Episode 95 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 95 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

”محبت تم نے کب کی ہے
محبت میں نے کی ہے
تم نے تو اِک خامشی کو اوٹ میں رکھ کر
کچھ اپنے لمس کے مصرعے میرے دل میں اُتارے ہیں
لب نم ساز کے غم میں کئی نظمیں بگھو کر
میرے شانوں پر بکھیری ہیں
محبت تم نے کب کی ہے
تم نے اپنی آنکھوں میں دُور تک اسرار میں ڈوبی ہوئی
ایک شام جیسی سرد آنکھوں میں مجھے تحلیل کرنا تھا
سو میں بھی ایک بے وقعت سے لمحے کی طرح اب تک
تمہارے پاؤں کی مٹی سے لپٹا ہوں
نہ تم نے اس مٹی کو جھٹکا ہے
نہ اس بے وقعت بے مایا لمحے کو اُٹھا کر اپنی پیشانی پر رکھا ہے
تمہاری خامشی کی اوٹ میں میرے لئے کیا ہے
بہت کچھ ہے مگر اقرار کی جھلمل نہیں ہے
سمندر موجزن ہے اور کوئی ساحل نہیں ہے“
وہ کب سے اس کے انتظار میں صحن میں چکرا رہی تھی۔

(جاری ہے)

آج اس نے معمول سے زیادہ دیر کر دی تھی۔ پتا نہیں کہاں رہ گیا تھا…؟ اس کا فون بھی پِک نہیں کر رہا تھا۔ صبح اسے کہا تھا، تیار ہو کر رہے، واپسی پر اسے فضہ کے پاس ہاسپٹل لے کر جائے گا۔
اشعر بیٹھک میں تھا اور اپنی اسٹڈی میں مصروف۔ ددا اپنے کمرے میں غالباً مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ تاؤ جی ابھی کچھ دیر قبل ہی کھیتوں سے واپس آئے تھے اور وہ انہیں کھانا دے کر چائے کا پوچھنے لگی، جس سے انہوں نے منع کر دیا تھا۔
”مجھے ایک بار پھر ان کا سیل ٹرائی کرنا چاہئے…!“
وہ اس سوچ کے ساتھ ہی سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی۔ موبائل فون سمیت نیچے آئی تو تاؤ جی کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جا رہے تھے۔ ایمان نے ایک بار پھر ولید کا نمبر ڈائل کیا، بیل جاتی رہی مگر کال ریسیو نہیں ہوئی۔ وہ کسی قدر جھنجلائی تھی اور سیل فون صحن میں بچھی چارپائی پہ پٹخ کر کمرے میں جانے لگی تھی کہ اسی وقت بیرونی دروازے پہ دستک ہوئی، ساتھ ہی بائیک کی آواز بھی تھی۔
وہ یقینا ولید حسن تھا۔ وہ تیزی سے دروازے کی جانب لپکی، مگر تب تک اشعر بیٹھک سے نکل کر دروازہ کھول چکا تھا۔ بائیک گیٹ کے اندر لاتے ولید کی سفید خون آلود شرٹ پہ نگاہ پڑتے ہی ایمان کی چیخیں نکل گئیں تھیں۔
”مائی گڈنیس…! ولید…!کیا ہوا ہے آپ کو…؟“
اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑے اشعر کی موجودگی کی پرواہ کئے بغیر وہ دوڑ کر اس سے لپٹ کر سراسیمگی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے بولی۔
اشعر کے چہرے پر بھی فطری تشویش تھی، مگر اس نے حواس نہیں کھوئے تھے۔
”افوہ…! آہستہ بولو، ساری دُنیا کو بتا کر رہو گی کیا…؟“
ولید اسے بازو سے پکڑ کر خود سے الگ کرتے ہوئے کسی قدر جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر بولا تھا، مگر وہ حواسوں میں ہی کہاں رہی تھی…؟ موسیٰ کی دھمکیاں تمام تر سفاکی کے ہمراہ یاد آتے ہی اس کا دل پھڑپھڑانے لگا تھا۔
ولید اسے نظر انداز کئے تیز قدموں سے چلتا اپنے کمرے میں چلا گیا، اشعر بھی پیچھے ہی تھا۔
”معمولی ایکسیڈنٹ ہے یار…! ڈونٹ وری…! تم ذرا میڈیکل باکس لاؤ میرا۔“
ایمان اندر آئی تو ولید نارمل انداز میں اشعر سے بات کر رہا تھا۔
”دکھائیں، کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو…؟ میرے خدا…!اتنا خون…؟“
وہ یوں ہی روتی سسکتی اس کے نزدیک آئی اور اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔
”ایک کام کر لو تم، چاہے رو لو چاہے…“
ولید کا موڈ بری طرح سے بگڑا تھا۔
”میرا دل گھبرا رہا ہے ولید…! مجھے بتائیں، کسی نے جان بوجھ کر تو آپ کو نہیں مارا…؟“
”کیا لو گی تم چپ ہونے کا…؟ ویسے ابھی زندہ سلامت کھڑا ہوں تمہارے سامنے۔ یہ رونے دھونے کا پروگرام ابھی ملتوی کر دو۔“
تنک کر کہتے ہوئے وہ کسی قدر بے لچک اور روڈ لہجے میں بولا۔
ایمان تو اس کے الفاظ کی سفاکی پہ لرز اُٹھی تھی۔
”خدا نہ کرے…! کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ…؟“
وہ ایک بار پھر بلک اُٹھی۔ ولید حسن نے عاجز ہو کر اسے دیکھا۔
”یہ دیکھو، ہاتھ جوڑ دیئے ہیں تمہارے سامنے، اب رونا تو بند کرو۔ کیوں یقین نہیں آ رہا ہے تمہیں کہ میں ٹھیک ہوں…؟“
بالآخر وہ اس کے آنسوؤں سے ہار گیا تھا۔ ایمان نے آنسوؤں سے جل تھل نگاہوں سے اسے دیکھا، پھر اس کے بازو سے لگ کر اپنی نم آنکھیں اس کی آستین سے رگڑتے ہوئے بولی تھی۔
”اپنا ہمیشہ خیال رکھئے گا، ورنہ میں آپ سے پہلے مر جاؤں گی۔“
”آپ کا حکم سر آنکھوں پر جناب…! اب مجھے اجازت ہے، مرہم پٹی کر لوں اپنی…؟“
ولید نے بے حد فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔ تب وہ چونکی تھی، پھر اشعر کو میڈیکل باکس اُٹھائے مسکراہٹ ضبط کرتے پایا تو گھبراہٹ، تشویش، پریشانی اور اضطراب کی جگہ خفت اور شرمندگی نے لے لی۔ تپے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ صرف اس سے دُور ہی نہیں ہٹی تھی، سرعت سے پلٹ کر کمرے سے ہی نکل گئی۔ سیڑھیاں اُتر کر نیچے آئی تو تاؤ جی سر پہ ٹوپی لئے اپنے کمرے سے باہر آئے تھے۔

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط