے حد نمایاں تھا۔ وجاہت و خوبروئی تو پہلے بھی کیا کم تھی، مگر وہاں کے ماحول نے اس کی شخصیت میں جو نکھار اور بے نیازی پیدا کی تھی، وہ اُسے کچھ اور بھی دلکشی سونپ گئی تھی۔
ایمان بھیگتی آنکھوں سے اُسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
”تمکنت سے تجھے رُخصت تو کیا ہے لیکن
ہم سے ان آنکھوں کی حسرت نہیں دیکھی جاتی
کون اُترا ہے آفاق کی پنہائی میں
آئینہ خانے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی“
اشعر نے اُسے دیکھ کر بے ساختہ اشعار پڑھے تھے۔ہونٹوں پر ستائش سے بھری مسکان تھی، مگر اس کی سنجیدگی کا وہی عالم تھا۔
”ماہِ تمام ابھی چھت پہ کون آیا تھا
کہ جس کے آگے تیری روشنی بھی ماند ہوئی“
اشعر واقعی مرعوب تھا یا پھر اتنا خوش کہ اس خوشی کے الفاظ کا پیراہن پہنا کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔
ولید نے سپاٹ نظریں اُٹھائیں۔
”تمہاری شادی کب ہے اشعر…؟“
”ابھی تو ایک ماہ ہے۔ میری شادی کی تیاریوں پر تو آپ جناب کی آمد کی مبارک خوشیاں چھا گئیں ہیں۔ سبھی کچھ اُدھورہ ہے جناب…!“
وہ جواباً مصنوعی آہ بھر کے بولا۔
”فکر کیوں کرتے ہو…؟ ولید کے آجانے سے جہاں گھر کی خوشیاں مکمل ہوتی ہیں، وہاں اُدھورے کام بھی جلد سمٹ جائیں گے۔
انشاء اللہ…!“
عاقب نے مسکراتے ہوئے گویا اُسے تسلی دی۔ اشعر فرشی سلام جھاڑنے لگا۔
”بابا…! بڑے چاچو تو چھوٹے چاچو سے بھی زیادہ گڈ لکنگ ہیں۔“
عاقب کی گود میں چڑھی بیٹھی فاطمہ جو تب سے مسلسل ولید کو دیکھ رہی تھی۔ معصومانہ جوش سے بولی۔ ایک مشترکہ قہقہہ پڑا جبکہ اشعر کا منہ اُتر گیا۔
”فاطمہ کی بچی…! تجھے کاندھوں پر بٹھا کر سیریں کراتے کاندھے میرے گھسے تھے، چاکلیٹس اور آئس کریم کھلاتے میری جیبیں خالی ہوگئیں اور تعریفیں بڑے چاچو کی ہو رہی ہیں…؟بے وفا بھتیجی…!“
وہ مصنوعی غصے سے دانت کچکچانے لگا تو ایک لمحے کو سہی، ولید کے سنگی چہرے پر بھی ایک نرم سی روشن مسکان اُتری ۔
آف وائٹ، خوب پھولی ہوئی فراک میں ملبوس، ریشمی بالوں کو خوب صورت انداز میں سمیٹ کر سلور پنوں سے جکڑا گیا تھا۔ خوب صورت، معصوم سا بیضوی چہرہ اور ستاروں کی مانند دمکتی سیاہ گھور آنکھیں، وہ بے حد کیوٹ تھی۔ ولید نے اشارے سے اُسے اپنے پاس بلایا تو اگلے ہی لمحے باپ کی گود سے اُچھل کر وہ اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔
”نو پپا…! آپ اس سے پیار نہیں کریں گے۔
آپ صرف میرے پپا ہیں، مجھ سے ہی پیار کریں گے۔“
ولید نے اُسے اپنے قریب کیا ہی تھا کہ اُمید حسن نے شدید غصے میں آتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے فاطمہ کو زور سے دھکا دیا تھا، وہ گرتے گرتے بچی۔ وہاں موجود تمام لوگوں کو ایک دم جیسے سکتہ ہوگیا۔
”بری بات اُمید بیٹا…! فاطمہ آپ کی بہن ہے اور آپ کے پاپا اس کے چاچو ہیں۔ اشعر چاچو کی طرح اشعر چاچو بھی آپ سے پیارکرتے ہیں ناں…! جیسے عاقب پاپا کرتے ہیں آپ سے۔
اس طرح آپ کے پاپا بھی فاطمہ سے پیار کر سکتے ہیں۔“
ایمان جو کھانے کے لئے انہیں بلانے آئی تھی، اس کو نرمی و حلاوت سے سمجھا رہی تھی۔ 
”لیکن اشعر چاچا، عاقب پاپا، فاطمہ سے بھی تو پیار کرتے ہیں ناں…! لیکن میرے پاپا میرے پاس نہیں تھے، یو نو…! میں بہت مِس کرتا تھا انہیں۔“
وہ ایک دم بھبک کر رو پڑا۔ ایمان کو یک بارگی اس کی محرومی کی شدت کا اندازہ ہوا تھا۔
ولید جو تب سے ہونٹ بھینچے لاتعلق اور خاموش بیٹھا رہا تھا، کسی طرح بھی خود کو اُمید حسن کو کھینچ کر گلے لگانے سے نہ روک سکا۔
”آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے ناں پپا…؟“
وہ ہچکیوں کے درمیان بولا۔ ولید کی آنکھوں کی سرخیاں مزید گہری ہوگئیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ پہ ساکن تھا۔ اس جذباتی منظر نے تائی ماں کی آنکھیں بھگو ڈالیں۔
”پرامس کریں ناں پپا…! آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔
ویسے ہی جیسے عاقب پاپا، فاطمہ اور خالہ جانی کے ہر وقت ساتھ رہتے ہیں۔“
اونچی آواز میں روتا ہوا اُمید حسن سسکیاں بھر بھر کے سوال کر رہا تھا اور ولید خاموش تھا۔ ایمان سے مزید نہیں ٹھہرا گیا تو تیزی سے پلٹ کر چلی گئی۔ اس بات سے بے خبر کہ ولید کی سلگتی آنکھوں نے دروازے تک اس کا پیچھا کیا ہے۔
                                     ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط