Episode 51 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 51 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

ولید کی خواہش تھی، ایمان کا برائیڈل ڈریس وہ خود پسند کر کے لائے۔ کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا…؟ مگر جب یہ ا جازت مل گئی تو اس نے ایک اور خواہش ظاہر کر دی، ایمان کو ساتھ لے جانے کی۔ جس کی کچھ تامل سے سہی، مگر بہرحال اجازت مل گئی تھی۔
”اُٹھو فٹافٹ…! تیار ہو جاؤ…!“
وہ اپنی فتح پہ سرشار مسکراتا ہوا اس کے پاس آکر چٹکی بجا کر بولا۔
ایمان مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے اپنی وارڈروب کھولی تو کوئی بھی لباس اس قابل نہ لگا کہ آج کے دن پہن کر جا سکے۔بہت دیر تک اِسی اُلجھن میں مبتلا رہنے کے بعد اس نے بلیو جینز کے ساتھ آف وائٹ چکن کا ٹاپ اور جینز کا اپر سلیکٹ کیا تھا۔ چینج کرنے کے بعد اس نے لانبے بالوں کو سلجھا کر کیچر میں جکڑدیا۔ آئینے میں خود کو دیکھا اور مطمئن ہو کر باہر آگئی۔

(جاری ہے)

یقینا ولید اسی تاخیر کی وجہ سے اوپر آیا تھا، اس سے ٹکراؤ برآمدے میں ہی ہوگیا۔
”سوری…! آپ کو ویٹ کرنا پڑا۔ ایکچوئلی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی، کون سے کپڑے پہنوں…؟“
”یہ کپڑے پہن کر جاؤ گی…؟“
ولید نے ایک نگاہ اس کے سانچے میں ڈھلے دلکش و سڈول سراپے پہ ڈال کر سنجیدگی سے سوال کیا تو ایمان قدرے کنفیوز ہوگئی تھی۔
”کیا اچھے نہیں لگ رہے…؟“
”ایمان…! یہاں بیٹھو…!“
ولید نے اُسے واپس کمرے میں لاکر بیڈ پر بٹھا دیا۔
”ایک بات کہنے لگا ہوں، بہت دھیان سے سننا ہے، اوکے…!“
وہ اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتا ہوا اسی سنجیدگی سے بولا تو ایمان اس کی سنجیدگی سے خائف ہونے لگی۔
”اگر ہم اپنے ارد گرد غور کریں تو دیکھیں گے کہ دُنیا میں موجود ہر انمول اور قیمتی چیز کو اللہ نے سب کی نظروں سے دُور، بہت چھپا کر ڈھیروں پرتوں کے نیچے بہت پیار سے رکھا ہوا ہے۔
چاہے وہ پہاڑوں کی چٹانوں کے تلے چھپے جواہرات ہوں یا پھر سمندر کی تہہ میں موجود سیپ کے اندر پنپتے نادر و نایاب موتی۔ ہر پیش قسمت چیز ہمیں بہت حفاظت سے دُنیا کی آلائشوں سے پاک محفوظ رکھی نظر آئے گی۔
بالکل ایسا ہی ایک قیمتی اور گراں قدر خزانہ عورت کی ذات بھی ہے جس کا وجود اتنا ارزاں ہرگز نہیں کہ ہر نظر بآسانی اس تک رسائی حاصل کر سکے۔
لہٰذا خود کو نایاب اور انمول بناؤ۔ تاکہ ہر اُٹھنے والی نگاہ از خود تمہارے احترام میں عزت سے جھکنے پر مجبور ہوجائے۔“
کس قدر گہری بات اس نے اس قدر شائستگی، نرمی اور خوب صورتی سے کہی تھی کہ ایمان کو برا بھی نہیں لگا اور ایک اہم خامی کی سمت اشارہ بھی کر دیا گیا۔ وہ آہستگی سے مسکرا دی۔
”آپ چلئے…! میں دوبارہ چینج کر کے آتی ہوں، اور اس مرتبہ آپ کو انتظار کی زحمت بھی نہیں اُٹھانا پڑے گی۔
اس کے لہجے میں خفیف سی شوخی تھی۔ ولید جیسے ہلکا پھلکا سا ہو کر مسکراتا باہر نکل گیا۔ ایمان نے دوبارہ کپڑوں کی الماری کھولی اور بلوچی کڑھائی کا وہی گولڈن براؤن سوٹ نکال لیا۔ اُسے اپنی ٹیچر سے سنی وہ بات یاد آگئی تھی جو انہوں نے لیکچر کے دوران کہی تھی۔
”دیکھ لو…! آدم و حوا علیہم السلام کا لباس شیطان نے اُتروا دیا۔ جب وہ بے لباس ہوئے تو خدا نے انہیں زمین پر بھیج دیا۔
اب وہی شیطان پھر تمہارا لباس چھین رہا ہے۔ ابن آدم و بنت حوا کا لباس مختصر سے مختصر، لباس کم نظر آتا ہے، جسم زیادہ۔ یا اگر لباس پورا ہے بھی تو ایسی شیب میں کہ وجود کے خدوخال کو نمایاں و اُجاگر کرتا ہے۔ذرا سوچیں…! آدم علیہ السلام توجنت سے نیچے زمین پر آگئے تھے۔ تم زمین سے کدھر جاؤگے…؟ اس سے نیچے تو دوزخ ہے۔“
وہ دوبارہ چینج کر کے نیچے آئی تو ولید حسن کی نگاہیں اُسے تکتے لو دینے لگی تھیں۔
”تھینکس فار دس آفر…!“
”مائی پلثرر…!“
تائی ماں نے اُسے گلے سے لگا کر بہت ساری دُعاؤں کے ساتھ فی امان اللہ کہا اور وہ خوب صورت احساسات کے ساتھ پہلی بار اس کے ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی۔
”ماشاء اللہ…! اس فرمانبرداری کے مظاہرے سے تو مجھے لگ رہا ہے محترمہ ساری عمر مجھے سر آنکھوں پہ بٹھائیں گی۔“
پرُشوق نظریں، آنچ دیتا ہوا لہجہ، وہ پھر سے اپنی ٹون میں واپس آگیا تھا۔
”لیکن صرف اچھی اور جائز بات…!“
اس نے اُنگلی اُٹھا کر تصحیح کی اور ولید حسن مسکرانے لگا۔
”تمہیں پتا ہے، جب تم نے بابا سے میرے ساتھ کالج جانے سے انکار کیا تو مجھے کتنا غصہ آیا تھا…؟ اور میں نے کون سی بددُعا تمہیں دی تھی…؟“
گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے اس نے گفتگو کا رُخ پھیرا۔ ایمان نے نفی میں سر ہلا کر دلچسپ سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔
”وہ بددُعا تمہیں لگی ہے، جبھی تم اس وقت میرے ساتھ بیٹھی ہو، یعنی عمر بھر میرے ہی ساتھ سفر کرنے کی۔“
ایمان نے جھینپ کر اُسے ایک گھونسا دے مارا تھا۔ شاپنگ کے دوران ولید نے اپنی نہیں، اس کی پسند کو اوّلیت دی تھی۔ مگر جب لہنگے کے انتخاب کا مرحلہ آیا، تب ولید نے اس کی رائے بھی گوارہ نہیں کی تھی اور گولڈن کلر کا لہنگا پیک کرنے کا کہا تھا۔
ایمان نے منہ بنا لیا۔
”کوئی اور کلر دیکھ لیں ناں…! یہ فیشن میں اتنا اِن نہیں ہے۔“
”ڈونٹ وری…! ہم پینڈو لوگ ہیں،فیشن کی دوڑ میں ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔“
اس نے کاندھے جھٹک دیئے تو ایمان نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ مگر جب نکاح کے بعد اُسے فوٹو سیشن کے لئے ولید کے ساتھ لا کر بٹھایا گیا، تب وہ ہی نہیں، جتنے لوگوں نے بھی اُسے دیکھا، کئی ثانیے پلکیں جھپکانا ہی بھول گئے تھے۔
سر اُٹھاتی حسین جوانی کا روپہلا قیامت خیز حسن اس سج دھج اور آرائش کے ساتھ ہوش ربائی کے جلوؤں کی بجلیاں گراتا دیکھنے والی نگاہوں کو چکا چوند کر رہا تھا۔
ولید تو اس کے جلوؤں کی تاب نہ لاتے ہوئے گویا گنگ رہ گیا تھا۔ اس کے محفل میں آنے سے قبل وہ ہر کسی پہ چھایا ہوا لگ رہا تھا، مگر جب ایمان کو لا کر بٹھایا گیا تو گویا قدرت کی کوئی حسین تخلیق مکمل ہوگئی تھی۔
”اگر میری محبت روشنی کی صورت ہوتی تو تم اتنی روشن ہو جاتیں کہ جہاں بھی اندھیرے میں قدم رکھتیں، اُجالا ہوجاتا۔“
ولید حسن نے اس کی سمت جھک کر بوجھل سرگوشی اس کی سماعتوں میں اُتاری، جس نے اس کے چہرے کو حیا بار کر دیا۔
”اگر میری محبت خوشبو کی صورت ہوتی تو تم اتنی معطر ہو جاتیں کہ جہاں بھی جاتیں، ساری فضائیں مہک اُٹھتیں۔
دھیمے، مخمور سرگوشیانہ انداز میں اپنے دل میں سنبھالے بے تاب اظہار کو اس کی سماعتوں کی نذر کیا۔ ایمان کچھ اور جھینپ گئی اور لرزتی پلکوں کی جھالریں اُٹھا کر اُسے دیکھا، مگر وہ چند لمحوں سے زیادہ دیکھ نہیں پائی۔ اس کی نگاہ کی وارفتگیوں نے اُسے پلکیں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔
”اگر میری محبت خوشی کی صورت ہوتی تو دُنیا تمہیں دیکھتے ہی مسکرانے لگتی۔
مجھے دُنیا میں ایسا کوئی پیمانہ نظر نہیں آتا جو میری محبت کی گہرائیوں کی شدتوں کو ناپ سکے۔“
اس سہانے سمے جب سب ہی مہمان پنڈال سے اُٹھ کر کھانے کے لئے چلے گئے تھے، تب ولید نے اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے پہلی بار اس کے ہاتھ پہ اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے بہت گھمبیر لہجے میں ایک اور اقرار کیا تھا۔
”تمہیں پتا ہے، میں کبھی دوست نہیں بنا پایا۔
ایسا دوست جو مجھے محسوس کر سکے، میں بارش میں چل رہا ہوں، میرا چہرہ پانی سے تر ہو مگر وہ میرے آنسوؤں کو پہچان لے، میرے مسکراتے چہرے کی آڑ میں چھپے غم کو پہچان لے، میری خاموشی کے پیچھے بولتے لفظوں کو سن سکے، میرے غصے میں چھپی میری محبت کو دریافت کر سکے۔
 ایمان…! تمہیں پتا ہے۔ ایسا میرا صرف ایک ہی دوست تھا، اور وہ ہے اللہ…! میں نے اللہ سے تمہاری محبت تمہاری دوستی مانگی تھی۔ کرو گی مجھ سے دوستی…؟“
وہ اپنا ہاتھ پھیلائے عہد چاہ رہا تھا۔ ایمان نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ کر عہد نبھانے کا عزم کیا تھا۔ 
                                             ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط