”ہو نہ دُنیا میں کوئی ہم سا بھی پیاسا لوگو
جی میں آتی ہے پی جائیں یہ دریا لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سنی تھی باتیں
ہم جو آئے تو کسی نے بھی نہ پوچھا لوگو
اتفاقاً ہی سہی پر کوئی در تو کھلتا
جھلملاتا یہیں چلمن کوئی سایہ لوگو
سب کے سب مست اپنے اپنے نہاں خانوں میں
کوئی کچھ بات مسافر کی بھی سنتا لوگو
کسی دامن کسی آنچل کی ہوا تو ملتی
جب سرِ راہ یہ درماندہ گرا تھا لوگو
اِک تصویر تھی کیا جانئے کسی کی تصویر
نقش موہوم سے اور رنگ اُڑا سا لوگو
اِک آواز تھی کیا جانئے کس کی آواز
اس نے آواز کا رشتہ بھی نہ رکھا لوگو
پھر وہی دشت ہے دشت کی تنہائی ہے
وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا لوگو
اس میں ہمت ہے تو آئے اُٹھا دے یہ حصار
اپنے گنبد میں تو در ہے نہ دریچہ لوگو
جی کی جی میں ہی رہیں حسرتیں طوفانوں کی سی
یہ سفینہ تو کنارے پہ ہی ڈوبا لوگو
بند آنکھیں ہوئی جاتی ہیں پساریں پاؤں
نیند سی نیند ہے اب ہمیں نہ اُٹھانا لوگو
آج کی ڈاک سے کیا کوئی لفافہ آیا
کسی سرگوشیاں کرتے ہوا دے گیا لوگو
کوئی پیغام زبانی بھی نہیں کچھ بھی نہیں
ہم نے اپنے کو بہت دیر سنبھالا لوگو
ایک ہی شب ہے طویل اتنی طویل اتنی طویل
اپنے ایام میں امروز نہ فردا لوگو
اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
راہ تکتے ہوئے پتھرا سی گئی تھیں آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
ہونٹ جلتے تھے جو لیتا تھا کبھی آپ کا نام
اس طرح کسی اور کو نہ ستانا لوگو“
وہ خاموش ہوئی تو اسما (اشعر کی بیوی) نے سب سے زیادہ فراخ دلی سے اُسے داد دی تھی۔
(جاری ہے)
جبکہ چائے کی طلب میں اُٹھ کر اس سمت آنے والے ولید حسن کے چہرے پر کاٹ دار تمسخر پھیل گیا تھا۔
ماضی کی یادکو دُہراتے ہوئے اشعر نے اپنے ولیمے کی رات سخن کی اس محفل کو سجایا تھا اور سب سے خاص دعوت ولید حسن کو دی تھی، جسے اس نے بڑی رکھائی کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا۔ لہجہ و انداز ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اشعر اصرار کا حوصلہ کرتا، جبھی مایوس لوٹ گیا۔
”ابن انشاء نے جتنا کمال لکھا بھابی…! آپ کے لہجے نے اسی قدر سجایا ہے اس کلام کو۔ رئیلی…! بہت دل خوش ہوا۔ ویسے اتنی مایوسی کی باتیں آپ کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں۔ وہ بھی اس صورت کہ ولید بھائی دیارِ غیر سے تشریف لا چکے ہیں…“
اسما کی کھنک دار ہنسی میں اس کے درد سے بے خبری کا عنصر نمایاں تھا، مگر وہاں موجود چہرے پر جو خاموشی اور اذیت تھی، وہ ایمان کی آنکھوں میں سے درد کو پہچان جانے کی عکاسی تھی۔
اس روز ولید حسن کے ساتھ جب وہ واپس آئی تھی تو اپنے حواسوں میں نہیں تھی، ایک سکتے کی کیفیت تھی، جس نے سب کو ہراساں کر دیا تھا۔
”کیا ہوا ہے ایمان کو…؟ تم بولتے کیوں نہیں ہو کچھ…؟“
تائی ماں نے ولید حسن کو جھنجھوڑ ڈالا تھا، جس سے اس کی آنکھوں سے نکلتی آگ کی لپیٹوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔
”مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں…؟ یہ بیٹھی ہے ناں آپ کے سامنے، ویسے بھی مجھ سے زیادہ آپ کو اس کا یقین ہے ناں…؟“
کسی قدر تلخی سے کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔
سب کے پوچھ پوچھ ہارنے پر بھی ایمان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔ بس اُمید حسن سے ہی اتنی بات کا پتا چل سکا تھا کہ ماما پاپا کی لڑائی ہوئی ہے۔
”دادو…! پاپا اور ماما کی لڑائی کیوں ہوئی ہے…؟“
اُمید حسن کے سوال پر تائی ماں نے سرد آہ بھری تھی۔
”پتا نہیں پُتر…! کس کی نظر کھا گئی میرے بچوں کو…؟“
انہوں نے اُسے گلے لگا کر رقت آمیز آواز میں کہا اور اپنے آنسو پونچھتی اُٹھ گئیں۔
کتنی بار وحشت کی انتہا پہ پہنچ کر اس نے سوچا تھا۔
وہ مر جائے، کسی بھی طریقے سے، پنکھے سے لٹک کر، خود کو آگ لگا لے یا پھر تیز دھار آلے سے اپنی کلائی کی شہ رگ کاٹ ڈالے۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے پچھتاوے میں مبتلا کر جائے ولید حسن کو۔
مگر ہر بار… ہر بار حرام موت پہ خدا کا خوف اس کی راہ میں بلند و بالا دیواریں کھڑی کر گیا تھا۔
وہ خودکشی تو نہیں کر سکی تھی مگر پھر بھی جیسے مر گئی تھی۔ شادی کی ہر ہر تقریب میں اپنا ہر فرض، ہر حق ادا کرنے کے باوجود جیسے زندگی کا احساس اس کے اندر سے ڈھونڈے سے بھی نہ ملا تھا اور تائی ماں کو تو اس کے مشینی انداز پہ ہول اُٹھنے لگے تھے۔
بار بار انہوں نے ولید کو حقیقت بتلانا چاہی، مگر ہر بار وہ اس کی بات سنے بغیر اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ سب اسے اس کے حال پر چھوڑ چکے تھے، مگر تائی ماں اور ماما کے دل کسی طور بھی مطمئن نہیں تھے، مگر وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہی تھیں۔
###